ہماری درسی کتابیں آؤٹ آف ڈیٹ ہوگئی ہیں


ایک ہمارے وی بلاگر ہیں جنید اکرم (گنجی سواگ) ۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے ایک سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کلاس نہم کی کمپیوٹر کی کتاب پر چند اعتراضات کیے ہیں۔ ان کا اپنی وڈیو میں یہ کہنا تھا کہ ہماری درسی کتابیں آؤٹ آف ڈیٹ ہوگئی ہیں۔ دنیا میں آج کل ونڈوز 10 یا کوئی جدید آپریٹنگ سسٹم چل رہا ہے، جبکہ ہماری درسی کتاب میں آج کل ونڈوز 98 جیسے پرانے سسٹم کے بارے ہی میں بات ہورہی ہے۔ یہ کتاب جب پہلی دفعہ 1999 میں چھپ کر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے شائع کی گئی، تو اس وقت ونڈوز 98 ہی زیادہ تر کمپیوٹرز پر چل رہا تھا۔

لیکن اب اس بات کو قریبا 30 سال ہونے کو آرہے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں آج کل زمین آسمان کا فرق آگیا ہے۔ پھر اس کے بعد انہوں نے فلاپی ڈسکس سے متعلق کچھ باتیں کہیں کہ فلاپی ڈسکس کے متعلق تفضیل سے پڑھانا کیا آج کل اتنا ضروری ہے؟ اس سے بات سے پہلے جنید بھائی نے انڈیا کی چند مثالیں دی تھیں کہ گوگل کا CEOایک بھارتی ہے۔ اسی طرح مختلف اور بھی انٹرنیشنل کمپنیوں کے CEO انڈین ہی ہیں۔ انہوں نے اپنی وڈیو میں اس سوال کو اٹھایا کہ کیوں نہیں ایک انٹرنیشنل برانڈ کی کمپنی کا CEOایک پاکستانی ہوتا؟

پھر انہوں نے چند اور باتیں کہہ کر پاکستانی درسی کتابوں کے متعلق وہ بات کہی، جس کا میں اوپر حوالہ دے چکا ہوں۔ کہہ تو یہ بالکل ٹھیک ہی رہا ہے۔ لیکن ذرا ایک بات مجھے کوئی بتائے کہ کیا انڈیا کے اسکولوں میں بھی ایسی ہی کتابیں ملتی ہیں جن میں ونڈوز 98 کو نہیں بلکہ ونڈوز 10 ہی پڑھائی جاتی ہو؟ وہاں کیا فلاپی ڈسک نہیں پڑھائی جاتی؟ کبھی انڈین کتابوں میں کورس میٹیریل پر انہوں نے بات کی ہے۔ تنقید کرنا آسان ہے، آپ کو اس کا حل بھی ساتھ ساتھ دینا چاہیے

اب اس مسئلہ سے نمٹنے کے مکنہ حل کیا کیا ہوسکتے ہیں، اس کے لئے پہلے ان معروضات پر غؤر کرتے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے شاید آپ لوگ ہمارے عام پاکستانی اسکولوں کی کمپیوٹر لیب سے شاید واقف نہیں ہیں۔ ہمارے تمام سرکاری اسکولز اور بہت حد تک پرایؤٹ اسکولوں میں بھی جو کمپیوٹر لیب ہیں، ان میں اب تک پینٹیم ون اور ٹو جیسے کمپیوٹرز اورڈاٹ میٹرکس جیسے پرنٹرزاستعمال ہوتے ہیں۔ ان کمیوٹرز پر ونڈوز 98 جیسے سافٹ ویرز ہی چل سکتے ہیں یا بہت ہوا تو ونڈوز ایکس پی۔ اب اگر نصابی کتب میں تبدیلی بھی کردی جائے اور ونڈوز 10 جیسے ایڈوانسڈ آپریٹنگ سسٹم کتاب میں ایڈ کردی جائے تو ان کو صرف ہم کیا صرف تھیوری کے طور پر پڑھائے گے؟

یہ حال زیادہ تر اسکولوں کا ہے اور گنتی کے چند اسکولوں جیسے سٹی، بیکن اور دو چار ماہانہ دس ہزار فیس والے اسکولوں کو چھوڑ کر تمام پرائیوٹ اسکولز کی لیب خستہ حالت میں ہوتی ہیں، خصوصا وہ پرائیوٹ اسکولز جو ایک چھوٹے سے بنگلے میں بنے ہوتے ہیں اور فی کلاس ان میں چالیس سے پچاس بچہ بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ جب تک ہم اپنی کمپیوٹرلیب کوجدید سامان سے ایکوپ نہیں کریں گے، نصابی کتب میں تبدیلی بے کار ہوگا۔

وڈیو بنانے والے بھائی جان جنید اکرم بہت پرخلوص انسان ہیں اور واقعی ان کو ملک و قوم کا بہت درد بھی ہے۔ لیکن میری یہاں گزارش بس یہ تھی کہ صرف اپنی کتاب کے نقائص گنوانے کے علاوہ وہ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی انڈین کتاب یا بنگلہ دیشی کتاب جو اسی لیول یعنی گورنمنٹ کی نہم دہم جماعت میں پڑھائی جاتی ہو۔ دونوں کتب کا تقابلی جائزہ لیا جاتا اور پھر ہماری کتابوں میں نقائص سے لوگوں کو بتایا جاتا کہ یہ ہیں پرابلمز ہمارے نصاب میں۔ واضح رہے ہمارے سرکاری بک بورڈ کی کتابیں جو ہمارے میٹرک بورڈ کے حساب سے پڑھائی جاتی ہیں ہیں ان کی بات ہورہی ہے۔ تو انڈیا کے سرکاری اسکولز اور ان کے سرکاری بک بورڈ کی کتابوں سے موازنہ کرنا ضروری ہے۔

کتابوں میں جو نصابی مواد ہے کیا ان کو پڑھانے کے لئے ہمارے اساتذہ تیار ہیں؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے اساتذہ بھی لکیر کے فقیر ہوتے ہیں۔ بعض پرائیوٹ اسکولوں میں بھی تعلیم کے نام پر ایک لحاظ سے مذاق ہی ہورہا ہوتا ہے۔ یہ اسکول چار چار پانچ پانچ ہزار روپے میں ایسے ایسے اساتذہ کو بھرتی کررہے ہوتے ہیں جو یا تو صرف انٹر پاس ہوتے ہیں یا پھر فریش گریجویٹ ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے جدید اپ ڈیٹس سے ناواقف ہوتے ہیں۔

ان کو کہا جائے کہ صرف جی ڈبلیو بیسک لینگویج میں ہی ایک چھوٹاسا پروگرام بنا دو تو ان کے ہاتھ پیر پھولنے لگ جاتے ہیں۔ تو سوچیں اگرکتابوں میں جدید آپریٹنگ سسٹم بغیر اساتذہ کی تربیت کے ایک دم تبدیل کردی جائے تو کیا اس کو ہمارے اساتذہ آرام سے پڑھا پائیں گے؟ جن کو کلاس میں سبق کی ریڈنگ کرواکہ سوال جواب رٹوا کر ان کو بس اچھے گریڈ ہی دلوانے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری ٹیچرز کے حال سے بھی سب ہی واقف ہوں گے، جہاں رشوت دے کر بھرتیاں ہورہی ہوتی ہیں۔ تو ضروری بات اس امر کی ہے کہ کتاب کے اپڈیٹس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کا بھی ساتھ ہی بندوبست کا جائے تو بات بنے گی ورنہ اور بات بگڑ جائے گی۔

تمام اسکولوں کو پابند کیا جا ئے کہ اپنے اسکولوں میں فی کلاس پچیس سے تیس بچے سے زیادہ نہ ہوں۔ اگر فی کلاس چالیس، پچاس یا بعض اسکولوں سے میں واقف ہوں، کہ ان کی کلاسوں میں ساٹھ ساٹھ بچہ بیٹھا ہوا ہوتا ہے، ایک اکیلا یا بہت کم کیسز میں دو ٹیچرز کیسے ایمانداری و محنت سے پڑھائیں گے؟ یہ تو ایک قابل سے قابل ٹیچر کے لئے بھی ایک ناممکن بات ہے۔ ان بچوں کو پڑھانے کے لئے یا تو ٹیچر بہت ڈانٹ ڈپٹ کرکے صرف اپنے لیکچر کی موٹی موٹی باتیں بتائے یا پورے سبق کو رٹے کے لحاظ سے بچوں کو بتائے، اور گنے چنے سوال جواب بھی بچوں کو رٹوادے۔

یہ تو بہت نا انصافی والی بات ہوتی ہے۔ ٹیچرز کے ساتھ بھی اور بچوں کے ساتھ بھی۔ اتنی تعداد کے ساتھ آپ کمپیوٹر لیب میں بچوں کو پریکٹیلز کیسے کروائیں گے؟ کہ صرف ایک یا دو ہی پیریڈ لیب کے ہوتے ہیں۔ پھر اگر کوئی اسکول پانچویں سے میٹرک تک کمپیوٹر پڑھا رہا ہو تو دیکھا یہ گیا ہے پورے اسکول میں ایک ہی لیب ہوتی ہے، اس میں بھی چالیس سے پچاس بچے ایک ہی وقت میں پریکٹیلز کررہے ہوتے ہیں جن کی نگرانی ایک ہی ٹیچر کررہا ہوتا ہے۔ ٹیچرز کی قلیل تعداد کے ساتھ نصابی کتب تبدیل کرنا حماقت ہوگا، اس لیے بچوں کی تعداد اسکول والے بڑھاتے ہیں، تو ان کو پابند کیاجائے کہ مزید ٹیچرز ہائر کریں اور اس طرح ان کی تعداد بڑھائی جائے۔

ویسے جنید اکرم بھائی کی باتوں سے مجھے کلی طور پر اتفاق ہے کہ نصابی کتب میں تبدیلی ہونا چاہیے۔ ہمارے نصاب کو تبدیل ہوئے قریبا پچیس سے تیس سال ہوگئے ہیں، اور اس عرصے میں سائنس میں ترقی کے سبب تبدیلیاں آگئی ہیں۔ لیکن صرف کتاب کو تبدیل کرنا اور دوسرے عوامل کو نہیں دیکھنا، میرے خیال سے مناسب نہیں ہوگا۔ اس لئے جہاں نصاب کو تبدیل کیا جائے تو اسی سے متعلق چند دوسری گزاراشات پر بھی عمل کیا جائے، جو میں نے نقاط اپنے اس آرٹیکل میں اٹھائے ہیں۔ صرف درسی کتابوں میں تبدیلی کو لاکر ہم یہ توقع کریں کہ اس طرح بہتری آجائے گی، میرے خیال میں مناسب نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).