سردار اختر مینگل اور میر سرفراز بگتی کے جھگڑے میں قدروں کا نیلام


گزشتہ دِنوں ٹوئٹر پہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال صاحب اور سردار اختر جان مینگل کے درمیان کِسی معاملے پہ بحث ہورہی تھی، کُچھ دیر بعد سابق صوبائی وزیرِ داخلہ اور موجودہ سینیٹر میر سرفراز بگٹی بھی اُس بحث کا حصہ بنے اور چلتے چلتے بحث ایک ایسے مرحلے تک جا پہنچی کہ سردار اختر جان مینگل نے سرفراز بگٹی کو بلاک لسٹ میں ڈال دیا۔

ہُوا کُچھ یوں کہ سرفراز بگٹی نے دبے الفاظوں میں سردار اختر جان مینگل کی نِجی زندگی پہ اُن کی پنجاب میں رشتے داری پہ تنقید کی اور اختر مینگل کی ایک پُرانی ویڈیو اپلوڈ کی جِس میں سردار اختر جان مینگل پنجابیوں کے بارے میں ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔

اُن کی ناراضگی شاید کِسی ایک طبقے سے تھی لیکن سرفراز بگٹی کی جانب سے اِس بات کو لے کر اُن کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کی جانے لگی تب اختر مینگل نے سرفراز بگٹی کو بلاک کردیا۔

بلوچستان میں عوامی حلقوں نے اِس بحث پر برہمی اور افسوس کا اظہار کِیا اور سماجی رابطے کے ذرائع فیسبُک اور ٹوئٹر پر نوجوان طبقے نے بھی کُھل کر اِس پر اپنی رائے دی اور الفاظ کے چُناؤ میں احتیاط نہ برتنے پہ سرفراز بگٹی پر کڑی تنقید کی گئی جِس کے بعد سرفراز بگٹی نے مؤقف اختیار کِیا کہ سردار اختر جان مینگل اُن کے نزدیک قابلِ احترام ہیں اور اگر کوئی شخص یہ ثابت کردے کہ مذکورہ ویڈیو جعلی ہے تو وہ کُھلے دِل سے سردار اختر جان مینگل سے معذرت کریں گے۔

بہرحال کِسی سیاستدان کی ایسی ویڈیو کو بنیاد بنا کر اُس کو غدار ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں ایسے نعرے تقریباً ہر پارٹی اور ہر قوم کے لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف لگائے جو کہ بالکل بھی نہیں لگنے چاہیے تھے۔ میں وفادار اور باقی سب غدار کا سرٹیفیکیٹ بھی سرِ عام بٹتا رہا اور آج بھی اُسی رفتار سے بَٹ رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں ایسے نعرے پشتونوں نے لگائے، سندھیوں نے لگائے، بلوچوں نے لگائے، مہاجروں نے لگائے اور پنجابیوں نے بھی لگائے۔

ماضی میں پیپلز پارٹی کی راہ روکنے کے لئے وَن یونٹ کی طرز پہ ایک نو جماعتی اتحاد آئی جے آئی تشکیل دی گئی جِس کے روحِ رواں اُس وقت کے چہیتے میاں محمد نواز شریف تھے اور انہوں نے اور ایک خاص لابی نے بھی ایک سوچ کو جنم دیا کہ سِندھیوں کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان پہ حکومت کریں اور اِس وجہ سے خالصتاً تعصب یا نَسلی بُنیاد پر نعرے لگائے گئے اور راتوں رات پنجاب کی دیواریں وال چاکنگ سے بھر دی گئیں جِس میں یہ الفاظ درج تھے کہ؛

جاگ پنجابی جاگ، تیری پَگ نوں لگ گیا داغ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مُلک کی مُختصر سی تاریخ ایسے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہے اور اِس کے علاوہ بہت سے ایسے واقعات رُونما ہوئے جو نہیں ہونے چاہیے تھے۔

بحیثیتِ فرد بلوچ معاشرہ بچپن سے ہماری یہ تربیت کی جاتی ہے کہ کِسی کی ماضی یا چند الفاظوں کو لے کر اُس کی ذاتی زندگی پہ تنقید کرنا بلوچ روایات کے عین منافی ہے اور بلوچی زبان میں اِس فعل کو ”شِغان“ کہتے ہیں جو کہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے اور بلوچ معاشرے میں اِس فعل کی حوصلہ شِکنی کی گئی ہے اور اِس کی روک تھام کے لئے بلوچ روایات میں بطور سزا اِس فعل کے مرتکب شخص کو دوسرے فریق کو بھاری جُرمانے ادا کرنے پڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).