محمد اقبال خان عیسیٰ خیل (ایڈووکیٹ) کی یاد میں


سولہ آنے سچ کہیں تو یہ کہ عمر بھر کوئی ڈھنگ کا کام ہی نہیں کیا، سِوائے اِس کے کہ بنجاروں کی طرح گھومے گھامے۔ اونچی اونچی چٹانوں پر چڑھ دوڑتے، چوٹی پر پہنچتے تو دم لیتے۔ یہ گئے گزرے دنوں کی باتیں ہیں جن پر فخر کرنے کی کوئی گنجائش تو خیرنظر نہیں آتی لیکن لکھنے میں حرج کیا ہے۔ سواری میں صرف بیچارے گدھے کو استثنٰی دے رکھا ہے کہ اُس کا اپنا لوڈ بہت ہے لیکن گدھا گاڑی تو گدھا گاڑی ہے جو بہر حال اپنی مرغوب سواری رہی ہے۔

کراچی کے ساحلِ سمندر پر اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ ریڑھی و رکشے، لاری اور ریل، بس، ٹرک، ویگن، کشتی، فیری، جہاز اورنہ جانے مزید جو بھی چرخی مشینوں کے ذرائع حرکت کسی کو یاد ہیں، آج کل کے چنگ چی نامی ہوائی شٹل اور اُڑن کھٹولہ سمیت، تو وہ اپنے ذہن کے ڈیسک میں ڈالیں اور یقین جانیں کہ وہ تمام ذرائع ِسفر ہم نے استعمال کیے ہوں گے۔

وطن کیا، کئی ریاست ہائے مسلم اُمّہ اور غیر مسلم اُمّہ بھی پہنچے، وہ بھی بلائے مہمان بن کر۔ زندگی کی گاڑی ”چلتی کا نام گاڑی ہے“ کے مصداق چلتی رہی۔ اِدھرنشہ باز گروہوں کے مرغولوں میں پھنسے، اُدھر فتنہ بازوں کے ٹولے سے برسرِپیکار ہوئے، یہ لوعلم بازوں میں بازی لگائی، وہ دیکھو تبلیغیوں کے جُھرمٹ میں ’چل بسے‘ ۔ غرض ہر قسم وقدراوررنگ ڈھنگ کے بندوں کے ساتھ پلے بڑھے، چلے پھرے اور بوڑھے ہوئے۔

اِس چال چلن میں کئی لوگ بڑے قریب آتے گئے، کئی دور اورکئی گم ہوتے گئے۔ جمعرات تیئس مئی دو ہزار اُنیس بمطابق اٹھارہ رمضان المبارک دوپہر دو بجے جنازو جومات (جنازگاہ) مینگورہ سوات میں ایسے ہی ایک گُم ہوئے پیارے کی نمازِجنازہ پڑھنے آئے ہیں۔ بیرونی گیٹ کے ساتھ موجود مجمع میں ہم بے جان سے کھڑے ہیں۔ آگے بڑھ کر میت کا چہرہ دیکھنے کی ہمت ہے، نہ پیچھے جانے کی استطاعت۔ کھڑا رہنے کی سکت ہے، نہ بیٹھنے کی طاقت، بس دھڑام سے گرنے کو ہیں، ”پاؤ ں فری“ ہونے کو ہیں۔

کچھ دیر میں جنازہ پڑھنے کی نیت باندھنے کی صدا چاروں اطراف گونجتی ہے۔ ٹیڑھی کمر عارضی طور پرسیدھی کر کے ہم بھی ہونٹ ہلانا شروع کرتے ہیں، ”نیت کرتے ہیں، چار تکبیر نماز جنازہ فرضِ کفایہ کے، واسطے اللہ تعالیٰ کے ثناء کے، درود شریف واسطے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، دعا واسطے حاضراس میت کے، منہ جانبِ کعبہ شریف اور پیچھے اِس امام کے اللہ اکبرکے فرمان کے ساتھ کان چھوتے ہیں اور اِس سے آگے کے تکبیری و تذکیری معاملات میت کے بالمقابل کھڑے امام صاحب کی مرضی و منشا پر چھوڑ کر خود آنکھیں بند کرکے گہرے خیالوں میں کھو جاتے ہیں۔

ہمارے سامنے چارپائی میں پڑی یہ میت، ہمارے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ خاص طور پر سفر کے ساتھیوں میں اور امن کے حوالے سے جاری سرگرمیوں میں شامل ساتھیوں میں یہ ہر اول دستے میں شامل رہتے۔ آج صبح تک اس وادی کے نامی گرامی وکیلوں میں شمار ہوا کرتے تھے۔ یہ بندہ بشر جب دورویشی پر اُتر آتے تو ان کا وہ روپ دیکھ کر آدمی حق دق حیران رہ جاتا۔ یہ جب سلطانی کا جامہ زیبِ تن کرتے اور اِتراتے تو بڑے بڑوں کو توبہ تائب کر لیتے۔ ہم نے اُن کے دونوں روپ بارہا دیکھے ہیں۔ یہ غریبوں، مفلسوں اور لاچاروں کے سامنے جتنا موم کی ناک بن جاتے، اتنا وقت کے فرعونوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنتے۔ ظلم وزیادتی دیکھ کر ان کا دماغ پھٹ پڑتا۔ باقاعدہ شاعری نہیں کرتے تھے، کرتے تو دماغوں میں حق وسچ کی بات چُھریوں کی طرح چلاتے، جیسے۔

زہ خو تور تہ تور وائم پختون یمہ

سپور سڑی تہ سپور وائم پختون یمہ

حق خبرہ کومہ زہ د َدار پہ سر

ہر سہ پہ خپل زور وائم پختون یمہ

جاننے کو تو ہم اُن کوایک عرصہ سے جانتے تھے کہ تعلق ایک ہی برادری سے تھا۔ زیادہ واسطہ تب پڑا جب سوات میں امن کے حوالے سے جاری سرگرمیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اُٹھک بیٹھک شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ وسیع ہوتا گیا۔ تاآنکہ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بننے کے بعد اُن کازیادہ تروقت اس کی منصوبہ بندی اور دوستوں کے ساتھ بحث و مباحثہ میں گزرجاتا۔ اپنے بے لوث کردار کے طفیل وہ پی ٹی ایم سوات کے مشر منتخب ہوئے اور اس کے بائیس رُکنی قومی کور کمیٹی میں بھی اپنی جگہ بنائی۔

وہ سر تا پا داعیِ امن بنے رہے، یہاں تک کہ اپنے گھر کے تمام مرد و زن اور بال بچوں کو بھی اِن سرگرمیوں کے لئے وقف کیا، ہے کوئی ایسا۔ اِن کا دفتر دوستوں اور مہمانوں سے بھرا رہتا۔ یہ سارا دن خود ہی کافی، چائے یا قہوہ بنانے میں مصروف بھی رہتے ا ور گپیں بھی لگاتے۔ پشاور، اسلام آباد وغیرہ میں جب بھی اجتماعی سرگرمیاں ہوتیں تو ہم اکٹھے چل پڑتے۔ ایک ہی گاڑی میں پچھلی نشست پر بیٹھ کر گپ شپ شروع ہوتی تو کچھ ایسی صورتِحال بپا ہوتی کہ ہم بولا اور وہ سُنا کرتے۔

اتنی دلچسپی کے ساتھ ہمارے ارشادات سُنتے کہ کسی وجہ سے باتوں کے تسلسل میں بریک لینا پڑتی یا مجبوراً کوئی اہم بات کرنے کے لئے فون سُننا پڑتا تو فوری بعد بات کا ٹوٹا ہوا سِرا، جیسے اندھے کو عصا، ہمیں پکڑا کر آگے چلنے کا اشارہ دیتے۔ اُن سے تعلق سے پہلے اپنی وادیِ سوات سے محبت میں ہم خود کواتنے بڑے تیس مار خان سمجھتے تھے کہ ہر قسم کے عمومی تقریری سٹَف میں بھی اکثر و بیشتر اِس قبیح کے اشعارہر حال میں شاملِ حال کرنے کے بہانے ڈھونڈتے پھرتے، جیسے کہ:

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اِس دوڑ میں اقبال خان کے دیوانہ پن کوقریب سے دیکھا، جانچا توآنکھیں کھلیں کہ اِس مد میں تو ابھی ہم چار پائے کے درجے پر بھی فائز نہیں ہوئے۔ اُن کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کے جب بھی مواقع ملتے تواُس دوران میں عرصے سے بھرے دل کا غبار بیٹھ جاتا، دماغ تروتازہ ہو جاتا۔ ہم اُن کو اپنی بہادری اور شجاعت کی شاہکارداستانیں بھی گوش گذار کرتے، بہلانے پھسلانے، وہ مزے مزے لے لے کرسُنتے، اِنجوائے کرتے اورمسکراتے۔

بد امنی کی رودادیں اور دہشت گردوں کے ہولناک واقعات اور سوات وطن کو پہنچنے والے نقصانات کا سُن کراُن قوتوں پر آگ بگولا ہو جاتے، جو یہ ”ڈالر وں کی جنگ“ ہماری جنت میں درآمد کر کے لائے ہیں۔ اُن کا جسم کپکپاتا، چہرے کا رنگ فق اورآنکھیں سُرخ ہوجا تیں۔ شدید کرب کی کیفیت میں چلے جاتے اور آنسوؤں کی لڑی اُن کی آنکھوں سے لڑھک کر چہرے پر پھیلنے لگتی تو ہم فوری طور پر بات کی تان کو لپیٹ کر کسی اور بات کا سِرا پکڑا دیتے اور اُنہیں ہنسانے کا اہتمام کرتے۔

کرنے کو تو وکالت کرتے تھے، آپ، لیکن امن سے متعلق سرگرمیوں کے لئے اپنی تمام مصروفیات منسوخ کرتے اور اپنے مؤکلوں کو صاف صاف جواب دے کر بتاتے پہلے مٹی کا معاملہ محترم، پھر روٹی کا۔ ڈر اور خوف کے نام و نشان سے واقف نہ تھے۔ ناجائز کام ہوتے دیکھ کر یا سُن کراُن کا وتیرہ ہمارے جیسے خاموش کبھی نہ ہوتا، وہ تنِ تنہا اس کے خلاف برسرِپیکار ہو جاتے۔ ہر بدی اور خرابی کے خلاف عملی میدان میں لڑنے کو حقیقی جدوجہد سمجھتے۔

عمومی معاملات میں وہ انتہائی سچے، سادے اور کھرے انسان تھے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے باخبر تھے کہ بینجو جیسے پیچیدہ آلہ موسیقی کو بجانے میں اُن کو کمال کا ملکہ حاصل تھا، پورے پختون خوا میں بینجوکے دو ماہر تھے جن میں سے ایک پشاور سے تعلق رکھتے تھے دوسرے یہ تھے۔ کبھی نزدیکی دوستوں کی محفل جمتی تو اُردو، پشتو کے پُرانے گانے و غزل بڑی دردناک انداز میں گاتے۔ وہ دشمنوں کے کھلم کھلا دشمن اور دوستوں کے برملا دوست تو تھے، بچوں کو بھی والدینی نہیں دوستانہ رفاقت دیتے۔ جزاک اللہ۔

شکر ہے کہ اِس نقلی سی، کاغذی سی، عارضی سی، سرابی سی اور خوف و بد امنی میں لتھڑی سی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف وہ خود بہ خودکوچ کرگئے۔ وگرنہ بعید نہیں تھا کہ کچھ ہی عرصے میں وہ نامعلوموں کی فہرست میں شمار ہوتے، قضا و قدر کے کان بہرے ہوں، بات یہاں پہنچتی ہے تو ”السلام علیکم و رحمت اللہ“ کی صدا کانوں میں رس گھولتی ہے، آنکھیں کھولتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام صاحب جنازے کی تکبیریں مکمل کرکے سلام پھیر رہے ہیں، ہم بھی فوری سلام پھیر کردُعا مانگتے ہیں اور اِس کوفت زدہ دُنیا میں دوبارہ کوُد پڑنے مسجد کے دروازے سے باہر قدم رکھتے ہیں۔

ایک آخری نظرِخطا اُس چارپائی پر دے مارتے ہیں۔ یہ ایڈووکیٹ محمد اقبال خان عیسیٰ خیل کا جنازہ جا رہا ہے۔ جس کو کندھا دینے کی حسرت دل میں لئے پیاسے روزہ داروں کا ایک جمِ غفیر دیوانوں کی طرح آگے بڑھ رہا ہے، دوڑ رہاہے۔ گویا کسی پیر کے پیچھے مرید۔ خاک میں خاک ہونے نہیں، خاک میں ایک بارآور یاد بننے، یاد رہنے۔

اقبال خان، تم تو گئے خاک میں لیکن اپنا ایک وکھرا نام و نشان یہاں چھوڑ گئے ہو۔ تم ایک علامت بن چُکے ہو، امن کے۔ بد امنی کے خلاف ایک جہدِ مسلسل کی۔ مظلوموں، لاچاروں اور بے بسوں کے دلوں میں بسنے کی۔ تاریخ تمہیں یاد رکھے گی کہ تم نے طویل جدوجہد کی، لازوال داستانوں میں اپنا کردار بڑے رنگ ڈھنگ سے رقم کر لیا ہے۔ تم نے بد امنی سے نبر آزما نئی پود کواِس کڑوی کسیلی زندگی کے ساتھ آنکھیں چارکرکے جینے کا گُر سکھایا۔

بذات خود ہمیں تیرے فوت ہونے کا کوئی ملال نہیں، کیونکہ یہی ایک منزل ہے زندگی کے سفر کی، جس کی طرف ہم سب تیزی کے ساتھ رواں دواں، آپ ہی کی طرف جلد یا بدیرآنے والے ہیں، ”کہ سوک زی او کہ سوک نہ زی“۔ پَر اللہ کو پیارے ہونے تک ایک بہت شدیدقسم کا رنج ہمارے پلّے بندھار ہے گا۔ یہاں ہونے والے بے حساب و بے کنار ظلم و ستم کا رنج، وہ ہمارے پیاروں کی ہڈیاں نوچنے والے کتوں اورکوؤں کی یادوں کا رنج، وہ کھمبوں کے ساتھ لٹکنے والی بے گناہ کھوپڑیوں کی کہانیاں، اور علیٰ ہٰذالقیاس۔

ہمارے ”میڈ اِن پاکستان“ شجاعت وبہادری کی داستانوں کی رُباعیاں اب سُنے گا کون؟ اور اُن پر بند آنکھوں سے من وعن یقین کرے گا کون؟ اِن دو سوالات کے جواب دینا تھے، جانے سے پہلے اور روزوں سے چند دِن پہلے عثمان اولس یار کے ساتھ ہماراحال پوچھنے گاؤں جو آئے، بھائیوں کے ساتھ احوال کرکے واپس بھاگے تم، ہم سے ملے بغیر، کہ ہم جیسے بیمار سے آنکھیں چار نہیں کر سکتے تھے، تو یہ بُزدلی کیسی؟ یار، ہم نے تو تیری بہادری کے کئی بڑے قصے لوگوں سے سُنے بھی تھے اور کئی شگوفے ہم نے چھوڑے بھی تھے، بھگوڑے کہیں کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).