ہم تاریخ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟


تاریخ کا مطالعہ مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہے۔ طالب علم ڈھیر ساری تاریخوں، شخصیات سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ اکثر یہ آپس میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں اور پھر ان بھول بھلیوں میں شاگرد خود کہیں گم ہو جاتا ہے۔ پھر باری آتی ہے ان کی جو تاریخ سے لطف اندوز ہونے کے لئے اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے تاریخ مجموعہ ہے ان ڈھیر سارے واقعات کا جو کہ بہت دلچسپ اور حیران کن ہوتے ہیں۔ مزید مطالعہ آپ کی سوچوں کی پختگی اور وسعت کا باعث بنتا ہے اور پھر آپ تیسرے درجے میں پہنچتے ہیں جہاں تاریخ آپ کو اپنی جانب اس لئے راغب کرتی ہے کہ اب آپ مختلف قوموں، ان کے حالات و واقعات کا موازنہ شروع کردیتے ہیں اور اس میں آپ کی اپنی ذہنی سوچ بچار بھی شامل ہوجاتی ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کئی طریقوں سے آپ کو سوچ بچار کی غذا فراہم کرتی ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ مستند تاریخ کے مطالعے سے پہلے آپ کو حیرت کا سامنا کرنا پڑے گا اور بعد میں شاید آپ کو پہلے سے سیکھی ہوئی چیزیں فراموش کرنا پڑجائیں۔ ہر قوم تاریخ کو اپنے مفادات اور عوام کا دل خوش کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ تاریخ میں ہر قوم اپنے آپ کو دلیر، بہادر، ایماندار اور عالی ہمت قرار دیتی ہے اور وہ بھی بلا شرکت غیرے جبکہ دوسری اقوام کو پست ہمت، چالاک، بے ایمان اور بزدل بنا کر پیش کرتی ہے۔ اس لیے جب مستند تاریخ سے آپ کا واسطہ پڑے تو ہوسکتا ہے کہ آپ مایوس ہوں کیونکہ یہ اس تاریخ سے کاملاً مختلف ہوگی جو کہ آپ کو پڑھائی گئی ہے یا جسے آپ سننے کے عادی ہو چکے ہیں۔

ہمارے آج کے میڈیا کی طرح تاریخ دان بھی صرف انہی واقعات کو قلم بند کرتے ہیں جس میں جنگ و جدل اور حرص و سازش ہو جبکہ امن کے ادوار زیادہ تر خاموشی کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ اس لیے تاریخ کا اکثر حصہ فتوحات، سازشوں، قتل و فتنہ اور دیگر فسادات پر مشتمل ہے۔ سکندرِاعظم کی فتوحات، عظیم سلطنت ِ روم، فارس کے شان و شوکت والے بادشاہان، مسلمان فاتحین کی فتوحات، منگولوں کی یلغار اور تاخت و تاراج، عثمانیوں کی وسیع و عریض سلطنت ہو یا یورپی اقوام کی نو آبادیاتی ریاست، ان سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے جنگی کشمکش لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان تمام واقعات سے بادشاہ یا ان کے چند مقربین تو خوشحال ہوئے لیکن عوام کی اکثریت دربدری کا شکار رہی۔

اس سب کے مقابلے میں امن کے ادوار بہت کم ہیں لیکن تہذیبِ انسانی کو انہی چند مختصر ادوار نے نئی زندگی بخشی ہے۔ ہندوستان کی قدیم آریائی سلطنتیں جنہوں نے اپنی درسگاہوں کی ابتداء کی اور مختلف علوم اور فنوں کو فروغ دے کر آبادی کے بڑے حصے کے لئے خوشحالی لے آئے۔ یونانی فلسفیوں کے علم و دانش سے ہم آج تک مستفید ہورہے ہیں۔ اسلام کے درخشاں ادوار میں نہ صرف یونانی فلسفے کو حیاتِ نودی گئی بلکہ جدید سائنسی علوم کی داغ بیل بھی ڈالی گئی لیکن ان سب میں اہم وہ عظیم چینی سلطنتیں ہیں جنہوں نے اپنی عوام کو صدیوں تک جنگ وجدل سے پاک ماحول عطا کرکے عام آدمی کی زندگی کو سکون، ترقی اور فلاح سے ہمکنار کیا۔

ایک بات تو طے ہے کہ جب تک اقوام امن و انصاف سے حکومت کرتی رہی ان کا سکہ چلتا رہا اور جیسے ہی وہ ظلم و فساد کی طرف مائل ہوئے، قدرت نے ان کا بوریا بستر گول کردیا۔ سلطنتِ روم جب تک اپنے مقبوضہ علاقوں میں انصاف اور برابری کے بنیاد پر حکومت کرتی رہی ان کی شان و شوکت برقرار رہی اور جب ظلم اور بے انصافی کو پیشہ بنا لیا تو وہ اپنی تمام شان و شوکت کھو بیٹھے۔ فارس کی سلطنت ہو کہ وحشی منگول مسلمانوں کی وسیع و عریض سلطنت ہو یا عثمانیوں کی سلطنت، ہر جگہ یہی نسخہ چلا آیا ہے کہ ظالم کے اوپر اس سے بڑا ظالم مسلط کردیا گیا۔

ان قوموں کی عمریں طویل ہوئی ہیں جنہوں نے اپنی سرزمین پر اکتفا کیا اور دوسروں پر چڑھائی کرنے سے گریز کی۔ چینی سلطنتیں بڑی اور طاقتور ہونے کے باوجود اپنی حدود تک محدود رہیں۔ ان کی امن کی خواہش کا اندازہ اس سے لگالیں کہ منگول لٹیروں سے بچنے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی اور نادر دیوار تک بنا ڈالی۔ جسے آج دیوارِ چین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی سلطنتیں ہزاروں سال تک نہایت آرام و سکون سے قائم رہیں۔

اس کے مقابلے میں پندرہویں صدی کے بعد اپنی بحری بالادستی کی وجہ سے دنیا کے ایک عظیم حصے پر قبضہ کرنے کے باوجود سلطنتِ انگلشیہ کا آفتاب چار سے پانچ صدیوں میں ہی غروب ہوگیا اور آج کا انگلینڈ اس عظیم سلطنت کے کسی صوبے کے برابر بھی نہیں۔ یہ چار سے پانچ صدیاں بھی وہ آرام و سکون سے نہ گزار سکے، ہندوستان میں عوام کی آزادی کی تحریک ہو یا افریقا کی نوآبادیوں میں وقتاً فوقتاً پھوٹ پڑنے والی بغاوتیں، انگلستانی سلطنت ہمیشہ دردِ سری کا شکار رہی۔

اسی تناظر میں دورِجدید میں امریکی تاریخ کا مطالعہ کافی دلچسپی کا حامل رہا ہے۔ انیسویں صدی کی آخری چند دہائیوں میں ایک بڑی معیشت کے طور پر اُبھرنے سے لے کر آج تک امریکا سینکٹروں ملکوں پر فوج کشی کر چکا ہے یا وہاں حکومتوں کو گرانے میں پسِ پردہ سازشوں میں مصروف رہا ہے۔ لیکن جس طرح کہ نظر آرہا ہے یہ عظیم ملک بھی محض ڈیڑھ یا دو صدیوں میں ہی اپنی حیثیت گنوا دے گا اور تاریخ میں اس کا ذکر دو سے تین صدیوں تک ہی رہے گا۔

تاریخ کی غیر مستند اور غیر جانبدارانہ مطالعے سے آپ کے لئے دوسری قومیں قابلِ احترام ہوجاتی ہیں اور آپ اپنے بارے میں غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں دونوں میں مبتلا ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں ہندوستان اور ہندوؤں کو ایک متعصب، تنگ نظر اور اسلام دشمن قوم کے طور پر جانا جاتا ہے یا ہمیں اسی طرح کی تاریخ پڑھائی گئی ہے۔ اس بحث میں پڑنے کے بجائے کہ ہمیں پڑھائی گئی تاریخ کس حد تک مستند اور معتبر ہے۔

یہ بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے کہ وہ تقریباً چھ ہزار سال پرانی تہذیب کے امین ہیں۔ جہاں فنونِ لطیفہ، جہاز سازی و جہاز رانی، دوردراز ملکوں سے بحری تجارت اور عظیم درسگاہوں کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ہم جب تعصب اور نفرت کی عینک کو اُتار کے دیکھیں گے تو حقیقی تصویر نظر آئے گی اور دنیا مزید پرامن اور مستحکم جگہ بن جائے گی۔

اس طرح اسلامی تاریخ کو ابتداء سے لے کر انتہا تک نہایت ہی زریں، خوشحال اور بہترین وقت قرار دیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی چند فتنے سر اُٹھانے لگے تھے اور خلفائے راشدین کے بعد اسلامی جمہوری ریاست کو بادشاہت میں تبدیل کردیا گیا۔ مسلمانوں نے اپنی فتوحات، سائنسی تحقیق و جستجو اور معاشرتی ترقی سے تاریخ کے صفحات میں اپنا ایک مقام پیدا کیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تمام عرصے میں اندرونی چپقلش، حکمرانوں کی عیاشیاں اور آخری ادوار میں سیاسی اور علمی جمود نے وہ حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے آج بھی مسلمان گرچہ عددی برتری رکھتے ہیں۔ مگر باقی ہر لحاظ سے دیگر اقوام سے پسماندہ ہیں۔ تاریخ کے اس حقیقت پسندانہ مطالعے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اِبنُ الوقت آپ کو اسلام کے نام پر بیوقوف بنا کر آپ کے جذبات سے غلط فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ کیونکہ یہی ہمیشہ سے ہمارے نام نہاد، مذہبی اور سیاسی لیڈروں کا ایک مؤثر اور کارگر حربہ چلا آرہا ہے۔

تاریخ میں چند معجزانہ واقعات کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس میں سب سے پہلے جاپان کا ذکر ہوجائے جس نے تقریباً تین صدیوں تک پوری دنیا سے کٹے رہنے کے بعد جب تعلقات استوار کیے تو پتہ چلا کہ اقتصادی ترقی اور سائنسی پیشرفت میں باقی ملک ان سے آگے نکل چکے ہیں اور جاپان ان کے مقابلے میں کمزور اور پسماندہ رہ گیا ہے۔ پھر جاپانی قوم نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ پوری جاپانی قوم جدید تعلیم کے حصول میں جُت گئی اور پھر چند دہائیوں میں ہی جاپان بھی دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے برابر آگیا۔

دوسری مثال ترکی کے جدید معمار مصطفٰی کمال اتاترک کی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال تک ترکی ہر لحاظ سے مغربی ملکوں کے برابر بلکہ برتر تھا لیکن مغربی ممالک سائنسی اور صنعتی پیشرفت کی وجہ سے ترکی سے آگے نکل گئے۔ مصطفٰی کمال اتاترک نے جب ایک سیکیولر مملکت کی بنیاد رکھی تو ان تمام عناصر کے پیچھے پڑگیا جن کی وجہ سے ترکی دیگر ممالک سے پسماندہ تھا۔ اُس کے ان اصلاحات سے ترکی میں اسلام پر کاری ضرب پڑی۔ اسلامی لباس کو مغربی لباس میں تبدیل کردیا گیا۔ عربی رسمُ الخط کو تبدیل کرکے رومی رسمُ الخط رائج کردیا گیا۔ مدارس اور مساجد کو تالے لگا کر سکول اور یونیورسٹیاں قائم کردی گئیں۔ حالانکہ ظاہری تبدیلیاں اس قدر مؤثر نہیں ہوتی مگر ترکی کے معاملے میں یہ نسخہ کامیاب رہا۔ یہ نہ صرف ظاہری طور پر مغربی بنی بلکہ علم و ادب اور سائنسی پیشرفت میں مغرب کے برابر آگئی اور آج بھی ترکی کسی بھی یورپی مملکت سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔

پندرہویں صدی کے بعد مغربی ممالک کی ترقی میں دو عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک صنعتی پیشرفت اور دوسری دوردراز کے علاقوں تک رسائی اور ان کی دریافت۔ صنعتی اشیاء کی پیداوار میں حیران کن اضافے سے تجارت کو فروغ دیا اور لوگوں کی آمدنی میں آضافہ کیا لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ اس قدر مصنوعات کو کس پر فروخت کیا جائے؟ لیکن بالآخر مہم جوؤں نے اس مسئلے کا حل سوچا اور دنیا کے چاروں کونوں میں نکل پڑے یہاں تک کہ کچھ آسڑیلیا اور نیوزی لینڈ تک اور کچھ ہندوستان اور چین تک جا پہنچے۔

ان مہم جوؤں نے مغربی ممالک کو مہمیز دی کہ وہ مضبوط بحری فوج بنائیں اور یوں اس فوج نے دیگر ممالک پر قبضہ کرکے نوآبادیاتی نظام کی ابتدا کی۔ انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ، پرتگال، اٹلی، اسپین اور دیگر ممالک نے ایشیائی اور افریقی ممالک کی بندربانٹ کر لی۔ اس سے نہ صرف ان ممالک کو مزید طاقت میسر ہوئی بلکہ اپنی صنعتی مصنوعات کو بیچنے کے لئے منڈیاں بھی دستیاب ہوگئیں۔

مختصراً یہ کہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن پر ہم سوچ بچار کرکے ڈھیر سارے اسباق حاصل کرسکتے ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ سیکھتے ہیں یا پھر اس کو پسِ پشت ڈال کر خود بھی تاریخ کے گمنام اوراق کا حصہ بن جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).