آپ بے غیرت نہیں ہیں


آپ صبح اپنے وقت پر اٹھے، روٹین کے مطابق نہائے دھوئے، ناشتہ کیا اور کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑ کر سٹڈی میں پہنچے۔ اپنی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن کرسی نے یک دم آپ کو اپنے اوپر بیٹھنے سے منع کر دیا۔ کرسی بولنا شروع ہو جاتی ہے اور اپ کو کہتی کہ میں آپ کو مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ آپ آئندہ مجھ پر بیٹھنے کی کوشش نہ کرنا۔ آپ کو غصے کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی ہوتی ہے۔ کرسی آپ کی ملکیت ہے۔ آپ اپنے سکھ، آرام اور استعمال کی غرض سے اسے اپنے گھر بہت سی کرسیوں سے چن کر لائے ہیں۔

اس کرسی کو کہاں سے اختیار اور زبان مل گئی کہ وہ آگے سے مجھے کچھ بتائے۔ یہ کرسی میری ہے۔ میں اس کرسی کا مالک ہوں اور جب چاہوں گا جیسے چاہوں گا اس پر بیٹھوں گا۔ جب تک چاہوں گا اس پر بیٹھوں گا اور جب چاہوں گا اس کو سٹور میں پھینک دوں گا اور اس کی جگہ ایک نئی کرسی لے آؤں گا۔ آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ کرسی کا کوئی دل دماغ نہیں ہوتا۔ اس کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔ اس کو کبھی تکلیف نہیں ہوتی۔ سٹور میں رہے یا سٹڈی میں اس کے لیے برابر ہے۔ جو بھی چیز آپ کی ملکیت میں ہے ان سب کے بارے میں یہی سچ ہے۔ زن، زر اور زمین سب اسی میں آتا ہے۔ سب کو ایک ہی جیسا ٹریٹ کیا جاتا ہے۔

زن، زر اور زمیں سب آپ کی ملکیت ہیں اور آپ کی ایک عادت بنی ہوئی ہے، آپ انہیں ایک ہی طریقے سے ٹریٹ کرتے ہیں۔ ان تینوں کی ہی زبان نہیں ہوتی۔ وہ بول نہیں سکتیں۔ ہمیں ان کی آواز سننے کی عادت نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی بھی آگے سے بول پڑے تو ہم اتنے ہی حیران پریشان ہو جاتے ہیں جیسے کہ آپ کی کرسی بول پڑی تو آپ پریشان ہو گئے۔ یہ سب بہت ہی غیر متوقع ہے۔

اگلے پیراگراف پر پہنچنے سے پہلے چند سوالات پوچھنے ضروری ہیں۔ آپ کون ہیں اور آپ کے خیال میں آپ کا مذہب آپ کو کیا درس دیتا ہے۔ کیا آپ انسانوں کے درمیان برابری کے قائل ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں آپ کا مذہب انسانوں کے درمیان برابری کا درس دیتا ہے؟ آپ کیسے پڑوسی، دوست یا شہری ہیں؟ کیا آپ فرسودہ روایات کو انسانی زندگیوں پر ترجیح دیتے ہیں؟ اگر آپ کہیں تقریر کر رہے ہوں تو یقینا آپ انسانی کی برابری کا درس دیں گے اور اسی بات کے حق میں دلائل اپنے مذہب سے بھی ڈھونڈ کر لائیں گے۔ آپ اور آپ کا مذہب فرسودہ روایات کو انسانی زندگی پر ترجیح نہیں دیتے ہوں گے۔

کرسی کے بولنے جتنی ہی غیر متوقع بات یہ ہو گی اگر آپ صبح اٹھے، روٹین میں صبح کے سب کام کیے اور ناشتے کے بعد آپ کی بیوی آپ کے پاس آ کر بیٹھی اور آپ کو بتایا کہ وہ اب مزید آپ کی بیوی بن کر نہیں رہنا چاہتی۔ آپ شوہر کے طور پر اسے اچھے نہیں لگتے اور یہ کہ وہ کسی اور کو پسند کرنے لگی ہے۔ وہ اب اسی کی بیوی بننا چاہتی ہے جسے وہ پسند کرتی ہے۔ اب کیا ہو گا۔

اب کیا ہو گا اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون ہیں۔ اگر آپ اندر سے بھی وہی ہیں جس کا درس دینے کا انتخاب آپ نے اپنی تقریر کے لیے کیا تھا یعنی آپ انسانوں کے درمیان برابری کے قائل ہیں اور آپ کے خیال میں آپ کا مذہب بھی اسی بات کا درس دیتا ہے تو آپ کا ری ایکشن وہ نہیں ہو گا جو کرسی کی باتیں سن کر تھا۔ آپ کا ری ایکشن بہت بھیانک ہو سکتا ہے اگر آپ انسانوں کے درمیان تفریق کے قائل ہیں اور آپ فرسودہ رسومات کو انسانی زندگی اور سکھ پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ وہ نہیں ہے جس کا درس آپ اپنی تقریر میں دینا پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنے مذہب سے ریفرنس بھی دیتے ہیں۔

یہی واقعہ اگر آپ کے پڑوس، شہر یا ملک میں ہوا ہے جس میں ایک عورت نے اپنے شوہر کو یہ خبر دی کہ وہ اب مزید آپ کی بیوی بن کر نہیں رہنا چاہتی اور یہ کہ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے اور وہ شخص اپنی بیوی کی بات پر ناراض نہیں ہوتا کوئی ہنگامہ نہیں کرتا اور وہ بڑے آرام سے اپنی بیوی کی خواہش کے مطابق اس کو طلاق دے دیتا ہے اور وہ عورت اپنی مرضی کے مرد سے شادی کر لیتی ہے تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا۔ اس شخص کو ایک بد ترین بے غیرت کہیں گے کہ جس کی کوئی عزت نہیں ہے یا اس کے اس عمل کی قدر کریں گے کہ اس نے ویسا ہی کیا ہے جس کا درس آپ اپنی تقریر میں دیتے ہیں اور اس کے لیے حوالے بھی اپنے مذہب سے دیتے ہیں۔

سارا پاکستان خاور مانیکا صاحب کا مذاق اڑا کر مزے لیتا ہے۔ میں خاور مانیکا صاحب کے اس عمل کی دل سے عزت کرتا ہوں۔ انہوں نے اس بات کا عملی ثبوت دیا ہے کہ وہ عورتوں اور مردوں کی برابری کے قائل ہیں۔ ان کی بیگم ان کی بیوی تھی کرسی کی طرح ان کی ملکیت نہیں تھی۔ جب اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ ان کی بیوی بن کر نہیں رہنا چاہتی تو انہوں نے زبردستی اسے اپنی بیوی بنا کر رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ بہت خوب صورت بات ہے اور ہمیں اس بات کی قدر کرنا چاہیے۔ کسی عورت کو زبردستی اپنی بیوی بنانا باعث شرم ہے نہ کہ باعث فخر۔

تھوڑا سا غیر جانبداری سے سوچیں تو یہ کوئی اتنی انہونی اور عجیب بات بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں لاکھوں مردوں نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی ہے تاکہ وہ اپنی نئی پسند کی خاتون سے شادی کر سکیں۔ ان تمام کیسز میں انہوں نے اپنی بیوی کو یہی بتاتے ہیں نا کہ ”میں اب مزید تمہیں اپنی بیوی بنا کر نہیں رکھ سکتا کیونکہ مجھے کوئی اور پسند آ گئی ہے اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں“۔ اگر آپ کو اور آپ کے مذہب کو انسانوں کے درمیان برابری کا دعوی ہے تو پھر آپ بے غیرت نہیں ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik