کبھی کبھی بلاوجہ ہی نیکی کر دینی چاہیے


کئی چھوٹے چھوٹے سے بظاہر غیر اہم واقعات ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو جاتے ہیں۔ اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک شخص کو جوس کا ایک ڈبہ اور ایک کیک پیس خرید کر دیا تھا اور یہ بات بیس بائیس سال بعد بھی مجھے یاد ہے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ لیکن اس زمانے میں خرچ کیے گئے یہ آٹھ دس روپے یاد رکھنے کی ایک وجہ ہے۔ ایک شخص کے آنسو۔

اس زمانے میں میں کراچی میں بوٹ بیسن کے علاقے میں پے انگ گیسٹ کے طور پر رہتا تھا۔ عام طور پر گھر کے قریب واقع مارکیٹ سے ہفتے میں ایک مرتبہ ہی سامان خرید کر فریج اور الماری بھر لئے جاتے تھے اور باقی پورا ہفتہ بار بار دکان پر جانے سے جان چھڑا لی جاتی تھی۔

کام میکلوڈ روڈ پر ہوتا تھا۔ چھٹی کے وقت ادھر سے بوٹ بیسن آنے پر ٹیکسی والا آسانی سے تیار نہیں ہوتا تھا۔ ٹیکسی والے لمبے فاصلے کی سواری کی تلاش میں ہوا کرتے تھے۔ اس لئے منزل بتاتے ہی ٹیکسی ڈرائیور کا انکار سننے کے بعد ڈبل کرائے کی آفر کرنی پڑتی تھی۔ اس پر بھی ففٹی ففٹی چانس ہوتا تھا کہ وہ مان جائے یا نہ مانے۔

بہرحال ایک ویک اینڈ پر ایسے ہی ایک ٹیکسی والے کے ساتھ گھر کے قریب پہنچا۔ ٹیکسی والا پختون بھائی تھا۔ مارکیٹ پر ٹیکسی رکوائی اور پانچ منٹ میں دکان سے ہفتے بھر کا راشن اکٹھا کیا۔ کھانے پینے کی چیزوں سے بھرے ہوئے شاپنگ بیگ ٹیکسی میں لے کر گیا تو اچھا نہ لگا کہ ٹیکسی ڈرائیور کو یہ سب دکھا کر بھی کچھ کھانے کی آفر نہ کی جائے۔ اسے جوس کا ایک ڈبہ اور ایک کیک نکال کر دے دیا۔ جوس اس زمانے میں شاید پانچ روپے کا ہوتا تھا۔ کیک بھی ایسی سی ہی قیمت کا ہو گا۔

خیر آگے چل کر گھر پہنچا تو ٹیکسی والے نے دو ڈھائی سو کا طے شدہ کرایہ لینے سے صاف انکار کر دیا۔ پوچھا کہ بھائی کیوں نہیں لینا؟ بھرائی ہوئی آواز میں آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ کہنے لگا کہ ”صاحب آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ نے مجھے اپنا سمجھ کر اپنے کھانے میں شریک کیا ہے۔ میں کیسے کرایہ لے سکتا ہوں؟ “

پتہ نہیں بچارے کو دن بھر کس تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ ٹیکسی بھی بیشتر ڈرائیوروں کی طرح اپنی نہیں ہو گی، بھاڑے پر لی ہو گی۔ دن کے چار پانچ سو گھر لے جاتا ہو گا۔ اس رقم کے لئے دس بارہ گھنٹے لوگوں کی باتیں سنتا ہو گا اور توہین سہتا ہو گا۔ جوس کا ایک معمولی سا ڈبہ اس کو وہ عزت دے گیا جو شاید اسے بھی آج تک یاد ہو گی۔ جوس کے دس بارہ ڈبوں میں سے ایک اسے دے دینے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اسے بہت زیادہ فرق پڑ گیا تھا۔ محنت کش سے آپ جناب کر کے عزت کا برتاؤ کر لیا جائے تو ہمارے لئے یہ چھوٹی سی بات ہے۔ اس کے لئے بہت بڑی بات ہو سکتی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar