جسٹس فائز عیسیٰ کا صدر مملکت عارف علوی کے نام دوسرا خط


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ایک اور خط لکھا ہے۔ اور اپنے خلاف دائر کئے گئے سرکاری ریفرنس میں لگائے گئے الزامات کا جواب دیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔ 3 جون 2019 کو سپریم کورٹ کے لیٹر پیڈ پر لکھا جانے والا یہ خط سرکاری ذرائع کے مطابق ایوان صدر میں موصول ہو چکا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے قانونی شرائط پورے کئے جانے پر سوال اٹھایا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ حکومت نے کن ذرائع سے عدالت عظمیٰ کے ایک جج کی جائیداد کا کھوج لگایا اور اسے میڈیا پر منکشف کیا؟ اس ضمن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر اعظم کے رویے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور اس دباؤ کا بھی ذکر کیا ہے جو ان پر حکومتی ذرائع سے ڈالا جا رہا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں

ڈیئر مسٹر پریزیڈنٹ، 28 مئی کو میں نے آپ کو ایک خط لکھا تھا اور کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے درخواست کی تھی کہ مجھے اس ریفرنس کی ایک کاپی دی جائے جو مبینہ طور پر آپ نے میرے خلاف دائر کیا تھا۔ نہ آپ نے اور نہ محترم وزیر اعظم نے (جنہیں میں نے خط کی نقل بھیجی تھی) اتنی اخلاقیات نبھائی کہ مجھے اس ریفرنس کی کاپی ہی مہیا کر دیتے جو میرے خلاف بھیجا گیا ہے۔ ریفرنس کی یہ نقل مجھے ملنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ذرائع ابلاغ میں اس ریفرنس پر بات ہو رہی ہے۔

جناب صدر، آئین کی شق 209 کے تحت صدر مملکت کو کسی جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے سے پہلے ذاتی طور پر تصدیق کرنی چاہیے کہ متعلقہ جج ذہنی اور جسمانی طور پر معذور تو نہیں نیز یہ کہ اس نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تو نہیں کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ میں ریفرنس بھیجنے کے بارے میں آپ کے آئینی اختیار پر سوال نہیں اٹھا رہا۔ لیکن یہ ضرور جاننا چاہوں گا کہ کیا حکومت نے آپ کے سامنے وہ تمام حقائق رکھے تھے جن کی بنیاد پر آپ نے یہ رائے قائم کی کہ سپریم جوڈیشل کونسل سے میرے بارے میں استصواب کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ابھی مجھے نوٹس بھی جاری نہیں کیا تھا اور مجھے ابھی اس کا جواب دینے کا موقع بھی نہیں ملا تھا کہ ذرائع ابلاغ پر میرے خلاف ایک مہم چلائی گئی جس کی نوعیت ایسی تھی کہ اس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے بے معنی ہو جاتی۔ جب اس مہم سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوتے نظر نہ آئے تو حکومتی عہدے داروں نے اپنی منصبی ذمہ داریوں سے انحراف کرتے ہوئے متعلقہ پراپرٹی کی دستاویزات بھی ذرائع ابلاغ کو لیک کر دیں۔ قانونی طور پر صرف سپریم جوڈیشل کونسل کی ان دستاویزات تک رسائی ممکن تھی۔ جناب صدر، کیا ان حقائق سے پس پردہ محرکات کی طرف اشارہ نہیں ملتا؟

وزیر قانون اور وزارت اطلاعات کے اعلیٰ ترین حکام اور حکومتی ارکان نے معلومات کے منتخب حصوں کو لیک کیا اور میڈیا کو پہنچایا بلکہ اس حوالے سے میڈیا سے بات چیت بھی کی۔ اس بات چیت میں ریفرینس کے حوالے کہا گیا کہ میرے خلاف “احتساب کا شکنجہ” حرکت میں آئے گا۔ جناب صدر، کیا یہ مناسب طرز عمل ہے؟ کیا یہ طرز عمل آئین کے مطابق ہے؟

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ جناب صدر، آپ نے، آپ کے وزیر اعظم نے، کابینہ کے ارکان نے اور اعلیٰ عدلیہ کے ارکان نے عہدے سنبھالنے سے پہلے ایک حلف اٹھایا تھا۔ اس حلف میں عہد کیا جاتا ہے کہ میں اپنے ذاتی مفادات کو کبھی اپنے سرکاری فرائض پر حاوی نہیں ہونے دوں گا۔ میں آئین کا تحفظ کروں گا اور اس کا دفاع کروں گا۔ اس کے علاوہ صدر، وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان یہ حلف بھی اٹھاتے ہیں کہ دوران منصب میرے سامنے جو معلومات لائی جائیں گی میں انہیں کسی دوسرے شخص کے سامنے منکشف نہیں کروں گا سوائے ان معلومات کے جن کا افشا میرے فرائض منصبی کا تقاضا ہو۔ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صدر سے سوال کرتے ہیں کہ جن حکومتی ارکان نے اس ریفرنس کے حوالے سے معلومات لیک کیں، کیا انہوں نے اپنے حلف سے روگردانی نہیں کی؟

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ جناب صدر، اخبارات میں آیا ہے کہ آپ نے وزیر اعظم کے مشورے سے میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک ریفرنس بھیجا ہے۔ اگرچہ مجھے اس ریفرنس کی کاپی ابھی تک نہیں مل سکی، تاہم میڈیا اطلاعات کی بنیاد پر میں فرض کر رہا ہوں اس ریفرنس میں لندن کی ان تین جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے جو میری بیوی اور میرے بچوں کے نام پر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میرے بیوی بچوں کے نام ان جائیدادوں سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ میں مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہوں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ ریفرنس میں ان جائیدادوں کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا ہے تو یہ میرا حق تھا کہ مجھے اس ریفرنس کی کاپی دی جاتی۔ جب مجھے اس ضمن میں نوٹس ملے گا تو میں اس کا جواب دینے کا قانونی حق محفوظ رکھتا ہوں۔

اخبارات میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ میں نے ٹیکس ادا کرتے ہوئے اپنے اثاثوں میں ان جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 116 (اے) کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے انکم ٹیکس کمشنر کسی بھی شخص سے ایک مخصوص فارم پر نوٹس جاری کر کے معلومات دریافت کر سکتا ہے۔ ان معلومات میں اس شخص کے کل اثاثے اور واجبات، اس کی اہلیہ، اس کے نابالغ بچوں اور دیگر زیر کفالت افراد کے اثاثے اور واجبات دریافت کئے جا سکتے ہیں۔ مجھے آج تک انکم ٹیکس کے کسی افسر سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ میرے بچے میرے زیر کفالت نہیں ہیں۔ میرے بچے بالغ شہری ہیں اور ایک طویل مدت سے میرے زیر کفالت نہیں ہیں۔ میری اہلیہ بھی میرے زیر کفالت نہیں ہیں۔ میری اہلیہ اور میرے بچے خود مختار ہیں اور ان کے اپنے ذرائع آمدنی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید لکھا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کا سیکشن 116 (اے) کوئی تعزیراتی قانون نہیں ہے اور اگر معلومات میں کوئی کمی بیشی پائی جائے تو اسے دور کیا جا سکتا ہے۔

اس خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لکھتے ہیں کہ جناب صدر، حکومتی ارکان نے ادھورے سچ بول کر اور اشارے کنائے سے مجھے، میری اہلیہ اور میرے اہل خانہ کو بدنیتی سے بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ معاملہ میرے لئے اور میرے اہل خانہ کے لئے انتہائی اذیت ناک ہے۔ کیا اس کا مقصد ہماری نجی زندگی میں مداخلت کرنا اور کچھ ایسے پہلو دریافت کرنا تھا جو دراصل موجود نہیں ہیں۔ چناچہ میں مجبور ہوا ہوں کہ اس معاملے کو سامنے لاؤں تاکہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے ان انتہائی اذیت ناک الزامات کا جواب دے سکوں اور ان جھوٹی خبروں کو بے نقاب کروں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2