ایم کیو ایم اور طلاق کے ثبوت


\"husnain

مظالم ایم کیو ایم پر ہو رہے ہوں، پیپلز پارٹی پریشر میں ہو یا نواز لیگ کسی سکینڈل کا سامنا کر رہی ہو، شیخ رشید کے بعد قوم کی طرف سے دوسری فخریہ پیشکش عمران خان ہیں۔ مطلب کمال ہی ہے، ایک شخص جس کا پورے کراچی میں دو کوڑی کا ووٹ بینک نہیں ہے، جو مئیر شپ کے الیکشن کے دوران الٹی قلابازی لگا کر اسی ایم کیو ایم سے جا ملتا ہے کہ کسی طرح کوئی عہدہ حاصل کر پائے، آج وہ کراچی پر ماہرانہ تبصرے فرمائے گا۔

ایم کیو ایم کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ خود ایم کیو ایم کو بھی نظر آ رہا تھا کہ ہونا ہے۔ الطاف بھائی کی مثال وطن عزیز سے باہر بیٹھے سابق کمیونسٹ دوستوں کی سی ہے۔ کئی بار آپ کو ان کی طرف سے ایسی تحریریں اور تجزیے نظر آئیں گے جو باہر بیٹھا ہوا ایسا انسان ہی کر سکتا ہے جسے پاکستان کے زمینی حقائق کا علم نہ ہو۔ الطاف بھائی کو علم تھا لیکن وہ بولنے میں محتاط نہ تھے۔ مائنس الطاف کی ہوا آج کی نہیں کئی دہائیوں سے چل رہی ہے اور کل رات بہرحال اس میں ایک افسوس ناک لیکن اہم پیش رفت ہوئی، وہ پیش رفت جو نوشتہ دیوار تھی۔

کل کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار صاحب نے الطاف بھائی سے مکمل الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ وہ اعلان جس کے تانے بانے ایم کیو ایم کے روز اول سے بنے جا رہے تھے، وہ اعلان جس کے سننے کو کئی بار کتنے ہی مقتدر کان ترستے رہے، وہ اعلان ہو گیا اور بہرحال ایسے حالات میں ہوا جب اس کے علاوہ کوئی اور حل نہ تھا۔ فاروق ستار نے الطاف بھائی کو دوران کانفرنس بھائی کے بجائے الطاف صاحب کہہ کر پکارا، یہ ایم کیو ایم مائنس الطاف کا ایک واضح انڈیکیٹر تھا۔ بلکہ کہہ لیجیے اس بات کا اعلان تھا کہ ہم اب پشت دیوار سے لگائے کھڑے ہیں، ہاتھ ہمارے اوپر کھڑے ہیں، آپ کی خواہش پوری ہے، اب بس کر دیجیے!

\"imran

ایک جماعت جو بے شک کتنی ہی بدنام کیوں نہ ہو، اگر اس کی جڑیں عوام میں ہیں، اگر اس کا ووٹ بینک ہے اور ہر معمولی سے معمولی الیکشن میں بھی اس کا ثبوت دیکھنے کو ملتا ہے تو جمہوریت کے صدقے اسے اب بخش دیا جانا چاہئیے۔ جماعت کا ہیڈ کوارٹر تک سیل کر دیا جائے، کئی ذیلی دفاتر جو تیس تیس برسوں سے قائم ہیں وہ مسمار کر دئیے جائیں، کارکن بار بار جیل یاترا کر کے آ رہے ہوں، ایسے میں اور کچھ ہو نہ ہو دوسری جمہوری جماعتوں کو بہرحال طنز و تشنیع سے گریز کرنا چاہئیے۔ یہ سب تمہید اس لیے باندھی کہ خان صاحب کا بیان صبح صبح نظر آ گیا، فرماتے ہیں، ”فاروق ستار کو قطع تعلقی ثابت کرنا ہو گی“، عرض یہ ہے کہ صاحب قطع تعلقی کوئی طلاق کی دستاویز نہیں ہوتی جس کو لہرا کر اعلان کیا جائے، سیاسی قطع تعلقی ایسے ہی اور ان ہی حالات میں کی جاتی ہے، جسے یقین کرنا ہو کر لے، جسے یقین نہ آئے وہ اپنے ڈھائی ووٹ کے ساتھ ازراہ کرم ایک طرف رہے۔ آپ بیس سال سے کراچی میں پارٹی جمانے کی کوشش کر رہے ہیں، اگلے بیس برس بھی کرتے رہئیے، کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ جس جماعت کو اپنے گڑھ میں، اپنے مرکزی علاقوں میں ڈھنگ کے پولنگ ایجنٹ نہ ملیں وہ ایسے علاقوں میں کیا پہاڑ توڑ ڈالے گی جہاں اسے سننے تک کوئی باہر نہیں نکلتا۔ گھر کے اندر بیٹھ کر ایک مری ہوئی سیاسی جماعت پر الزام لگانے اور میدان میں اتر کر مقابلہ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ الطاف حسین سے قطع تعلقی کا اعلان ہو چکا ہے، چھاج بول سکتا ہے، اسے حق ہے بولنے کا، چھلنیاں جب بولتی ہیں تو وہ نامناسب ہوتا ہے۔

\"farooq-sattar\"

جس بدترین بحران سے ایم کیو ایم گزر رہی ہے، اس کی ایک رمق فاروق ستار کے اس بیان میں دیکھی جا سکتی ہے، ”آپ کا عمل ظاہر کررہا ہے یہ معاملہ شاید ایک شخص کی تقریر کا نہیں بلکہ پس پردہ چار یا پانچ ایم کیو ایم بنانے کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے جب کہ ایک ایم کیو ایم تو کسی اور نام سے بنادی گئی ہے، دوسری ہمیں ایم کیو ایم پاکستان کہہ دیا جائے گا، تیسرے ایم کیو ایم لندن سیکریریٹ آپ نے خود ہی بنادی، ایم کیو ایم حقیقی چوتھی ہوجائے گی اور پھر یہ آپریشن ختم ہوتے ہوتے پانچویں ایم کیو ایم بھی بنادی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا عمل لوگوں کے جذبات ابھارتا ہے ان کو مشتعل کرتا ہے جب کہ یہ بات اب الطاف حسین کے بیانات سے آگے بڑھ کر واضح طور کچھ اور دکھائی دے رہی ہے۔ ”

اور یہ حقیقت ہے۔ اس وقت جب ایم کیو ایم مکمل طور پر گرا دی گئی ہے اس کے حصے بخرے ہوتے نظر آ رہے ہیں، کارکن ہراساں ہیں تو اس طرح کے لوگ بھی ایم کیو ایم پر بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے ہیں جن کو سیاسی طور پر کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ ایسے ایسے سیاسی تجزیہ کار کلہاڑیاں لہراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جو شاید یہ بھی ٹھیک سے نہیں جانتے کہ ایم کیو ایم کس سن میں بنی تھی۔ ایسے تمام دوستوں سے گذارش ہے کہ ذرا چھری تلے سانس لینے دیجیے، یہ جماعت دوبارہ اٹھ کر کھڑی ہو گی، اپنا سیاسی مقام بحال کرے گی اور دوبارہ پہلے سے زیادہ ووٹ بینک بھی لے کر دکھائے گی۔ جمہوری عمل مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سنبھلنے کا موقع دیا جائے، سیاسی آزادی دی جائے اور جتنے دفتر بند کیے گئے ہیں ان کے معاملات کا بھی ہمدردانہ جائزہ لیا جائے۔ خان صاحب کے بیانات پر ان کی پارٹی کو غور کرنا چاہئیے، ایسے ہی بیانات کا بوجھ کسی بھی پارٹی کو مائنس فارمولے کی طرف جانے پر مجبور کرتا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments