کوا، ریسکیو 1122 اور مدرسے کا طالب علم


\"sajjad-jahania\"آج صبح چھے بجے اٹھا تو موسم بڑا ہی خوش گوار تھا۔ تھوڑی چہل قدمی کے بعد گھر کے پچھلے لان میں کرسی ڈال کر بیٹھا کہ کچھ لکھنے کا ڈول ڈالوں۔

تین چار سطریں لکھ پایا تھا کی سامنے اس درخت پر جو گھر سے متصل مسجد کے وضو خانے کےعین سامنے کھڑا ہے،کجھ ہل چل محسوس ہوئی۔ غور سے دیکھا تو رفتہ رفتہ یہ منظر واضح ہوا کہ ایک کوا ہے جس کاداہنا پر ایک نازک سی شاخ میں الجھی ڈور میں پھنسا ہے اور وہ اک عالم بے بسی میں لٹکا ہوا ہے۔ پتہ نہیں کب سے اس مصیبت میں گرفتار ہے کہ اب تو جدوجہد بھی چھوڑچکا ہے۔ جب کبھی بازو کی اینٹھن بڑھتی ہے تو ہلکی سی جنبش کرتا ہے مگر ڈور اس کا بازو جھوڑکے نہیں دیتی اور وہ بس جھول کے رہ جاتا ہے۔ وہ شور بھی نہیں کر رہا، خاموش ہے اور منتظر کہ کب موت آئے اور کب جان چھوٹے۔ اس کے ساتھی، اس کے ہم جنس بھادوں کی بھیگی ہوا میں فراٹے بھرتے ہیں اور کوئی بھی اس گرفتارٍ اذیت کی طرف توجہ نہیں کرتا۔

میں نے کچھ دیر کو سوچا اور یہ سوچ اس فیصلے پر منتج ہوئی کہ میں اس کوے کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ ذہن کو جھٹک کے میں پھر سے لکھنے کی طرف متوجہ ہوا۔ بہتیری کوشش کی مگر ایک لفظ نہیں لکھ پایا۔ ایک جان دار آپ کے سامنے عالم بے بسی میں موت کا منتظر ہو تو آپ کوئی دیگر کام کیسے کر سکتے ہیں۔

کاغذ قلم رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ کیا کر سکتا ہوں۔ میں تو بہرحال کوے تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ ریسکیو 1122 کو ڈرتے ڈرتے فون کیا کہ مبادا آگے سےتمسخر اڑایا جائے کہ جہاں انسانی جان کی کوئی قدر نہیں اس کشورٍحسین میں ایک کوے کی مدد کے لئے ریسکیو کو پکارا جا رہا ہے۔ مگر آپریٹر نے تحمل سے میری بات سنی اور کہا کہ آپ کو ابھی فون کر کے مطلع کرتے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتےہیں۔ تین ہی چار منٹ کے بعد ان کا فون آگیا۔ بڑے ہی شائستہ لہجے میں کہا گیا کہ ”سر رات بھر کی بارش کی بنا پر عمارتیں گرنے کی اطلاعات بہت ہیں اور تمام گاڑیاں ادھر مصروف ہیں جونہی کوئی گاڑی فارغ ہوتی ہے ہم آپ کو فون کر کے آپ کی طرف روانہ کرتے ہیں“۔

\"DSC_0040\"

بہت معقول وجہ تھی، اب میں نے سوچا کیا کیا جائے۔ بیگم بھی اٹھ چکی تھیں انہوں نے مشورہ دیا کہ مسجد کے مؤذن کو بتائیں۔ میں نے اپنے ملازم شکیل کو بلایا اور اسے پھنسا ہوا کوا دکھا کر مسجد بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد فضا کووں کی کائیں کائیں سے بھر گئی۔ باہر نکل کے دیکھا تو مدرسے کا ایک ٹین ایجر بچہ وضو خانے کی چھت پر چڑھا ہے مگر اس کا ہاتھ جائے وقوعہ تک نہیں پہنچ رہا جب کہ کوے کے ہم نفسوں نے، جو قبل ازیں گرفتارٍڈور کوے کو اس کے حال پہ چھوڑ کے ہوا کے دوش پر مستیاں کر رہے تھے، کائیں کائیں کے ساتھ عملی حملے بھی شروع کر رکھے ہیں اور بچہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر ڈھانپ کے ٹھونگوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مجھے دیکھ کےکہنے لگا ”کوئی لمبی چھڑی ہو تو اس سے کوے کی مدد ہو سکتی ہے، میں نیچے جا کے مسجد میں دیکھتا ہوں“۔

لان میں ایک لمبی سی شاخ پڑی تھی میں نے کہا ٹھہرو میں دیتا ہوں۔ شاخ میں نے وضو خانے کی چھت پہ اچھال دی۔ بچے کے ہاتھ میں چھڑی آئی تو حملہ آور بھی محتاط ہو گئے۔ اگلے دو تین سیکنڈز میں کوا آزاد ہو کے وضو خانے کی چھت پہ آن گرا۔ پتہ نہیں غریب کب سے لٹک رہا تھا اس کا دایاں بازو شل ہونے کی وجہ سے وہ اڑنہیں پا رہا تھا۔ میں نے بچے سے پوچھا ”پر ٹوٹ تو نہیں گیا؟“ بچے نے بتایا کہ پر بالکل ٹھیک ہے۔

بیگم ناشتہ بنا رہی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ چودھری پرویز الہٰی کی نجاتِ اخروی کےلئے ریسکیو 1122 اور ملتان کا کارڈیالوجی ہسپتال کافی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اسلام کا اصل چہرہ مدرسے کا یہ ٹین ایجر بچہ ہے جس نے کوے کو رہائی دی، کریہہ صورت و کردار طالبان یا داعش نہیں۔

کاش ہم دنیا کو یہ بتا سکیں۔

کاش !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments