پردیس کی عید


ہمارے اکثر پڑھے لکھے دوست کہتے ہیں کہ پڑھا کرو تاکہ ڈھنگ کا لکھنا آئے۔ اس بات کا برملا اعتراف کریں گے کہ ہم سے نہیں ہو پاتا۔ شرمندہ ہیں لیکن کیا کیجئے کہ یہ اپنے بس کی بات ہی نہیں۔ کچھ آپ لوگوں نے بھی عادت بگاڑ رکھی ہے کہ جیسا بھی لکھیں پیار سے پڑھ بھی لیتے ہیں اور سراہ بھی دیتے ہیں۔ ہم جیسے نالائق کو اور ہلہ شیری مل جاتی ہے۔ اگلا کالم پھر یونہی اپنی رو میں لکھ ڈالتے ہیں۔ جیسا بے تکان بولتے ہیں ویسا ہی بے تکان لکھ دیتے ہیں۔ گزارہ چل رہا ہے۔

لیکن کیا کیجئے کہ آج گزارہ نہیں ہو رہا۔ تمہید باندھے جا رہے ہیں لیکن اصل مدعے کی طرف نہیں آ رہے۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے۔ ایک کونے میں روٹھے روٹھے سے کھڑے ہیں کہ جاو ہم نہیں بولتے۔ ہمارے لاڈ اٹھاو۔ دلار کرو۔ ہمیں نہلا کر کنگھی کرو۔ ہمیں خوشبو لگاو۔ نیا کرتا پہناو۔ پھر سوچیں گے۔

لگتا ہے ان کی بھی عید ہے۔ یہ بھی چھٹی پر چلے گئے۔ تب ہی آئیں گے جب عید کے لوازمات پورے کریں گے۔ تب ہی ہمارے پہلو میں بیٹھیں گے اور تحریر کو سنواریں گے۔

ان کو شاید یہ نہیں پتہ کہ ہماری عید نہیں۔ نہ ہی ہماری چھٹی ہے۔ ہمیں آج بھی گھر سے ٹرین اسٹیشن تک بارش میں پیدل بھاگنا ہے کہ مبادا ریل گاڑی نہ چھوٹ جائے۔ آج بھی وہی چمڑے کی کالی جیکٹ اور موٹی پینٹ پہننی ہے۔ آج بھی وہی توس اور انڈا کھانا ہے۔ آج بھی اسی طرح صبح کی ٹرین میں اپنے کھڑے ہونے کی جگہ بنانی ہے۔ آج بھی قریب کھڑی سفید بالوں کو قرینے سے بنائے اس بوڑھی عورت کو کن اکھیوں سے تکنا ہے کہ کب اس کا اسٹاپ آئے اور ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملنے کا ایک پرسینٹ چانس ملے۔ قریب کھڑے اس نو عمر طالبعلم کے بیگ پر سے اپنا ہاتھ بجلی کی سرعت سے ہٹانا ہے کہ چلتی ٹرینوں میں کھڑے مسافروں کی یہی کہانی ہے۔

کالج میں پورا دن اسائنمنٹوں کی فکر میں گزارنا ہے۔ دوپہر کو پھیکا سینڈوچ حلق سے اتارنا ہے۔ واپسی کی ٹرین پر وہی کہانی دہرانی ہے۔ گھر کے رستے میں اسٹور سے کل کے ناشتے کے لیے دودھ اور ڈبل روٹی لینی ہے۔ گھر کے رستے کی طرف تیزی سے چلنا ہے کہ بھوک بھی لگ رہی ہیں اور تھکاوٹ بھی ہو رہی ہے۔

گھر آتے ہی سب سمیٹنا ہے۔ کھانے کی میز پر بکھری پلیٹیں، بستر کی چادر کی سلوٹیں، کچن میں پڑے ناشتے کے برتن سب سمیٹنا ہے۔ شاید سب بکھرا ہوا ہم نہ سمیٹ پائیں۔ جو نظر آ رہا ہے وہی سہی۔ واشنگ مشین کو کچھ یوں چکر دینا ہے کہ اس کی آواز ہمارے اندر کے شور کو پی جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم اپنے آنسو پی رہے ہیں، غٹاغٹ جیسے گرمیوں کی طویل دوپہر میں ٹھنڈا لسی کا اسٹیل کا گلاس ہو۔ ایک ہی گھونٹ میں بغیر سانس لیے۔

فون پر میسج بھی دیکھنے ہیں۔ سب کو مصنوعی ہنسی کے ساتھ خیر مبارک بھی کہنا ہے۔ لیکن رکنا نہیں ہے۔ واشنگ مشین کی طرح گھومتے جانا ہے۔ گھوں گھوں۔۔۔

شاید الفاظ کا کوئی دیس نہیں آتا۔ وطن سے جس قدر دور چلے جاو خواب میں اپنا پتہ ضرور دیتے ہیں۔ سارا دن انگریزی کی گٹ پٹ میں گزر بھی جائے لیکن نیند کی آغوش میں ماں بولی کا ہی پتہ دیتے ہیں۔ ان کا کوئی دیس نہیں ہوتا۔ ان پر کسی سرحد کی بندش نہیں ہوتی۔ ان کو ویزے کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ جہاں جی چاہے عید منا لیتے ہیں۔ کوئی انہیں لاکھ تھپکے کہ یہ بھی ایک عام دن ہی ہے یہ نہیں مانتے۔ عید کا جوڑا پہن کر ہی دم لیتے ہیں۔ لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔

مگر شاید الفاظ یہ نہیں جانتے کہ ہم انسانوں کی سرحدیں ہیں۔ ویزے کے بغیر کہیں جانے کا حق نہیں۔ عید پر کوئی چھٹی نہیں کہ یہ دن تو وطن سے مشروط ہے۔ اپنوں کا ساتھ مانگتا ہے۔ پردیسیوں کی کوئی عید نہیں ہوتی۔ ان کے آنسو ہوتے ہیں جو وہ خود ہی گرمیوں کی دوپہر میں لسی کے ٹھنڈے گلاس کی طرح ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پی جاتے ہیں۔

الفاظ بادشاہ ہیں۔ جب جی چاہیں روٹھ جائیں۔ ہمیں تو اسی کولہو میں جتے رہنا ہے۔

نہ کوئی وطن نہ کوئی سجیلا دیس

نہ کوئی عید نہ کوئی رنگیلا بھیس

بس ایسا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments