مسیحی محلہ، جھنڈے کا سفید ٹکڑا اور ایمان کی حرارت


\"aliفیصل آباد کی مسیحی کالونی میں اہل ایمان  کے ایک لشکر نے یلغار کر کے پانچ ‘مسیحی کافروں’ کو زخمی کر دیا۔ ان پانچ میں سے ایک ضعیف العمر شخص بھی تھا جو کہ یقینا غیر ضروری قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اسے تو ویسے ہی جہنم واصل ہو جانا چاہیے تھا۔ مزید برآں، ایماں کی حرارت والوں نے مسیحی خواتین کو بھی زد و کوب کیا۔ مومن کی شان ہی یہ ہے کہ دریاؤں کے دل ان کے قدموں کی چاپ سے دہل جایا کرتے ہیں۔ تو وہی ہوا۔ اور ‘مسیحی کافر’ بھاگ کر اپنے گھروں کے اندر جا چھپے۔ اور ایسے چھپے کہ چوہوں کی طرح وہیں دبکے بیٹھے رہے جب تک کہ اہل ایمان  اپنے گھوڑوں کی لگامیں تھامے تھامے تھک نہیں گئے۔

ڈرے سہمے ‘مسیحی کافر’ پھر اپنے ارد گرد کے محلوں سے دوسرے ‘کافروں’ کو اکٹھا کر کے لائے اور شہر کے داروغہ کے پاس پہنچے اور لگے اپنا وہی پرانا رونا رونے کہ مسلمانوں نے ہمیں مارا پیٹا، لوگوں کو زخمی کر دیا۔ یہ نہیں دیکھتے کہ انگریزوں نے جو مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان میں کیا، وہ کسی طرح بھی اس سے کم تھا کیا؟ ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے داروغہ جی سے کہنے لگے کہ اب خدشہ ہے کہ مسلمان کسی مسیحی پر توہین مذہب کا الزام لگائیں گے اور پھر چڑھ دوڑیں گے۔ تو کم از کم یہ بات تو طے ہو گئی کہ پے در پے توہین کے الزامات سے کفار پر اہل ایمان  کی دھاک تو بیٹھ گئی ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ توہین کا تھا ہی نہیں۔ یہ تو کفار کی گھڑی ہوئی ایک بیہودہ سکیم ہے کہ جب بھی اہل ایمان  کا ایمان تازہ ہو، یہ توہین اور گستاخی والے الزام خود پر لگوا کر اپنے بیرونی آقاؤں کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ یہاں تو بات ہی غیرت کی ہے۔ توہین کا معاملہ کہاں سے آگیا بیچ میں؟ ہوا دراصل کچھ یوں کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرنے کے لیے ایک شریف النفس مومن بھائی اپنے ذمی مسیحی کو کہیں بائیک پر بٹھائے لے جا رہا تھا۔ مگر آپ تو جانتے ہیں کہ کچھوا چاہے بچھو کو دریا پار کروا رہا ہو، مگر بچھو کی فطرت ہی ڈنک مارنا ہے۔ تو وہی ہوا۔ پیچھے سے اس خبیث مسیحی ذمی نے مومن بھائی کے ساتھ ایک انتہائی نازیبا حرکت کی۔ مومن بھائی ٹھہرے غیرتمند۔ انہوں نے وہیں اس ذمی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ لڑائی ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ چند لوگوں نے آ کر بیچ بچاؤ کروا دیا۔ لڑائی ختم ہو گئی۔

لیکن یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن ٹھنڈا نظر آتا بھی ہو تو اندر سے ہے طوفان۔ یہ مسیحی \”ذمی شہری\” اسلامی ریاست کی دی گئی بھرپور آزادیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سنوکر کھیل رہا تھا کہ مومن بھائی کی غیرت پھر سے جاگ گئی اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے جا کھڑے ہوئے سنوکر کلب کے باہر۔ ذمی کو زد و کوب کرنا چاہتے تھے مگر ایک بار پھر بین المذاہب برداشت کے راگ الاپنے والے دیسی لبڑل اور ان جیسے کچھ لوگ بیچ میں آ گئے اور یہ بچھو صفت ذمی ایک بار پھر بچ گیا۔

مگر مومن کے دل میں بھڑک اٹھنے والا الاؤ تھا کہ غیرت کے نام پر قتل سے نیچے ٹلنے کو تیار ہی نہ ہوتا تھا۔ بالآخر وہی ہوا جس کا خطرہ\"khushal-town\" تھا۔ آمنے سامنے کی مار پیٹ سے بچانے والے دیسی لبڑلوں کی دوربینی پر سوال اٹھانے والے ایک بار پھر سچے ثابت ہوئے اور اس بار بات محض اس شرارتی ذمی کی حد تک نہیں رہی بلکہ ذمیوں کے پورے علاقے پر حملہ کیا گیا۔ ایک کیتھولک چرچ کے سائے میں بسی ان چند گلیوں کے مکین یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اکٹھے رہنے میں ان کی بہتری ہے۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ جب ایمان والا نیت باندھ لے تو اس کے گھوڑے کے سموں کے آگے دشمن کی صفوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی۔ زد میں آنے والے چاروں نوجوان، کہ جن کے اب بھی دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے امکانات موجود ہیں اور عین ممکن ہے کہ انہی میں سے کوئی کل کو اسلام کی تلواروں میں سے ایک ثابت ہو، داروغہ کے سامنے پیش کر دیے گئے ہیں۔ اور وہ غیر ضروری بزرگ بھی جن کو مار نہ بھی پڑتی تو بھی پہلے ہی جہنمی قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔

گو کہ یہ واقعہ 19 اگست کو پیش آیا تھا، 24 اگست تک تو ایمان  کی حرارت والوں نے اس کی ایف آئی آر بھی نہ کٹنے دی۔ بالآخر جب داروغہ نے اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کے عین مطابق ان ذمیوں کی بات سنی تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی ڈنک مارنے والی فطرت کے تحت الزام لگایا کہ مسلمان ان میں سے کسی پر توہین کا الزام لگا کر انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اب یہ جو دیسی لبڑل بنے پھرتے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ اگر اس خبیث ذمی کو غیرت کے نام پر قتل کرنے دیا جاتا تو کیا توہین کا الزام لگانے کی نوبت آتی؟ لیکن یہ اب بھی خاموش رہیں گے۔ کیونکہ دراصل یہ بھی اسی ایجنڈے پر ہیں جس پر وہ ذمی تھا۔ اور یہ ایجنڈا کوئی اور نہیں بلکہ کفار کی طرف سے دیا گیا وہی سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے تحت مسلمانوں میں ہم جنس پرستی کو فروغ دے کر ان کی تعداد کم کر کے ہمیں وہاں لا کر مارنا ہے جہاں ہم پانی بھی نہ مانگ سکیں۔ مگر یہ یاد رکھیں کہ جب تک ہم میں جذبہ ایمانی زندہ ہے، ہر دور کے فرعون کو اپنے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ بقول شاعر،

آخری رات ہے یہ، سر نہ جھکانا لوگو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments