فقیہ شہر ”ہاروں“ ہے لغت ہائے حجازی کا


\"waqarکتابوں میں مرقوم ہے، شیخ چلی اور شیخ رشید جیسے جید اہل خرد کی کتابوں میں۔ میدان جنگ کے آخری فاتح کپتان جیسے آتش بجاں ہی ٹھہرتے ہیں۔ پہاڑجیسی غلطیوں کے باوجود احتجاجی سیاست ہی ظفر مند ہوتی ہے۔ ناقدری بہت ہے، خیر اندیش مگر شجر سے پیوستہ، پیہم پیوستہ۔

وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے

موسم گل میرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

تاریخ کا دبستان کھلا ہے۔ چار عشرے ہوتے ہیں،احتجاجی سیاست کے بطن سے ایک اجلا اور کامران حکمران تولد ہوا۔ مطلق العنان مگر جمہوریت پسند، رعونت شعار مگر پابند صوم و صلٰوة، منافق مگر مردِ مومن، جلاد مگر حلیم طبع، حریص مگر بے طمع، موقع پرست مگر جہاندیدہ، شقی القلب مگر عبادت گزار، عیار مگر پرہیز گار، ریاکار مگر کھرا، کوڑے باز مگر مجسم عجزو انکسار۔ جماعتوں کی خرافات سے پاک،شفاف اور صاف ستھری سیاست کا موجد۔ اقبال اور جناح کے افکار کا معتبر شارح۔ دو قومی نظریے کا حقیقی محافظ۔، نا معتبر مغربی جمہوریت کے سرکش گھوڑے کو اس نے لگام دی اور عوام کے سفلی جذبات کو بھی۔ ملک کے کونے کونے سے فرشتہ سیرت چنے اورجذبہ خیر و فلاح سے سرشار مجلس شوریٰ تشکیل دی۔ ہائے میں مر جاں، وہ زینہ ہستی سے اتر گیا مگراس دل سے نہیں، کبھی نہیں۔

تری یاد کی بھول بھلیوں میں کھو کر

مجھے چائے اکثر ٹھنڈی پینا پڑتی ہے

بشری کمزوریوں سے مگرکوئی بھی مبرا نہیں۔ اس سے چھوٹی موٹی غلطیاں ضرور ہوئیں۔ جہاد کے نام پر فرقہ پرست لشکروں کی تشکیل اور پھر ان کی باگ ڈور ناتراشیدہ، سفاک لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دی، جنہوں نے نامناسب حرکات سے مملکت خداداد کو نقصان بھی پہنچایا اور تھوڑی بہت سکھاشاہی اور کشت و خون بھی۔ خدا مگر غفورورحیم ہے۔ کوہِ ہمالیہ جیسی غلطی اس نے مگر یہ کی کہ قلب و ذہن کے کسی وجدانی لمحے میں دعا مانگی”اللہ میری زندگی بھی نواز شریف کو لگا دے “۔ اس کی زندگی نواز شریف کو لگ گئی اور ملک کو نظر بھی۔ سائیکل چلانے پر قادر نہیں، حکومت مگر چلاتے ہیں۔ گھروں میں ان کے دو ہی چیزوں پر تبادلہ خیال رہتا ہے ”آج کیا پکا “ اور ” آج کیا کمایا“۔ انہیں پرواہ نہیں کہ کسی درویش کے گھر میں پکانے کے لیے دیسی مرغی میسر آئی یا نہیں ؟ مطلوب اور مفید تھے تو جنرل غلام جیلانی کے تابع معمل تھے، فاتح افغانستان حمید گل، ببر شیر اختر عبدالرحمن اور جنرل ضیاءالحق کے بھی۔ جنرلوں کی جب ضرورت نہ رہی تو میاں صاحب جمہوریت کے علمبردار بن گئے۔ وائے حسرتا!محمد ضیاءالحق کے راستے کو انہوں نے تج دیا۔ قصور ان کا نہیں، عسکری قیادت اور اس قوم کا ہے،جس نے نوازشریفوں اور الطاف حسینوں کو پالا پوسا اور اب فریاد کناں ہیں (ہور چوپو)….بھارت کو وہ پاکستان کا دشمن سمجھتے تھے، ذاتی ضرورت پڑی تو دوست بنانے پر تُل گئے۔ گویا ایٹم بم وزیراعظم ہاﺅس کی تزئین و آرائش میں استعمال ہونے کے لیے بنایا گیا ہے۔

بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی

بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے

اپنی عقلوں کے گرداب میں گھرے احمقوں کے سوا سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی پر حکومت کے طرزِ عمل سے فوج مطمئن نہیں۔ جمہوریت کے مجاور اور لبرل فاشسٹ مگر پھر بھی بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں۔ ذمہ دار مگر خود سپہ سالار بھی ہیں، سیاست سے بیزار جنرل عبدالوحید کاکڑ کی طرح، گوجر خان کے اس گرد آلود گاﺅں کے اجلے فرزند جنرل کیانی کی طرح، جو فوج کی لگی بندھی راہوں پر چلتے رہے۔ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچا انہوں نے مگر لکیر کے اس پار قدم نہ رکھا….یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا ؟…. کامل ایک سوچھبیس دنوں تک عمران خان نے ڈی چوک میں نیا پاکستان بنایا، ایمپائر کو مگر انگلی اٹھانے کی توفیق نہ ہوئی۔ پھر سانحہ پشاور اور کوئٹہ پر چیں بہ جبیں ہونا چہ معنی دارد؟ الطاف حسین کی ہرزہ سرائیوں پر فقط تاﺅ کھانے سے کیا حاصل؟ عاجز پوچھتا ہے کہ سات عشروں سے اس نامعتبرنظام کی کوکھ سے کیا نکلا ؟ آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، الطاف حسین جیسے رہنما، جمہوریت کے درد شقیقہ میں مبتلا دانشور اور گراں گوش حکمران، اور بس اور بس۔

بے عقل قوم کی رہنمائی بہترین وظیفہ ہے اور نیم جاہل معاشرے میں عقل و ہدایت کے چراغ جلانا افضل ترین عمل۔ حد ہوتی ہے مگر صرف نظر کی بھی۔ اس عاجز کی عمر قوم کے چاک گریباں کی رفو گری میں بیتی، مگر حاصل؟ تلقین شاہی میں عشرے گزرے، مگر نتیجہ؟ ڈھور ڈنگروں کو عمران خان کے فضائل سناتے زبان کانٹا ہوئی، مگرمنافع؟ کپتان کا بھی وہی اصول ہے کہ جسے پیا چاہے، وہی سہاگن۔ خواب وہ دیکھتا ہے، زود فہم مشیروں کی بات پر کان مگر نہیں دھرتا، ورنہ اب تک ظفر مند ہوتا۔ بروئے کار آتے ہیں توصنم آشنا مشیر، سب صنم آشنا۔ کل ایک میٹنگ میں فقیر نے اپنی گراں قدر رائے رد کئے جانے پرجذباتی ہو کر یہ کہا”یکہ وتنہا، چاک گریباں کئے،جنگل کی طرف کوچ کرنے کو جی کرتا ہے“ صنم آشنا، مغربی تیور کی ایک ساحرہ کہ مانند گل مہکتی تھی، حقیر پرطنز کیا ”فیصلے پر نظر ثانی فرمائیے بزرگو! حشرات الارض کا موسم ہے،سانپوں اور بچھوﺅں کی رت ہے “ محفل میں قہقہ پڑا، کپتان بھی شامل باجا تھا، خادم یہ کہ کے اٹھ آیا ”کپتان کو چلن بدلنا ہو گا، بخدا بدلنا ہو گا ورنہ کھیر کوئی اور کھائے گا“…. شاعری نہیں،خودستائی نہیں، قیامت کی نظر رکھنے والوں کو اب بھی روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔ میدان کپتان نے ہموار کرنا ہے، دھنیا نوشی مگر ایمپائر کو ترک کرنی ہو گی۔ بخدا، سپہ سالار کو بروئے کار آنا ہو گا کہ چرواہا کوئی نہیں اور بھیڑوں کو راستہ معلوم نہیں۔ مگر کپتان کے صنم آشنا مشیر، مگر اس بندہ خاکی کی قسمت ….سونے ورگی عمر وے اڑیا، پِتل مانجھ  گزاری۔

کتابوں میں مرقوم ہے، شیخ چلی اور شیخ رشید جیسے جید اہل خرد کی کتابوں میں۔ میدان جنگ کے آخری فاتح کپتان جیسے آتش بجاںہی ٹھہرتے ہیں۔ پہاڑجیسی غلطیوں کے باوجود احتجاجی سیاست ہی ظفر مند ہوتی ہے۔ ناقدری بہت ہے، خیر اندیش مگر شجر سے پیوستہ، پیہم پیوستہ۔

وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے

موسم گل میرے آنگن میں ٹھہر جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments