غیر مسلمان پاکستانیوں کے نام کھلا خط


اس نظام میں غیر مسلمان پاکستانیوں کو اپنے نمائندے تو مل گئے اور غیر مسلمان پاکستانیوں کی سیاسی تربیت بھی ہوئی لیکن اس نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کے غیر مسلم بچوں کو قومی دھارے سے ہی کاٹ دیا گیا۔ یعنی غیر مسلمان ووٹر کے حلقے کا نمائندہ چاہے وہ کسی بھی ایوان کا رکن ہو یعنی پاکستان کے تینوں ایوانوں سینیٹ، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا رکن ہو اور اس کا رشتہ غیر مسلمان ووٹر سے محلے داری یا پڑوس کا بھی ہو لیکن اس طریقہ انتخاب میں ووٹر اور حلقے کے نمائندے کو ایک دوسرے کے لئے اچھوت بنا دیا گیا، یعنی غیر مسلمان ووٹر اور مسلم امیدوار برائے ممبر سینیٹ قومی یا صوبائی اسمبلی کے درمیان ہزاروں سال پرانے برہمن اور شودر کا رشتہ قائم کردیا گیا۔

لیکن آفرین ہے غیر مسلم پاکستانیوں کی راہنمائی کے دعوے داروں پر انہوں نے اس طریقہ انتخاب میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بڑے بڑے عزت دار اس نظام کی بدولت راضی خوشی شودر بننے پر تیار ہوئے۔  اور قومی دھارے سے کٹ کر بھی ایوانوں کے رکن بن کر بھی خوش ہوئے۔  لیکن اس طریقہ انتخاب میں سب سے بڑا نقصان پاکستان کے عام غیر مسلم شہری کا ہوا۔ جس کا قومی اور صوبائی حکومتوں کے بنانے میں عمل دخل یک لخت ختم کر دیا گیا۔ اس طریقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے اپنی اپنی برادریوں سے ووٹ لے کر منتخب ہونے کے بعد اپنی مرضی سے جس مرضی پارٹی میں شامل ہو جاتے اس طرح یہ جمہوریت کے ساتھ ایک بڑا ظلم تھا۔

اس پر باشعور غیر مسلمان پاکستانیوں نے شور مچایا تو پھر غیر مسلمان پاکستانیوں کے لیے پانچواں اور موجودہ دور شروع ہوا جو اب تقریباً 2002 ء سے آج 2019 ء تک یہ سطریں لکھے جانے تک 17 سال کا ہو چکا ہے۔  اس نظام میں غیر مسلمان پاکستانیوں کو پاکستانی ہونے کا احساس تو ہوگیا ہے اور وہ قومی دھارے میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔  لیکن پتہ نہیں (چند ہندو پاکستانیوں کی ایک دو مثالوں کو چھوڑ کر) غیر مسلمان پاکستانی شہریوں کی سیاسی پسماندگی ہے یا نالائقی یا غلامی کی خوبوہے جو ہمارے لہو میں رچ بس گئی ہے کہ آج تک چند ہندو پاکستانیوں کی مثالوں کو چھوڑ کر ملک بھر میں کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے کسی حلقے میں کسی مسیحی یا دیگر غیر مسلمان سیاسی شخص کو چاہیے وہ جتنا بھی بڑا سیاسی گُرو اپنے آپ کو سمجھتا ہو کو ان کے سیاسی آقاؤں نے میرٹ پر ٹکٹ نہیں دیا۔

اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً ہماری سیاسی اشرافیہ آج تک اپنے سیاسی پیروکاروں کی تربیت نہیں کر سکی کہ وہ اپنے امیدوار کو سیاسی منشور پر ووٹ دیں، نہ کہ برادری مذہب رنگ اور نسل کی بنیاد پر ساتھ ہی اس نظام میں پھر سیاسی اشرافیہ نے غیرمسلمان پاکستانی شہریوں کے مذاہب کی بنیاد پر نمائندگی کرنے والوں کو چننے کا حق پھر متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا ہے اور غیر مسلم پاکستانیوں کے نام پر اپنے ایسے ایسے من پسند غلاموں اور طفیلیوں کو غیر مسلمانوں کا نمائندہ (حکمران) بنا کر بٹھایا بلکہ ان کے سروں پر مسلط کر دیا جاتا ہے جن کا ان سے دُور دُور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔

اس لئے اگر کبھی جس مذہبی گروہ کی وہ نمائندگی کرتے ہیں اس برادری کے اور ان کے سیاسی آقاؤں کے مفادات میں ٹکراؤ ہو تو وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ناکہ ان بیچارے معصوم محرومیوں اور پسماندگیوں کے مارے ہوؤں کے ساتھ جن بیچاروں کی محرومیوں کے نام پر وہ اپنے تیس تیس سکے کھرے کر رہے ہوتے ہیں۔  متناسب نمائندگی کے اس طریقہ انتخاب نے اور بھی بڑی سماجی برائیوں کو جنم دیا ہے مثلاً خوشامد، چاپلوسی، سیاسی پارٹیوں کے ورکروں کی ایک دوسرے سے حسد و نفرت اور دیگر اس طرح کی اور کئی قباحتیں اس نظام کی پیداوار ہیں۔  جس میں یقیناً سب سے بڑی غیر جمہوری روایات یہ ہے کہ 3626365 ووٹروں کے 37 نمائندے تین یا چار سیاسی لیڈر نامزد کرتے ہیں۔

یہ نام نہاد نمائندے اپنے نامزد کرنے والے آقاؤں کے مفادات کے ایوانوں میں رکھوالے ہوتے ہیں ناکہ اپنے ان ہم عقیدہ لوگوں کے جن کے نمائندہ ہونے کے وہ دعوے دار ہوتے ہیں۔  اب اگر ہم اس ستر سالہ سیاسی المیے کو چند لفظوں میں بیان کریں تو وہ یوں ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کبھی سیاسی اشرافیہ نے اپنی مرضی کے نمائندے ایوانوں میں اپنے ساتھ بٹھا لئے تو کبھی مخلوط انتخابی نظام کی بدولت انہیں ایوانوں سے دور رہنا پڑا پھر جداگانہ انتخابی نظام کی بدولت ان دھرتی واسیوں کو ان کی قومی شناخت سے ہاتھ دھونے پڑے اور اب مخلوط انتخاب کی بدولت انہیں اپنی قومی شناخت تو مل گئی لیکن متناسب نمائندگی کے نام پر ان خاک نشینوں کے نام پر چند جمہوری غلاموں کو ایوانوں میں بٹھا لیا جاتا ہے۔

اس لئے غیر مسلمان پاکستانیوں کے لئے ایسا سیاسی نظام درکار ہے جس میں وہ اپنی پاکستانی قومی شناخت کے لیے اپنے حلقے کا نمائندہ منتخب کریں۔  اپنے مذہبی حقوق کے مفادات کے لیے اپنے مذہبی نمائندے بھی اپنے ووٹ سے ہی منتخب کریں کیونکہ نہ تو ہماری سیاسی نشوونما کے لیے ایسا مخلوط طریقہ انتخاب بہتر ہے جس میں ہماری نمائندگی ہی نہ ہو اور جمہوریت کے نام پر آمرانہ طور طریقوں سے سیاسی جماعتوں کے منظورِ نظر راہنماؤں کو ہمارا نمائندہ چن لیا جائے اور نہ ہی جداگانہ طریقہ انتخاب ہمیں مکمل پاکستانی اور آزاد شہری ہونے کا احساس دلاتا ہے۔  لہٰذا پاکستان میں غیر مسلمان پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی اور اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے سیاسی حقوق دلوانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔

دوہرے ووٹ سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ پاکستان بھر کے غیر مسلمانوں کے مجموعی ووٹ توصرف 3626365 ہیں لیکن یہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کمیونٹی ورلڈ سروس ایشیا کے ایک سروے کے مطابق 2008 ء کے انتخاب میں پاکستان بھر کی 59 انتخابی حلقے ایسے تھے جن میں غیر مسلمان پاکستانی ووٹروں کی تعداد ہارنے والے اور جیتنے والے امیدوار کے درمیان ووٹوں کی تعداد سے زیادہ تھی اسی طرح ایک اور تحقیق کے مطابق قومی اسمبلی کی 98 انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں غیر مسلمان ووٹروں کی تعداد دس ہزار یا اس سے زیادہ ہے اسی طرح ایک اور تحقیق کے مطابق پاکستان پاکستان بھر کے چودہ اضلاع میں مسیحی ووٹروں کی تعداد پچاس ہزار یا اس سے زیادہ ہے جن میں 13 اضلاع پنجاب کے ہیں اور ایک ضلع کراچی کا ہے اسی تحقیق کے مطابق پاکستان بھر میں ہندو ووٹروں کی تعداد 11 اضلاع میں پچاس ہزار یا اس سے زیادہ ہے جن میں 10 سندھ میں اور ایک پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3