غیر مسلمان پاکستانیوں کے نام کھلا خط


اس لئے جب مختلف پارٹی سیٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے غیر مسلم امیدواروں کو غیر مسلم ووٹروں کے سامنے میدان میں اُتاریں گی۔ تو یقیناً پھر اپنے اپنے امدیوار کو جتوانے کے لئے قومی سطح غیر مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے منشور میں بھی جگہ دیں گی اور جس سے ملک بھر میں مذہبی اور سماجی ہم آہنگی کی فضا قائم ہو گی جس سے ملک میں ایسے ناخوشگوارواقعات میں کمی آئے گی جن سے آئے دن وطن عزیز کو عالمی طاقتیں اور استعماری قوتیں اقلیتوں سے ظلم زیادتی کے طعنے دیتی ہیں اس میں کمی آئے گی اور پاکستانی قوم کا وقار اقوام عالم میں بلند ہو گا اور غیر مسلم پاکستانی اپنی قومی اور مذہبی شناخت ملنے پر مطمئن ہوں گے۔

اس طریقہ انتخاب میں وہ اپنی پاکستانی قومی شناخت کے لئے اپنے قومی اور صوبائی حلقے کا نمائندہ منتخب کریں اور اپنے مذہبی حقوق اور مفادات کے لئے اپنے مذہبی شناخت پر ایوانوں میں بیٹھنے والے نمائندے بھی اپنے ووٹ سے ہی منتخب کریں۔  اس نظام انتخاب کی تفصیلات اور دیگر خدوخال آبادی کے اعدادو شمار کو سامنے رکھ کر اور معروضی حالات کے مطابق وضعکیے  جا سکتے ہیں۔  اسی میں پاکستانی اقلیتوں کی سیاسی بقا ہے اور اسی میں پاکستان کے جمہوری نظام کی بقا بھی ہے کیونکہ اب تک غیر مسلم پاکستانی شہریوں پر تھوپے گئے طرزِ انتخابات سے ایک میں قومی شناخت کھو جاتی ہے اور دوسرے میں مذہبی شناخت اور حقوق کے نام پرمنتخب ہونے والے نمائندے تحفظ کسی اور کے مفادات کا کرتے ہیں ”جمہوری نظام کی بقا اس لئے غیر مسلمان پاکستانیوں کو مطمئن کرنے سے مشروط ہے کیونکہ آج کے ترقی اور تہذیب یافتہ دور میں کسی بھی ملک کی سیاسی، سماجی و مادی ترقی کا ایک معیاریہ بھی ہے کہ وہاں کے رنگ نسل مذہب مسلک کی بنیاد پر اقلیت قرار دیے گئے شہری اپنے سیاسی و سماجی معاملات سے کتنے مطمئن ہیں اور وہاں کی اقلیتیں اپنے سماجی، مذہبی اور سیاسی حقوق سے کتنی مطمئن ہیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں بس ہم غیر مسلم شہری اپنے لوگوں کو یہ بات پوری طرح سمجھا دیں، کہ ہمارے ساتھ ستر سال میں ہوا کیا ہے۔  بس اس کی ہمیں سمجھ ہو کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اس کے لئے ماضی اور حال کا جاننا ضروری ہے کیونکہ ماضی اور حال جانے بغیر مستقبل کا ادراک ہو ہی نہیں سکتا

اس لئے ہمیں پہلے ہر خاص و عام غیر مسلم پاکستانی شہری تک ماضی و حال کے طرز انتخابات کی خوبیاں، خامیاں پہنچانی ہیں تاکہ دوہرے ووٹ کے اس فارمولے کے بارے میں جان سکیں۔  پھر مسلمان سیاسی اشرافیہ کو قائل کرنا کوئی مشکل نہیں۔  اوپر بیانکیے  گئے تاریخی شواہد ثابت کرتے ہیں کہ اس ساری صورت احوال کے سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ہم خود بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ مخلوط طریقہ انتخاب میں ہم میرٹ پر کچھ حاصل نہ کر سکے تو ہم نے جداگانہ طریقہ انتخاب کا نعرہ لگایا، جدا گانہ طریقہ انتخاب میں ہم اچھوت بن گئے تو زیادہ تر اس اچھوت حیثیت میں بھی مفاد تلاش کرتے رہے لیکن چند سر پھروں نے پھر مخلوط کا نعرہ لگایا پھر مخلوط ملا تو اب پھر ہم اچھوت بننے کے لئے جداگانہ مانگ رہے ہیں تاکہ اس اچھوت نظام میں سے بھی کچھ کے لئے زلت آمیز رفعتیں نکل آئیں یعنی ہم نے ستر سالوں میں کچھ سیکھا نہیں اور مسیحی جو برصغیر میں تعلیم کے بانیوں اورسیاسی، سماجی شعور و آگاہی دینے والوں کے جانشین ہیں پورے ملک میں پھیلے تعلیمی اداروں کے مالک ہیں لیکن وہ اپنے لوگوں یعنی مسیحیوں کی فکری وشعوری تربیت نہ کر سکے اور ہندو جوسوبھوگیان چندانی جیسے سیاسی گُرو کے جانشین ہیں وہ بھی کوئی فکری جدوجہد نہ کر سکے اور دیگر اقلیتیں تعداد انتہائی کم ہونے کی وجہ سے اس طرح کی کسی جدوجہد کا حصہ ہی نہ بن سکیں۔

لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ اس خیال سے متفق ہیں اور اس انتخابی نظام کے لئے کوشش کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس میں اس طرح حصہ ڈال سکتے ہیں کہ اس خط کو اپنے گرجا گھروں، گردواروں، مندروں یا جہاں بھی آپ کے مذہبی اجتماع ہوتے ہیں وہاں لوگوں میں تقسیم کریں اور ہماری ہندو برادری چونکہ زیادہ اندرون سندھ میں ہے تو وہ اسے سندھی میں ترجمہ کروائیں اور اپنے لوگوں کی فکری، شعوری، سماجی اور خاص کر سیاسی آگاہی کے لئے لوگوں میں پھیلائیں کیونکہ اس طرح کی فکری آگاہی سے ہی انسان سماجی معاشرتی، معاشی، تعلیمی تہذیبی ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔

پھر اس کے بعد ہماری شناخت پر سینیٹ، اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کو قائل کریں۔  کہ وہ بھی مشترکہ طور پر اس انتخابی نظام کے لئے آواز اٹھائیں جس میں غیر مسلم پاکستانیوں کی قومی شناخت یعنی پاکستانی شناخت بھی قائم رہے اور ہر کسی کی مذہبی شناخت اور مفادات کا بھی ایوانوں میں تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔  تحریک شناخت بنیادی طور پر پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو اجاگر کرنے کی فکری تحریک ہے۔

ایسی فکری تحریک جو نہ صرف پاکستانی مسیحیوں بلکہ غیرمسلمان پاکستانیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل و خطرات اور دستیاب مواقع، ان کی توانائیوں، کمزوریوں کا حقیقت پسندانہ تخمینہ لگا کر ان کا تجزیہ کرنے کے لئے اس ملک کے غیرمسلمان شہریوں کے لئے عزت سے جینے کے اسباب پیدا کرنے میں کوشاں ہے۔  اس فکری تحریک میں کوئی عہدے دار نہیں ہر کوئی رضا کار ہے آپ بھی اس فکر کو پھیلانے میں اس کے رضا کار ہو سکتے ہیں۔

چاہے آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے آپ عام ورکر ہیں یا رہنما آپ کسی سماجی بھلائی کی تنظیم سے وابسطہ ہیں یا عام مسلم پاکستانی شہری ہیں جو ان غیر مسلمان پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی جان کر ا ن کی اپنی اپنی مذہبی شناخت کے تحفظ کے لئے ایوانوں میں ان کے نمائندے پہنچانے کے حق میں ہیں تو آپ اپنی وہ شناخت برقرار رکھتے ہوئے بھی اس فکری جدوجہد میں ہمارے ساتھی ہو سکتے ہیں حتی کہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے بہن بھائی بھی اس میں ضرور حصہ لیں کیونکہ کل جب یہ انتخابی نظام نافذ العمل ہو گا تو آپ بھی اس نظام کے ذریعے انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3