آسیب کا سایہ


وہ جو منیر نیازی نے کہا تھا

منیر اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

افسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز کیسے گھمبیرداخلی اور خارجی مسائل سے دوچار ہے اور ہم کس طرح کے ”نان ایشوز“ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ہمیں ماضی میں تلخ تجربات سے پالا نہ پڑا ہو یا ہم نے اس طرح کی روش کی بھاری قیمت نہ ادا کی ہے۔ لیکن کیا ستم ہے کہ ہم ماضی کے سبق بھول کر از سر نو وہی تلخ تجربات دہرانا چاہتے ہیں اور گمان یہ کرتے ہیں کہ اس بار نتائج وہ نہیں نکلیں گے جو پہلے نکلے تھے۔

ذرا گرد و پیش پر نظر ڈالئے۔ بھارت میں نئے انتخابات کے بعد، سر تا پا پاکستان دشمنی میں لتھڑا ہوا، نریندر مودی ایک بار پھر پانچ سال کے لئے وزیر اعظم کی کرسی پر آ بیٹھا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ اور دیگر موثر عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات اوربہت بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمارے لئے دنیا کے ہر فارم پر مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارا دوسرا ہمسایہ ایران ہے جو کئی برسوں سے امریکی عتاب کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

تازہ واردات یہ ہے کہ امریکی بیڑا متحرک ہو چکا ہے اور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ نہایت ہی دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے گہرے اور دیرینہ دوست سعودی عرب کے تعلقات ایران سے کشیدہ ہیں۔ اگر خدا نخواستہ ایران کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام ہوتا ہے تو امریکہ اور سعودی عرب ایک کیمپ میں ہوں گے۔ ہمارے لئے شدید مشکلات پیدا ہو جائیں گی کہ ہم اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں۔ غیر جانبدار رہنا اچھا آپشن سہی، لیکن دوسروں کی مدد (بلکہ امداد) کے محتاج کسی ملک کے لئے یہ عیاشی آسان نہیں ہوتی۔

تیسرے ہمسایے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے۔ آج کل تو ان تعلقات میں اچھی خاصی کشیدگی آچکی ہے۔ افغانستان میں امریکی اور بھارتی موجودگی ہمارے لئے نئے خطرات پیدا کر رہی ہے۔ چوتھے ہمسایے (چین) کے ساتھ ہماری شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے بلند دوستی میں بھی گرم جوشی میں کمی آرہی ہے۔ مسعود اظہرکو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے دیرینہ بھارتی مطالبے کے سامنے چین نے اپنا ٹیکنیکل ہولڈختم کر دیا اور پیغام دیا کہ وہ زیادہ دیر ہماری دلداری کے لئے عالمی دباؤ کے سامنے بند نہیں باندھ سکتا۔

سی۔ پیک کے حوالے سے ہمارے حکومتی رویے نے بھی زیادہ مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ مختصر لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پاک چین تعلقات میں بھی اب سے کچھ برس پہلے والی گرم جوشی نہیں۔ ادھر فاٹف (FATF) کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے۔ بھارت سر توڑ کو شش کر رہا ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈلو اکر ہماری مشکلات میں اضافہ کیا جائے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہمیں ”گرے“ سے نکال کر ”وائٹ“ لسٹ میں ڈالا جائے۔

یہ تو ہے بیرونی حالات کا منظر نامہ جو کسی پہلو سے خوش آئند نہیں۔ اب ذرا گھر کے اندر کے حالات پر ایک نظر ڈالئے۔ حکومت کو قائم ہوئے دس ماہ ہو گئے لیکن ابھی تک اس کے پاوں زمین پر جمے دکھائی نہیں دیتے۔ معیشت کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں۔ وزیر اعظم، وزراء، مشیروں اور ترجمانوں کے پاس بس ایک ہی دلیل ہے کہ جانے والے معیشت کو تباہ کر گئے۔ مگر لوگ موازنہ کرتے ہیں کہ جانے والوں کے زمانے میں مہنگائی کی شرح کیا تھی۔

پٹرول کس بھاؤ ملتا تھا۔ ادویات کی قیمت کیا تھی۔ بے روزگاری کا عالم کیا تھا اور ملک کی مجموعی اکانومی کس شرح سے ترقی کر رہی تھی۔ آئی۔ ایم۔ ایف کے ساتھ معاہدہ حتمی شکل کو نہیں پہنچا لیکن مہنگائی کی شدید لہر نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ قرضوں کا جوجھ اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

اہم ادارے غیر سرکاری ٹیکنوکریٹس کے حوالے کیے جا رہے ہیں جن کی وفاداریاں پاکستان سے کہیں زیادہ اپنے عالمی ماسٹرز کے ساتھ ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی مالی امداد (جو دراصل سود پر لئے گئے قرضے ہیں ) کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر ناکافی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں انتہائی تیزی کے ساتھ کمی آئی ہے اور آج ہماری کرنسی کی قیمت بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھی کم ہو چکی ہے۔ بے تحاشا مراعات دینے کے با وجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ بتایا جا رہا ہے کہ نیا بجٹ، آئی۔ ایم۔ ایف سے طے کی گئی خفیہ کڑی شرائط کا عکاس ہو گا۔ بجلی، گیس وغیرہ کی قیمتیں اور زیادہ بڑھیں گی اور عوام کے لئے مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔

یہ تو معیشت کی صورت حال ہے اور کون نہیں جانتا کہ قومی سلامتی بھی معیشت ہی سے جڑی ہوتی ہے۔ عمومی سیاسی حالات پر نگاہ ڈالیں تو مزید مایوسی ہوتی ہے۔ ایک انتشار کی کیفیت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت کا اہم تریں ایجنڈا نہ معیشت کی اصلاح ہے نہ جمہوری نظام کی مضبوطی، اس کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ نواز شریف اور دیگر مخالف سیاسی قیادت کو جیلوں میں ڈالا جائے۔ ان کی تذلیل کی جائے۔ صبح شام انہیں چور اور ڈاکو جیسے القابات سے نوازا جائے۔

انہیں جھوٹے سچے مقدمات میں الجھا دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں (خواتین سمیت) پر تشدد، گرفتاریاں اور مقدمے اس بات کی دلیل ہیں کہ حکومت طاقت کے ذریعے جبر کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ نیب بے لگام ہو چکا ہے اور اس کی دہشت سے نہ صرف اکانومی بلکہ حکومتی مشینری بھی مفلوج ہو چکی ہے۔

ادھر اسمبلی یا سینٹ کا اجلاس ہوتا ہے تو حکومتی بنچوں سے آگ اگلنے والے مقررین ماحول میں اشتعال پیدا کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپوزیشن تو پوں کے دہانے کھول دیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ دس ماہ سے قانون سازی کا کام رکا ہوا ہے۔ اسی کیفیت کے اندر میران شاہ والا افسوس ناک واقعہ پیش آتا ہے۔ اس کی تفصیلات میں جائے اور ذمہ داری کا تعین کیے بغیر اتنی بات ایک عام پاکستانی بھی سمجھتا ہے کہ ہمارے دشمن اس سے کتنا فائدہ اٹھائیں گے۔

ایک نیا محاذ نیب چیئرمین کے مبینہ ٹیپ اور کالم نگار سے ان کی طویل گفتگو کی وجہ سے کھل گیا۔ حکومت کو اس سے بھی تسکین نہیں ہوئی اور اس نے سپریم کورٹ کے معزز جج قاضی فائز عیسیٰ اور ہائیکورٹ کے دو جج صاحبان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیے۔ گویا ہر طرف آگ بھڑکانے کا سلسلہ جاری ہے اور تعمیر و ترقی کا ایجنڈا پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت چلانے کو ”آسان کام“ قرار دے دیا۔ شاید اسی سوچ کا اثر ہے کہ داخلی اور خارجی اعتبار سے ملک کی مشکلات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نہ جانے کس آسیب کا سایہ ہے کہ آگے کو کوئی حرکت دکھائی دیتی ہے، نہ سفر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).