رہائش اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کس کی ذمہ داری؟


کراچی میں پاکستان کوارٹرز، ایمپریس مارکیٹ اور اب سرکلرریلوے کے تجاوزات اور رہائشی مکانات کے انہدام کے بعد لوگ رہائشی مسئلے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں۔ کیا ہمارا نظام، ہماری ریاست اور حکومت اس مسئلے کو حل کر سکتی ہے؟ اس حوالے سے مختلف ممالک میں مختلف نظام اپنائے گئے، ایک منصوبہ بند معیشت پر مبنی نظام اوردوسرا آزاد منڈی کی معشیت والا نظام۔ منصوبہ بند معیشت میں ریاست افراد کی تعداد کے لحاظ سے ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہے۔

کوئی بھوکا نہ سوئے، ہر ایک کو کھانا ملے، اس کے لئے کوپن یا راشننگ سسٹم اپنایا جاتا ہے۔ کوپن یا راشن کارڈ دکھاؤ اور خوراک حاصل کرو۔ لیکن ٹھہرئیے، اس سے بھی پہلے تو اناج اگانے کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے لئے زرعی کمیون بنائے جاتے ہیں، کسانوں کی ٹیمیں مل کر اناج اگاتی ہیں، زمین نجی ملکیت نہیں بلکہ ریاست کی ملکیت ہوتی ہے۔ ریاست خود مکانات بناتی اور شہریوں کو فراہم کرتی ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے بعد روزگار کا نمبر آتا ہے۔ منصوبہ بند معیشت میں کوئی فرد بے روزگار نہیں ہوتا۔ ریاست سب کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ ریاست جانتی ہے کہ کن شعبوں میں ملازمتیں نکلیں گی، اسی حساب سے اور ان ہی شعبوں میں یونیورسٹیوں میں طلبا کو داخلے دیے جاتے ہیں۔ شہریوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

آزاد منڈی کی معیشت والے نظام میں سب کچھ منڈی کی قوتوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہر چیز کی پیداوار یا فراہمی کا تعین طلب اور رسد کے اصول کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہ نظام منافع کی بنیاد پر چلتا ہے، جس چیز کی طلب یا مانگ زیادہ ہو گی، اس کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ اس نظام میں سب کچھ پیسے سے خریدا جاتا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، ہربنیادی سہولت پیسے سے خریدی جاتی ہے۔ اس نظام میں زیادہ تر تعداد اجرتی غلاموں اور بے زمین ہاریوں کی ہوتی ہے جو ساری عمر اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے محنت مشقت کرتے رہتے ہیں۔

اس نظام میں امیر امیر تر اور غریب غریب ترہوتا چلا جاتا ہے۔ کتابوں میں صحتمند مسابقت کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے یعنی اشیا بنانے والوں اور بیچنے والوں کے درمیان مقابلے کی بنا پر لوگوں کو مناسب داموں پر چیزیں ملتی ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ سرمایہ دار اور صنعتکار اپنی اجارہ داریاں قائم کرتے ہیں اور من مانی قیمت وصول کرتے ہیں مثال کے طور پر اس وقت مارکیٹ میں مختلف ناموں اور قیمتوں کے واشنگ پاؤڈر دستیاب ہیں لیکن ہم میں سے کتنوں کو پتا ہے کہ ان میں سے بہت سے پاؤڈر ایک ہی کمپنی بنا رہی ہے تو پھر کس سے مقابلہ اور کیسا مقابلہ!

تیسرا نظام ملی جلی معیشت والا نظام ہے، یعنی کچھ ذمہ داریاں حکومت سنبھالتی ہے اور کچھ ذمہ داریاں نجی شعبہ سنبھالتا ہے۔ وفاقی حکومت عوام اور منڈیوں کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ کچھ بنیادی صنعتیں حکومت کی ملکیت ہو سکتی ہیں۔ سماجی فلاح و بہبود کے پروگرامز بھی حکومت چلاتی ہے۔ فوج، بین ا لاقوامی تجارت اور ٹرانسپورٹیشن کے معاملات میں حکومت کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ دیگر شعبوں میں حکومت کے کردار کا انحصار شہریوں کی ترجیحات پر ہوتا ہے۔

آپ کو یاد ہو گا کہ ایک زمانے میں ہمارے یہاں پنج سالہ منصوبے بنتے تھے۔ ایوب خان کے زمانے میں بہت سی صنعتیں حکومت چلاتی تھی۔ بھٹو کے دور میں صنعتوں، بینکوں اور تعلیمی اداروں کو قومیایا گیا۔ ضیا ء الحق کے دور میں اسلامی اقدامات کیے گئے۔ ملی جلی معیشت میں منصوبہ بند معیشت اور مارکیٹ اکنامی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ملی جلی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت، ہلکی صنعتوں اور سروسز پر ہے۔ 1990 کے عشرے سے پاکستان نے لبرلائزیشن اور پرائیوٹائزیشن پر زور دینا شروع کیا ہے۔

بہرحال بات شروع ہوئی تھی لوگوں کے رہائشی مسئلے سے جو آبادی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے دن بدن سنگین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس مسئلے کو ابھی تک سیاسی نعرے کے طور پر ہی استعمال کیا گیا ہے۔ سول سوسائٹی میں عارف حسن اور تسنیم صدیقی نے کچی آبادیوں کے مسائل پر کافی تحقیق کی ہے۔ تسنیم صدیقی نے تو کراچی میں ’خدا کی بستی‘ کے نام سے غریبوں کے لئے ایک بستی بھی بسائی۔ پروین رحمن کراچی کے گوٹھوں کو ریگولرائز کرانے اور غریبوں کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

اگر مرکزیت پسند منصوبہ بند معیشت ہوتی تو رہائشی سہولتوں کی فراہمی کی مکمل ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی مگر ملی جلی معیشت میں بھی عوامی فلاح کے منصوبے بنانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ آخر پہلے بھی تو پاکستانی حکومتیں صنعتی مزدوروں اور غریبوں کے لئے کالونیاں اور اسکیمیں بناتی رہی ہیں تو اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ شاید بلڈرز مافیا کے آگے سب نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

ہم عوام کی ایک بڑی تعداد کے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ غربت کا نہیں، عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔ رہائش کے مسئلے کو ہی دیکھ لیجیے۔ اشرافیہ کے پاس پاکستان کے ہر بڑے شہر میں کوٹھیاں اور بنگلے اور آبائی گاؤوں بڑی بڑی حویلیاں ہیں۔ اگر بڑے مکانات بنانے پر پابندی لگا دی جائے۔ ہر امیرشخص کو صرف ایک مکان اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ دو سو چالیس یا حد سے حد چار سو گز کا رکھنے کی اجازت دی جائے اور باقی مکانات غریبوں میں تقسیم کر دیے جائیں تو رہائش کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).