پاٹو کی اپنے لئے پالیسیوں میں نرمی مگر ماؤنٹین گائیڈز کو جکڑنے کی خواہش


پاکستان میں سیاحت کے وسیع مواقع ہونے کے باوجود ماضی میں بد قسمتی سے پاکستان میں غیر ملکی سیاحوں کو لانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ بعض سطح پر پاکستان آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی رپورٹیں بھی آتی رہی۔ جس کی وجہ سے اس شعبے سے وابستہ افراد نے اپنی اپنی انجمنیں بنا کر حکومت پر دبا ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان انجمنوں میں سے ایک پاٹو یعنی پاکستان ایسوی ایشن آف ٹور آپریٹرز بھی ہے اس انجمن نے ہروقت نہ صرف حکومت کی غلط پالیسوں پر تنقید کی بلکہ اچھی پالیسوں پر حکومت کی تعریف بھی کی ہے۔

چونکہ راقم نے ماسٹر تک تعلیم کے حصول کی بہت سی راہیں اسی سیاحت کے گھوڑے پر سوار ہو کر طے کیے ہیں تو ماسٹر کے بعد صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہی سیاحت کے شعبے سے وابستہ افراد سے اپنا ناتہ جوڑ رکھا جس کی وجہ سے ان کی تنقید اور تعریف دونوں کو قریب سے مشاہدے کا موقع ملا۔ پاٹو غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان لانے کے لئے حکومت سے اپنی پالسیوں میں نرمی پیدا کرنے کا مطالبہ شروع دن سے کرتی رہی ہے جس میں 9 / 11 سے پہلے کی سیاحتی پالیسی کی بحالی ہے۔

لیکن اپنے لئے پالیسوں میں نرمی پیدا کرنے کی خوہش مند پاٹو ڈی ٹی ایس یعنی ڈپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروس کے ساتھ مل کر اپنے دست بازو ماؤنٹین گائیڈز کو شکنجے میں کسنے کے لئے کمر بستہ پا کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ آپ اپنے لئے 30 سال پہلے کی پالیسی کی بحالی چاہتے ہیں مگر بچارے مانٹین گائیڈز کے لئے نئی نئی شرائط تجویز کرتے ہیں۔ ان شرائط میں سے ایک شرط گائیڈ لائسنس کی تجرید یعنی ری نیول کے لئے کمپنی کی طرف سے تصدیقی سرٹیفکیٹ ہے۔

ری نیول کے یہ نئی شرط انتہائی مضحکہ خیز اور بے چارے گائیڈز کو شکنجے میں کسنے کی نئی چال اورڈی ٹی ایس کے دفتر میں ذلیل کرنا اور پھر اس ذلت سے بچنے کے لئے بدعنوانی کی راہ ہموار کرنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص پہلی دفعہ لائسنس کے لئے اپلائی کرتا ہے تو اسے شناختی کارڈ، تعلیمی اسناد کی سرٹیفکیٹ کے علاوہ اس شعبے میں تجربہ رکھنا کا سرٹیفکیٹ بھی جمع کرانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ کاغذات اس شخص کے آبائی گاؤں کے قریبی پولیس سٹیشن سے ویریفکیشن ہوتی ہے ان مراحل کو مکمل ہونے میں تقریبا تین مہینے لگ جاتے ہیں۔

ماؤنٹین گائیڈز ایکٹ 1976 کے آرٹیکل 4 کی شق نمبر 4 کے تحت ہر تین سال بعد اسے اپنے لائسنس کی تجدید یعنی ری نیو کرنی ہوتی ہے مگرڈپارمنٹ آف ٹورسٹ سروس والے صرف ایک سال کے لئے لائسنس ری نیوکرتے ہیں اور ہر سال تجدید کرنی پڑتی ہے۔ یہ بذات خود قانون کی خلاف ورزی اور بے چارے ماؤنٹین گائیڈز کے جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ماؤنٹین گائیڈز کے شعبے سے منسلک زیادہ افراد گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے ہیں انہیں صرف گائیڈ لائسنس کے ری نیول کے لئے اسلام آباد آنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد آنے کے بعدفوری طور پر ان کی فائل نہیں بھیجی جاتی ہے۔ اگر خوش قسمتی سے جلدی ہو بھی گیا تو کم ازکم ہفتہ اسلام آباد میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب جب وہ اسلام آباد میں ڈی ٹی ایس کے دفتر پہنچتا ہے تو اسے نئی شرائط سے آگاہ کیا جاتا ہے اس پر گائیڈحضرات پھٹ پڑنے کے بجاے خاموشی سے ان کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اس نئی شرط کے حوالے سے ڈپارٹمنٹ آف ٹورسٹ سروس کے کنڑولر عمران خواجہ صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ شرط پاٹو کی تجویز پر رکھی ہے۔

جب یہ مسئلہ راقم نے اپریل میں منعقد ہونے والے ٹورزم ڈائیلاگ میں پاٹو کے پینل کے سامنے اٹھایا تو پاٹو کے نائب صدر اصغر علی پورک نے اس قسم کی کسی تجویز دینے کی تردید کی۔ اس پینل میں پاٹو کے دو سابق صدور عرفان اللہ بیگ اور سید سجاد شاہ، باٹو کے صدر ایاز شگری اور باٹو تاحیات چیرمین حاجی محمد اقبال سمیت پاٹو کے اہم ارکین موجود تھے۔ اس کے بعد مجھے گمان ہوا تھا کہ شاید اب ڈی ٹی ایس والے دوبارہ لوگوں سے اس قسم کی اسناد کا مطالبہ نہیں کریں گے۔

تاہم افسوس ہمارا یہ گمان محض سراب ثابت ہوا۔ عمران خواجہ صاحب مسلسل اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ ہفتے ان کے دفتر میں اس معاملے پر کافی گفت شنید ہوئی مگر وہ اس کی مختلف تالین پیش کرتے رہے اور وہ اس شرط سے دستبردار ہونے کے لئے کسی طور پر تیار نہیں ہوئے۔ دوران گفتگو انہوں نے فون پر عرفان اللہ بیگ صاحب کو اس نئی شرط پر ہمارئے اعتراض سے آگاہ کیا۔ (حالانکہ راقم نے پہلے ہی عرفان اللہ بیگ صاحب کو اپنا اعتراض بتا چکا تھا) دوران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ قوانین میں ترمیم کر رہے ہیں۔

اب حیران نہ ہوں کیا ہوا کہ ترمیم کرنے سے پہلے ہی اس پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ تاہم دوران گفتگو عمران خواجہ کی ایک بات کافی حوصلہ افزا یہ تھی کہ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے وہ ہے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سیاح آئیں تاکہ لوگوں کی روزی لگی رہے۔ وہاں پر عرفان بیگ صاحب اور کنڑولر کی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ گائیڈز کو شکنجے میں کسنے کی خواہش پاٹو کی ہی ہے۔ ڈی ٹی ایس والوں کا اصرار ہے کہ فری لانس گائیڈ ختم کرنے کے لئے اس کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں۔

دوران گفتگو اندزہ ہوا کہ کنٹرولر سمیت کوئی بھی فری لانس گائیڈ کے تصور سے مکمل آگاہ نہیں ہیں۔ آمدنی میں کمی کی وجہ سے گائیڈحضرات سیزن میں مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کے لئے ہر اپنا تجدیدی گائیڈ لائسنس تیار رکھتے ہیں اور جو کمپنی پہلے گروپ دے اور جو اچھا پیسہ دے تو وہ اس کمپنی کا گروپ لے کر چلا جاتا ہے جب اس گروپ کے ساتھ کام سے فارغ ہو جائے تو اسی طرح کسی اور کمپنی کا گروپ لے کر نکل گیا۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

جسے عرف عام فری لانس گائیڈ کہا جاتا ہے۔ انہیں خوف کسی گائیڈ کا اپنے سے گروپ بلانے کا ہے جو اس دور میں اگر ناممکن نہیں ہے تو ناممکن کے قریب ضرور ہے۔ گلگت بلتستان میں کچھ مخصوص علاقوں کے علاوہ اوپن زون میں ٹریکنگ اور مہم جوئی دونوں کے لئے ماؤنٹین گائیڈز لیزن افسر کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے۔ جو ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہے مگر اس کے باوجود انہیں خاطر خواہ اجرت نہیں جاتی ہے۔ اس حوالے سے ایک ٹریول رائٹر حانیہ طارق صاحبہ کا انگریزی مضموں جس کا راقم نے ماؤنٹین گائیڈز کا استحصال کا عنوان دے کر اردو میں ترجمہ کیا تھا

اس مضموں کے مطابق ماؤنٹین گائیڈز کو یومیہ اجرت 1500 سے 2500 تک دی جاتی ہے حانیہ طارق صاحبہ لکھتی ہیں کہ ایک گائیڈ کی سالانی آمدنی 105739 روپے ہے جبکہ دوسری طرف اکنامک سروے آف پاکستان کے سال 17۔2016 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر سالانہ فی کس آمدنی 171656 ہے اس حساب سے ایک گائیڈ کو 65917 روپے کا سالانہ خسارہ ہوتا ہے۔ حانیہ طارق صاحبہ کے مطابق سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی اصول طے نہیں ہوا ہے۔ تاہم گلگت بلتستان کونسل کی ویب سائٹ پر جاری کردہ قواعد و ضوابط کی شق نمبر 9، 10 اور 11 کی رو سے ماؤنٹین گائیڈز کی کم از کم یومیہ مزدوری 20 ڈالر بنتی ہے اس کے علاوہ ضروری ساز وسامان (کٹ) بھی دینا اس ٹورسٹ کمپنی پر لازمی ہے مگر بعض ٹورسٹ کمپنیاں مزدوری میں کمی کے ساتھ ساتھ ضروری سامان بھی نہیں دیتی ہیں۔

تاہم کچھ ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو اپنے گائیڈز کو اپنی طرف سے سفیر تصور کرتے ہوئے انہیں ہر قسم کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ا ن کمپنوں کے ساتھ کام کرنے سینئر گائیڈز اس شعبے میں شید ید بحران کے دنوں میں بھی ان کے ساتھ کام کرتے نظر آئے۔ اس لئے پاٹو کی طرف سے اس نئی مبینہ تجویز سے یہی گمان ہوتا ہے کہ ماؤنٹین گائیڈز کی طرف سے ممکنہ طور ان حقوق کی فراہمی کے مطالبے سے روکنے کے لئے حربے کے طور پر اس قسم کی نت نئی شرائط عائد کی جا رہیں۔

لیکن یاد رکھنا چاہے کہ اگر ایسا ہے تو اس قسم کے حربے ٹورسٹ کمپنیوں کے لئے مستقبل میں گلے کی ہڈی بن سکتی ہے جس طرح سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں اس طرح اس سرمایہ دارنہ نظام میں بڑی کمپنیاں چھوٹی کمپنیوں کو کھانے کے لئے اس قسم کا حربے کا استعمال کر رہی ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ اس شعبے کے تباہی کی شکل میں سامنے آئے گا۔ کیونکہ اس کا ادارک فوری طور پر شاید ان چھوٹی یا نئی کمپنیوں کو نہ ہو مگر مستقبل میں کسی ممکنہ پیٹشن کے نتیجے میں انہیں گائیڈز کو سال بھر کی تنخواہ اور گائیڈ لائسنس کی تجدیدی فیس دونوں دینی پڑیں گی۔اس وقت ان چھوٹی کمپنیوں کو اپنا کاروبار بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

جب نئی اور چھوٹی کمپنیوں کو جب اس بات ادارک ہو جائے گا تو وہ ان شرائط کو اپنے خلاف سازش سے تعبیر کرتے ہوئے ان بڑی کمپنیوں کے خلاف بھر پور محاذ بنائیں گی جس سے ان کے لئے بھی کاروبار کے دروازے بن ہو جائیں گے۔ اس لئے دانشمندی کا تقاضا یہ ہے گائیڈز کے لئے راستے مسدود کر کے انہیں اپنا دشمن بنانے کے بجائے اپنا دست و بازو سمجھیں اور ان کے لئے کہیں غیر ضروری شرائط عائد ہو تو انہیں ختم کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ امید ہے کہ پاٹو ہماری ان سطور پر غور کر کے مثبت ردعمل دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).