تقدیس مشرق، قحط زدہ معاشرہ اور اخلاقی گراوٹ
پچھلے ہفتہ اسلام آباد میں وقوع پذیر ہونے والے چند واقعات نے تقدیس مشرق کی ملمع کاری سے آراستہ بے بنیاد خوبصورت دیواروں کو ایک ایسا جھٹکا دیا ہے کہ ان کو استوار کرنے والوں کی ارواح بھی کانپ گئی ہوں گی۔ طعنے دیے جاتے ہیں کہ غربت اور جہالت گناہوں کو جنم دیتی ہے۔ یہاں تو شاعر مشرق کو سمجھنے اور اس کو اوتار مان کر اس کے ہر کام و نام کی نقل کرنے والوں کی اولاد ملک میں اعلیٰ احتسابی کرسی پر بیٹھ کر اسی کام کی آبیاری کر رہی ہے جس کو نفرت سے ناقابل تقلید قرار دیتے ہوے مشرقی پاکیزگی کی عظمت کے گن گائے گئے تھے۔
اب یہ عظمت و عفت اکثر ہمیں قلعہ اسلام کے شہروں میں گندگی کے ڈھیروں یا پھر دیہاتوں کی اونچی فصلوں کے بیچ میں سڑتی گلتی اور بدبو چھوڑتی نظر آتی ہے۔ اور ہم اسلام کی آفاقیت کے پاسبان ہونے کے دعویٰ دار، غیر پاکستانی اور غیر قانونی مہاجر ہونے کے طعنہ کی اوٹ میں منہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ کیا ہم اخلاقی انحطاط کی اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے علاوہ اور کوئی انسان ہی نہیں لگتا۔ کیا ہمارے قوانین اور اخلاقی حدود صرف دکھاوے کے لئے ہیں اور ان کا انضباط ہم پر نہیں ہوتا؟ تو اب ہم اَسفَل سافِلین سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔
ہم سے کہاں غلطیا ں ہوئی ہیں؟ ہم کہاں سے بھٹکے ہیں؟
جنسی فعل تولیدی نظام کا سب سے ضروری کام ہے۔ جنسی تولید ارتقاء کو تیز تر کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا انسان موجودہ حالت تک پہنچا۔ انسان نے لاکھوں سالہ زندگی میں جو بھی سیکھا اس کی وجہ سے وہ کئی گنا بڑھتا ہوا (Multiply) مزید جدیدیت کے ساتھ ہمیں نظر آرہا ہے۔ تمام ماہرین نفسیات نے کھانا، پانی، گرمی، آرام اور تحفظ کے ساتھ جنسی تعلق کو بھی انسان کی بنیادی جسمانی ضروریات میں شامل کیا ہے۔ ماسلو نے انسانی ضروریات کے پہاڑ میں ان ضروریات کے بغیر روک ٹوک اور بلا خوف حصول کو انسانی ترقی کی پہلی سیڑھی کہا ہے۔ جس پر پاؤں رکھے بغیر آگے جایا ہی نہیں جا سکتا۔ کچھ افراد یا گروہوں کی یہ ضروریات پوری بھی ہو جائیں تو بھی معاشرہ اسی جگہ پر ٹھہرا رہتا ہے۔ ان تمام کے اجتماعی طور پر پورا ہونے سے معاشرہ ترقی کی دوسری منزل کی طرف بڑھتا ہے۔
انسانی تمدن میں عورت اورمرد کے تعلق کو سب سے مقدم اور پیچیدہ مسئلہ کہا جاتا ہے اور اس کے حل کے لئے قدیم ترین زمانہ سے لے کر آج تک کے حکماء و عقلاء پریشان و سرگرداں رہے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں عورت اور مرد کا تعلق کس طرح کا ہونا چاہیے اس کو کس طرح برقرار رہنا چاہیے اور اگر نبھایا نہیں جا سکتا تو اس کو کس طرح ختم کرنا ہے، یہی کسی معاشرہ کی پہچان اور اس کی ترقی کا سنگ بنیاد ہے۔
مباشرت ایک ایسا فعل ہے جو انسان کی جسمانی ضرورت بھی پوری کرتا ہے اور انسانی نسل کے تسلسل کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ اور یہی اس پر حدود کے نفاذ کی سب سے اہم وجہ ہے۔ ایک ہی عمل ہے جوایک حد کے اند جائز اور اس سے باہر ناجائز۔ یہ حدود ہر معاشرہ اپنی ضروریات کے مطابق طے کرتا ہے۔ یہ ضروریا ت وقت، حالات، مواقع، مشکلات اور حوادث سے بد ل جاتی ہیں اور حدود ان تمام کوسامنے رکھ کر طے کی جانی چاہیے۔ صدیوں پرانی حدود اور قوانین آج کے جدید دور کی دوسری کئی ضروریات پوری نہیں کر رہے اور اس ضرورت کو پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اس کے ساتھ پرانے معاشروں کو جب ہم آج دیکھتے ہیں تو ان کے قوانین میں موجود آسانیاں ہمیں جو پسند نہیں آتیں یا ہماری موجودہ معاشی و معاشرتی مجبوریوں کے مطابق نہیں ہوتیں ان کو ہم قبول ہی نہیں کرتے لیکن اس دور کی جنسی پابندیاں ہم لاگو کر دیتے ہیں۔
زمانہ قدیم سے لے کر آج تک دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے ان حدود کو اپنی ضروریات اور رسم و رواج کے مطابق اور انتہائی آسان اور نرم رکھا ہے۔ اگر اس قوم نے کسی جگہ پر پابندی لگائی ہے تو کسی دوسری طرف سے اس کے حصول کا طریقہ اور آسان کر دیا ہے۔ تمام معاشروں میں تعدد ازدواج کا رواج موجود رہا ہے۔ لونڈی تمام دنیا میں موجود رہی ہے۔ ہم جنسیت یورپین قدیم تہذیبوں کا اس حد تک حصہ رہی ہے کہ ان کو وراثت بھی منتقل ہوتی تھی۔
عارضی نکاح اس وقت تک عرب معاشرہ کا حصہ رہا جب تک تجارتی راستے محفوظ نہ ہوگئے اور عورتوں کا سفر میں ساتھ جانا آسان نہ ہو گیا۔ شیام کے ساتھ رادھا بھی تھی اور گوپیاں بھی۔ کیا یہ رواج صرف مرد کے لئے تھے؟ نہیں۔ ترقی یافتہ تہذیبوں میں عورت بھی آزاد ہی رہی ہے۔ یونانی دیو مالائی داستانوں میں دیویاں بھی اپنی مرضی سے شادی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ بعض تو خاوند کی موجودگی میں دوسروں سے تعلقات بھی نبھا تی نظر آتی ہیں۔
ایفروڈایٹ (زہرہ) ، جس کے نام کا مطلب ہے سمندری جھاگ سے نکلی ہوئی، جس کا انتہائی خوبصورت ایک مجسمہ آج بھی لندن میوزیم کے مرکزی ہال کو رونق بخش رہا ہے، محبت، خوبصورتی، خوشی، جنسی جذبات اور افزائش نسل کی دیوی کہلاتی ہے۔ اس کے خاوند کی موجودگی میں تین دوسرے دیوتاؤں سے بھی تعلقات تھے اور اس نے ایک انساں کے بچے کو بھی جنم دیا تھا۔ رومن معاشرہ میں عورت آزاد تھی۔ اس کو طلاق اور شادی کی مکمل آزادی تھی۔ طلاق بری نہیں تھی۔
عورتوں کی د وسری تیسری شادی عام تھی۔ فولوویا، جس نے جنگوں میں فوج کی قیادت بھی کی تھی، مارک انتھونی اس کا تیسرا خاوند تھا۔ بغیر وجہ، خاوند عورت کو طلاق نہیں دے سکتا تھا۔ 307 قبل مسیح میں ”لوسیئس اینی اس“ کو دوست احباب سے مشورہ کیے بغیر بیوی کوطلاق دینے پر رومن عدلیہ سے نکال دیا گیا۔ عرب معاشرہ میں ہم پلہ، ہم نسب اور خاوندکی شکل پسند نہ ہونے کی بنیاد پر بھی طلاق کی مثالیں ملتی ہے۔ جائیداد رکھنے، تجارت، کاروبارکرنے، اپنا نکاح اپنی پسند کے مطابق کرنے اور طلاق لینے میں عورت مکمل طور پر آزاد تھی۔ عورت کے جنسی حق پر صرف ایک قدغن تقریباًتمام معاشروں میں ملتی ہے۔ دو مردوں سے تعلقات میں اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ اس کے پیٹ میں موجود بچے کی ولدیت مشکوک نہ ہو جاے۔ روم میں حاملہ عورت فوراً دوسری شادی کر سکتی تھی لیکن عام عورت کو دس ماہ کی عدت گذارنا پڑتی تھی۔
ہمارے معا شرہ میں ہر قسم کی برائی موجود ہے۔ جنسی ضرورت کو ہم نے عیاشی سمجھ کر اس کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ اور دوسری عیاشیوں کی طرح اس کو بھی عام لوگوں کے لئے جرم اور اعلیٰ نسلوں کے لئے آسان کردیا ہے۔ اچھے ہوٹلوں میں سب کچھ ملتا ہے اور غریب کسی عام ہوٹل میں اپنی بیوی کے ساتھ بھی چلا جاے تو رات کو دو بجے نکاح نامہ چیک کرنے والے آجاتے ہیں۔ ان ناجائز پابندیوں کا نتیجہ ہے کہ کوئی جھوٹی بات بھی کسی آدمی کے حوالے سے ہاتھ آجاے توہم اس کو معاشرہ کا سب سے گندہ شخص قرار دیتے نہیں تھکتے۔
اور ہمارے سیاستدان تو مردود حرم ہیں، ہم نے تمام برائیوں کو ان میں بدرجہ اتم جمع کر رکھا ہے، لیکن ریاستی اداروں کے سربراہ کسی آسمانی مخلوق کی طرح پوتر اور پاک ہیں۔ جب ان میں سے کسی کا سکینڈل سامنے آتا ہے تو ان کی اوڑھی ہوئی سفید چادر بہت داغ دار لگتی ہے۔ پھر ہم اس ایک شخص کو مزید گندا کرتے جاتے ہیں۔ اس سے متعلقہ افراد کو ترانہ سے قومی ترانہ کا لقب بھی دے دیتے ہیں اور اس طرح اس ایک شخص کی برائیاں کرتے ہوئے ہم تمام لوگ اس کی اوٹ میں باقی سب کو چھپا لیتے ہیں۔
جنسیات پر بات کرنا، اس کے متعلق علم کو عام کرنا سکولوں میں جنسی تعلیم لازمی قرار دینا تو لازمی ہیں ان کے ساتھ جنسی قوانین کو عام فہم اور آسان بنانا آزادی اور حدود کو اتنا نرم کرنا کہ جنسی تعلقات نبھانا اورسنبھالنا آسان ہو جاے یہی اس مسئلہ کا حل ہے۔ شادی اور طلاق کو آسان کرنا۔ معاشرتی پابندیوں کو نرم کرنا اور معاشرہ کو جدید خطوط کے مطابق پروان چڑھاتے ہوے لوگوں کی ذہنی تربیت کرنا جدید معاشرہ کی اچھائیوں کے ساتھ ان کی برائیوں کو بھی قبول کرنا یا ان کا مناسب حل ڈھونڈھ کر نئے قوانین بنانا بھی انتہائی ضروری ہے۔
لیکن یہ قوانین سب کے لئے ایک جیسے ہونے چاہیے۔ ہم جدید دور کی معاشی اورجنسی پابندیوں اور مشکلات کا سامناکرنے پر مجبور ہیں تو اس کی آسانیوں سے بھی لطف اندوز ہونے دیا جاے۔ کسی بھی معاشرتی جرم کو کم یا ختم کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا اور منفی طریقہ یہ ہے کہ اس پر سزائیں سخت کر دی جائی اور اس پر پہرہ بھی مضبوط کردیا جاے۔ بھوکے نے تو روٹی کھانی ہے جتنا چاہے پہرہ سخت ہو۔ اس کو روٹی نہیں مل رہی تو چوری ضرور کرے گا۔
آپ چاہے اس کا ہاتھ کاٹیں یا سر ہی قلم کر دیں۔ دوسرا اور مثبت طریقہ یہ ہے کہ روٹی کے جائز حصول کو آسان سے آسان کر دیا جاے۔ ہم ہر واقعہ کے بعد پہلے ہی رستہ پر چلتے ہوے نظر آتے ہیں۔ حصول کے جائز ذرائع میں آسانیاں لانے کے لئے قوانین اور رسم و رواج میں تبدیلیاں لانے کے بارے میں سوچنا بھی شروع نہیں کیا۔ بلکہ سختی کرتے کرتے جدید دور کی زنا کی قانونی تعریف (Defination) ہی صدیوں پرانے لبادہ میں ڈھال دی۔ اور جنس کے متعلق ہر بات کوقابل دست اندازی پولیس قرار دے دیا۔ اب جنسی قحط کے اس مثالی مشرقی دور میں ہماری عزت و عصمت اور اس پر سجائی گئی جھوٹی انا کی چادر جگہ جگہ سے داغ دار ہوتی رہے گی۔ ہم حدود اور سزائیں سخت سے سخت کرتے جائیں گے۔ جو قابو آے گا اسے عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ خود نہیں سدھریں گے۔
- مدھر ملن کی شبھ گھڑی - 09/04/2024
- گناہ بے لذت اور معصوم کا خون - 26/03/2024
- ڈاکٹر خالد سہیل - 20/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).