مستری مہدی حسن سے عظیم گلوکار مہدی حسن تک


مہدی حسن صاحب نے حالات سے شاکی ہونے کی بجائے اپنے زور بازو پر بھروسا کیا اور سخت محنت کر کے کثیر العیال گھرانے کی پرورش کی، لیکن اب ان کی محنت کے ثمر کا وقت آن پہنچا تھا۔

جس زمانے میں مہدی حسن صاحب سرگودھا کے منصوبہ سے فارغ ہوئے، وہ مالی طور پر خوشحال تھے۔ اسی زمانے میں انہیں کراچی سے ٹیلیگرام اور خط ساتھ ساتھ ملا جو موسیقار رفیق انور کی طرف سے تھا۔ جو بہت پڑھے لکھے انسان اور میجر خورشید انور کے بھائی تھے۔ انہوں نے لاہور میں اپنے بھانجے کی شادی میں مہدی حسن صاحب کا بغیر ساز کا گانا سن کر پہلے ہی ایک ہزار روپے بیعانہ کے طور پر دیے تھے اور اپنی فلم کے گانے گوانے کی پیش کش کی تھی۔ خط اور ٹیلی گرام گویا باقاعدہ معاہدہ تھا۔ اب مہدی حسن صاحب کو یقین ہو چلا کہ وہ دن آ چکے ہیں جن کا دو سال سے انتظار کر رہے تھے۔

کراچی جانے کے بعد انہوں نے فلم ”شکار“ جو کراچی کے ایسٹرن اسٹوڈیوز میں بن رہی تھی، کے لیے دو گانے ریکارڈ کروائے۔ ایک گانے کا مکھڑا ہے۔

”میرے خیال و خواب کی دنیا لیے ہوئے“

اور دوسرے گانے کا مکھڑا ہے

” دل کی بات کا چرچا نہ ہو جائے“

گو یہ گانے فلم ”شکار“ کے لیے پہلے ریکارڈ ہو گئے مگر ان کی پہلی فلم جو ریلیز ہوئی ”کنواری بیوہ“ تھی۔

ان کے گانوں کی مقبولیت سے متاثر ہو کر کراچی ریڈیو والوں نے بلا لیا کہ جہاں ان کے بھائی پنڈت غلام قادر صاحب بطور موسیقار ملازمت کر رہے تھے۔ ریڈیو میں نوکری کا پہلا قدم آواز کا امتحان یا آڈیشن ہے۔ یہ سال تھا 1952 کا جب ان کی عمر پچیس سال تھی۔ ریڈیو کراچی کے انور عنایت اللہ صاحب کی یادوں میں ان کا سراپا اس طرح ہے۔ ”ایک دبلا پتلا گنج پنے پہ مائل نوجوان، لمبا چہرہ اور روشن آنکھیں۔ “

ان کے آڈیشن کی کہانی بھی دلچسپ ہے کہ جب انہوں نے صبح دس بجے سے کلاسیکل موسیقی جس میں درپد، ٹھمری، خیال، دادرا، غزل، گیت، غرض موسیقی کی ہر قسم کو سنایا۔ اس آڈیشن کے وقت ظفرالحسن صاحب تھے مگر وہ صحیح فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے، پھر ظاہر شاہ صاحب جو پروگرام پروڈیوسر تھے وہ بھی آگئے۔

انہوں نے بھی سنا کہ بالآخر زیڈ اے بخاری (ریڈیو جنرل) نے مہدی حسن صاحب کو اے کٹیگری میں رکھا اور 35 روپے فیس مقرر کی جو اس وقت اے کیٹگری والوں کے لیے پندرہ روپے ہوا کرتی تھی۔ اس طرح شام پانچ بجے وہ فارغ ہوئے اور انہیں کلاسیکی گلوکار کے طور پر ملازمت ملی۔

مہدی حسن کے فن کو پرکھنے میں جوھری سلیم گیلانی کا ذکر ضروری ہے۔ جو اس زمانے میں ریڈیو کراچی میں پروگرام پروڈیوسر ہوتے تھے۔ مہدی حسن صاحب سے ان کی پہلی ملاقات 1952 میں ہوئی۔ بی بی سی ریڈیو پر مہدی حسن پہ ایک پروگرام میں سلیم گیلانی کی جوھر شناسی کا قصہ کچھ اس طرح ہے۔

۔ ”سلیم گیلانی نے جو مہدی حسن صاحب کی بے پناہ صلاحیتوں کو پہچان گئے تھے، انہیں خود پروڈیوس کرنا چاہتے تھے تاکہ صلاحیتیں صحیح طور پر نکھر سکیں۔ انہوں نے مہدی حسن صاحب سے مخاطب ہو کر کہا“ بات یہ ہے مہدی حسن کہ مجھے تمہاری آواز بہت پسند ہے اور میں اسے خود پروڈیوس کرنا چاہتا ہوں مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں تین سال کے لئے وائس آف امریکہ کے لیے جا رہا ہوں۔ ”مہدی حسن صاحب نے پوچھا“ میرے لیے کیا حکم ہے؟ ”انہوں نے کہا۔ “ اس دوران گانا بالکل مت گانا اور ریڈیو کے لیے قطعاً مت گانا، جاؤ ہیں گاؤں وغیرہ میں جاؤ اور وہیں بیٹھ کر ریاض کرو۔ ”مہدی حسن صاحب نے ایسا ہی کیا۔ جب سلیم گیلانی صاحب تین سال بعد وطن لوٹے تو ان کے چپڑاسی نے بتایا کہ“ ایک شخص ہے جو کئی دنوں سے آ رہا ہے اور اپنا پورا نام مہدی حسن بتاتا ہے۔ ”

یہ سنتے ہی سلیم گیلانی صاحب نے سارے کام چھوڑ کر انہیں کمرے میں بلوا لیا۔

اگرچہ مہدی حسن کی سالہا سال کی کلاسیکی موسیقی کی تربیت کی وجہ سے ان کو ٹھمری کے لئے منتخب کیا گیا تھا، لیکن خود مہدی حسن صاحب نے اپنے مستقبل کے لئے غزل گائیکی کا انتخاب کر لیا تھا۔ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ”1951 میں بھی یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اردو غزلوں کو کلاسیکی طرزوں میں گائیں گے۔ “ انہیں یقین تھا کہ یہ فیصلہ درست ہے۔

اپنے ایک انٹرویو میں مہدی حسن صاحب کہتے ہیں۔ ”1952 میں کلاسیکی موسیقی کو لائٹ کیا۔ اس کی وجہ میری آواز کے آکار ہیں۔ موسیقی میں یہ آکار زیر، زبر، پیش اور حمزہ کی طرح ہیں۔ ان آکار کی تعداد دس ہوتی ہے۔ جس کی استاد مشق کرواتے ہیں۔ جس میں ناک اور حلق کے امتزاج سے سُر کی آوازیں نکالنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اگر آکار کی مشق پختہ ہو تو گلوکارکبھی کسی حرف میں بے سُرا نہیں ہو گا۔ “

مہدی حسن صاحب کے لیے کہا جاتا ہے اگر آواز بیٹھی ہوئی بھی ہو تو کبھی بے سُری نہیں ہوتی۔ انہیں سُروں کی پختگی اور مسلسل ریاض نے یہ اعتماد دیا کہ وہ غزل میں راگوں کا تجربہ کریں اور اپنی گائیکی کی الگ راہ نکالیں۔ اس طرح وہ روایتی گھرانے کے گائیکوں کے بجائے تخلیق کار تھے، جن کا اپنا انداز تھا۔ ”یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے۔ “

مہدی حسن صاحب کی جس غزل نے سب کو چونکا دیا، وہ 1957 میں لاہور ریڈیو سے نشر ہوئی۔ میر تقی میر کی لکھی یہ غزل

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے

کو مہدی حسن کی آواز نے نئی زندگی دی۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ نورجہاں کی آواز کا طوطی بول رہا تھا۔ مہدی حسن کی آواز ان کے کانوں میں غالباً نہیں پڑی تھی۔ استاد غلام حیدر خان کے مطابق اس غزل کے متعلق کچھ ایسا قصہ ہے کہ ”ایک دفعہ وہ لاہور میں اپنے شوہر فلم اسٹار اعجاز کے ساتھ کہیں جا رہی تھیں کہ گاڑی کسی کھوکھے کے پاس سے گزری جہاں سے“ یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے ”سن کر، خاص کر اس گانے کو سننے کے لیے گاڑی رکوائی۔ جب کہ مہدی حسن کے فن پہ بی بی سی سے براڈ کاسٹ ہونے والے پروگرام میں نورجہاں کہتی ہیں، “ دور سے ہمیں آواز آئی۔ ”یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے“۔ یہ ہمارا ان (مہدی حسن) سے پہلا تعارف تھا۔ استھائی سنا، انترا سنا میرے دل پہ ہاتھ پڑ گیا۔ یہ کون کہہ رہا ہے۔ مجھے یہ شخص کہیں سے مل جائے تو ملا دو۔ یہ ہماری خوش نصیبی کہ یہ لاہور ہی میں تھے۔ ”

اپنی پسندیدگی کا اظہار غالباً نورجہاں نے فلم قیدی ( 1962 ء) میں مہدی حسن کے ساتھ گانا گا کر کیا جس کے بول تھے۔ ”ایک دیوانے نے اس دل کا کہا مان لیا۔ “

واضح ہو کہ 1956 ء سے 1961 ء کے عرصہ میں مہدی حسن صاحب نے فلموں کے لئے صرف سات گانے گائے تھے اور کوئی خاص مقبولیت حاصل نہیں کی تھی۔ اس وقت فلمی دنیا میں عنایت حسین بھٹی، سلیم رضا اور منیر حسین کا چرچا تھا۔ اس لحاظ سے 1962 ء ان کے لیے خوش قسمت سال ثابت ہوا۔

1963 میں لاہور ریڈیو اسٹیشن کے لان میں ہونے والے پروگرام کو کون بھول سکتا ہے کہ جب ٹرانسمیشن کے اختتام سے پہلے آخری گانے کا آئٹم مہدی حسن صاحب کا تھا۔ گانے کے لیے پانچ منٹ کا وقت دیا گیا تھا مگر غزل اتنی پراثر تھی کہ بارہ تیرہ منٹ چلتی رہی۔ مہمانوں کے علاوہ ریڈیو کے ملازمین بھی سرور میں تھے۔ اس غزل کی خاطر ریڈیو کا ضابطہ اور اصول سامعین کی خوشی کے لیے توڑ دیا گیا۔ بالآخر ریڈیو اناؤنسر عزیز الرحمن نے اختتام کا اعلان کر کے ترانہ بجایا۔ جبکہ سامعین اس خوبصورت غزل کو سنتے رہے، جس کے بول تھے۔ ”آیا میری محفل میں غارت گری ہوش آیا۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).