طوائفوں کی بچیاں خوبصورت کیوں ہوتی ہیں؟


راتوں کے پچھلے پہر کرن کے کوٹھے پر رنگ رلیاں منانا اور انسانیت کی تذلیل کرنا میر ا من پسند مشغلہ بن چکا تھا۔ میرے کنوارے قدموں نے کرن کے کوٹھے کی سیڑھیوں کو کیا چوما، میں تو ا پنے گھر کے رستے ہی بھول گیا۔ کرن کے دودھیا مہکتے اور کھلے بدن نے میرے لیے زندگی کے تمام دروازے ہی بند کردیے۔ وہ تماش بین دلال اور عیاش لوگ جو تھانیدار بندو خان کو دیکھ کر راستے بدل لیا کرتے تھے، میرے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہوگئے۔

وہ کنجر جو میری آمد کا سن کر کھڑے ہوجایا کرتے تھے مجھے عام نظرو ں سے دیکھنے لگے۔ دن بدن میں کرن کے بدن کا اسیر ہوکر نوکری سے میرا دھیان ہٹنے لگا۔ کرن کے ہونٹوں سے چھو کر ملنے والا شراب کا گلاس میری حسرت بن گیا۔ سگریٹ پان سے نفرت کرنے والا تھانیدار بندو خان شراب پینے لگا۔ میرے پاس رشوت کی جتنی کمائی جمع تھی چھ ماہ میں ہی ختم ہوگئی۔ اب تنخواہ پہ اس طرح کی عیاشی کرنا ممکن نہ تھا۔ اکثر جب کرن پیسے مانگتی تو میں کل کا وعدہ کرکے آجاتا اور پھر ہر جائز ناجائز طریقہ اپنا کر پیسے جمع کرتا تاکہ اگلے دن کرن کے پاس جاسکوں۔

شاید کرن کو میری حالت کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ پتہ نہیں کیوں وہ اب ہر رات مجھے بچہ پیدا کرنے کا مشورہ دیتی۔ کبھی پیار سے کبھی ناراض ہوکر کبھی غصے سے اس کی ایک ہی خواہش تھی میں اس کے بچے کا باپ بنوں۔ مگر میں نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا بے شک میں کرن کی محبت میں اندھا ہو چکا تھا مگر جیرے اور فضل دین کی وہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہی کہ یہ طوائفیں خوبصورت مردوں سے بچے پیدا کرتی ہیں۔ آج بھی میری اور کرن کی سی موضوع پہ بحث ہو رہی تھی کہ کرن کے کوٹھے پہ لگے پی ٹی سی ایل فون کی گھنٹی بجی۔ کرن نے فون اٹھایا اور کہا دومنٹ بعد فون کریں اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ دومنٹ بعد پھر فون کئی گھنٹی بجی تو دوسرے کمرے میں کرن نے بھی فون اٹھایا پاس ہی پڑے فون کو میں نے بھی بڑے احتیاط سے اٹھا لیا۔ سامنے کوئی عورت بول رہی تھی

وہ عورت۔ کرن دبئی سے میمن صاحب آنے والے ہیں کب تک عشق کا لولی پاپ چوستی رہو گی۔ جان چھڑواؤ اس پولسیے سے۔ بہت ہوگیا۔
کرن۔ ہاں! امی بس دل کے ہاتھوں مجبور ہوگئی تھی۔ ظالم ہے ہی بڑا خوبصورت۔

وہ عورت۔ بس بس بہت ہوگیا۔ جانتی ہو میمن صاحب ہر مہینے پچاس ہزار تیرا خرچ بھیجتے ہیں تاکہ کوئی اور مرد تیرے پاس نہ آئے۔ یہ پولسیا تیرا دس دن کا بوجھ نہیں اٹھا پائے گا۔
کرن۔ اچھا امی بس آج امید ہے میں جان چھڑوا لوں گی۔

وہ عورت۔ یاد رکھنا کرن ہم طوائفوں کو عشق وشق ہضم نہیں ہوتے۔ صرف تیری وجہ سے کوٹھا چل رہا ہے۔ یہ فقرے عاشق تیرے بدن کا رس چوس کر نظریں پھیر لیں گے۔ کوئی تجھے منہ نہیں لگائے گا۔

کرن۔ بس کر امی، کہا نا ں۔ بس آج کی رات۔
وہ عورت۔ اچھا، چل ٹھیک ہے۔ کل گھر لازمی آنا۔ جوہر ٹاؤن ایک شادی پر جانا ہے۔
اور فون کال بند ہوگئی۔ میں نے ماں بیٹی کی ساری گفتگو سن لی۔

میرے ساتھ عشق محبت کے وعدے اور دعوے کرنے والی کرن کا اصلی روپ میں دیکھ چکا تھا۔ جب تک کرن فون سن کر واپس آتی میں کپڑے پہن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کرن کے کوٹھے کی سیڑھیاں اتر گیا۔ تین بار میں نے ایس پی صاحب کو کہلوا کر ٹبی سٹی تھانہ سے تبادلہ کروایا۔ مگر ہر بار میرا تبادلہ منسوخ کردیا جاتا۔ آخر چوتھی بار جب میں نے ایس پی صاحب کو تبادلے کی سفارش کروائی تو انھوں نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور ڈانٹ کر کہنے لگے بندو خان اگر تم ٹبی سٹی نہیں چھوڑنا چاہتے تو تبادلے کی سفارش ہی کیوں کرواتے ہو۔

تبادلہ رکوا بھی خود ہی لیتے ہو اور سفارش بھی کرواتے ہو۔ جب نے عرض کی کہ سر میں نے تو ایک بار بھی تبادلہ رکوانے کی کوشش کی نہیں کی بلکہ میں تو ایک دن بھی اب ٹبی سٹی تھانہ میں نہیں رہنا چاہتا تو ایس پی صاحب مسکرا کر کہنے لگے۔ اچھا۔ تو مطلب کوئی طوائف نہیں چاہتی کہ تمھارا وہاں سے تبادلہ ہو۔ جاؤ ایک رپٹ اپنے تبادلے کی لکھو اور اگلی رپٹ میں تھانہ سے روانگی کرو۔ کرن کو پتہ چل گیا تھا کہ میرا تبادلہ تھانہ مغلپورہ ہو گیا۔

ایک دو بار اس نے تھانہ مغلپورہ فون بھی کیا مگر میں نے کبھی کرن سے نہ بات کی اور نہ کبھی بتایا کہ میں نے تمھاری اپنی امی کے ساتھ ہونے والی گفتگو سن چکا ہوں۔ کرن کو بھول جانا مشکل تھا۔ شاید مجھے سچ مچ کرن سے محبت ہوگئی تھی۔ سینکڑوں بار میرا دل چاہا کہ کرن سے ملا جائے مگر کرن اس رات مجھ سے جان چھڑوانے کے باوجود مجھے اپنے کوٹھے پر ہمیشہ دیکھنا چاہتی تھی۔ شاید مجھ سے کوئی بچہ چاہتی تھی۔ اب میں سوچتا ہوں تو میری سمجھ میں آتا ہے کہ طوائفوں کی بچیاں خوبصورت کیوں ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments