کیا والدین ایسے سلوک کے مستحق ہیں؟


ابھی حال ہی میں میری ایک عزیز دوست سے ملاقات ہوئی۔ جو کہ کافی پریشان دکھائی دے رہی تھیں، بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس قدر پریشان میں نے انھیں آج تک نہیں دیکھا تھا۔ پوچھنے پر بتانے لگیں کہ ان کا اکلوتا بھائی اپنی بوڑھی ماں کو گھر میں رکھنے پر راضی نہیں ہے صرف اس وجہ سے کہ اس کی ماں اس کی شادی شدہ زندگی میں بے آرامی کا باعث بن رہی ہیں۔ اب وہ چاہتا ہے کہ میں بیٹی ہونے کی حیثیت سے امی کو اپنے ساتھ اپنے سسرال لے جاؤں لیکن میرے سسرال والے اس بات پر راضی نہیں۔ اس پر بھائی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ امی کو پھر کسی اولڈ ایج ہوم بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی زندگی بھی آرام سے گزرے اور ہماری زندگیوں میں بھی کچھ سکون ہو۔

یہ بات سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ والدین اپنی اولاد کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔ اپنی تمام زندگی اولاد پر نچھاور کرنے والے والدین جو نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات بس اپنی اولاد کی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں اور وہی اولاد بڑھاپے میں انھیں اپنے ساتھ رکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ کیا اسی دن کے لئے لوگ اولاد مانگتے ہیں کہ بڑھاپے میں انھیں در در کی ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ دنیا میں ایسی کوئی ہستی نہیں ہے جو آپ کو والدین سے زیادہ محبت کر سکے لیکن اکثر اولاد یہ بات بھول جاتی ہے۔

ماں باپ اپنے بیٹوں کی شادی بہت مان سے اس لئے نہیں کرتے کہ کل کو بیٹا یہ کہ کر انھیں گھر سے نکال دے کہ ان کی وجہ سے اس کی شادی شدہ زندگی میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ جب والدین ساری عمر آپ کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے اپنی بے آرامی و بے سکونی کے بارے میں نہیں سوچتے تو آپ کو بھی کوئی حق نہیں کہ ان کے بڑھاپے میں انھیں اپنی زندگیوں میں بے آرامی کا باعث سمجھیں۔ جو ماں باپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں ہم انھیں ہی اپنی زندگیوں سے الگ کر دیتے ہیں۔ جو والدین دن رات ایک کر کے ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ہم انھیں کے وجود کو اتنا غیر اہم سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی خدمت تو دور انھیں اپنے ساتھ رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

میرا ماننا یہ ہے کہ اولاد کو یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کے صرف حقوق نہیں ہوتے فرائض بھی ہوتے ہیں جن کی تکمیل بھی لازم ہوتی ہے اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ ہمیں ہر اچھا یا برا عمل کرتے ہوئے مکافاتِ عمل کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کیونکہ آج آپ جو بوئیں گے کل کو وہی کاٹیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).