حادثے کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا یے


موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ معاشرہ دن بدن جرائم کی طرف مائل ہورہا ہے۔ مجرم تین قسم کے ہیں : ایک وہ ہیں جو جرائم پیشہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے نادانستگی میں جرم کر بیٹھتے ہیں۔ تیسرے مہذب مجرم ہیں جو دوسروں کو اشتعال دلاکر جرم کی طرف مائل کرتے ہیں۔ معاشرہ ہر طرح کے جرائم سے جل رہا ہے۔ مگر چھوٹے بچے، بچیاں اس کی لپیٹ میں زیادہ ہیں۔ حالات ایسے ہوچلے ہیں کہ معاشرہ ان کے لئے دن بدن غیرمحفوظ ہوتا جارہا ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم تاریک دور میں پہنچ گئے ہیں۔

وحشی دور جب انسان، انسان کا گوشت نوچتا تھا۔ ایک بری خبر کے بعد دوسرا غیر انسانی واقعہ ذہن بری طرح جہنجھوڑ ڈالتا ہے۔ بچوں کے حوالے سے اندوہناک واقعات کا گراف اوپر جارہا ہے۔ 2018 میں 2,322 بچے زیادتی کا نشانہ بنے۔ 2017 کے دوران دن میں سات بچے زیادتی جا شکار ہوتے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 12 ہوگئی۔

سگمنڈ فرائڈ نے جنس کی رغبت کو فطری قرار دیا۔ ان خیالات کو دبانے سے ذہنی عارضے لاحق ہوجاتے ہیں۔ ایک ایسا سماج جو جنس سے انتہا کی دلچسپی رکھنے کے باوجود کھلے عام بات کرنا نہیں چاہتا۔ جہاں بچوں کو جنس کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ جنسی غلطیوں یا خود لذتی جیسے مو ضوع احساس جرم میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اور ان عادات کو حقیقت پسندی سے نہین دیکہا جاتا۔ ایک ایسا سماج جس میں عفوان شباب میں بچوں کے ہاتھوں میں موبائیل دے کر انہیں نصحتیں کی جاتیں ہیں۔ یہ بچے ممنوعہ ویب سائیٹس دیکھتے ہیں اور تجسس ان سے جرم کروانے کا محرک بنتا ہے۔

ضروری نہیں کہ شہوت پرستی ہی ایسے جرائم کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ یہ فعل ذہنی طور پر ناپختہ شخص یا جنسی بیماری کے حامل فرد سے سرزد ہو سکتا ہے۔ یا وہ لوگ جو بچپن میں جنسی استحصال کا شکار ہوئے ہوں، اکثر ایسے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ جب جنسی خیالات حاوی ہوں اور ترغیب ملنے کی صورت میں زیادتی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

پچھلے دنوں یہ بحث چلی کہ لباس ترغیب کا باعث نہیں ہوتا بلکہ گندی ذہینیت اس طرح کے واقعات کے پس پردہ کارفرما ہوتی ہے۔ جسے سماج ’گندی ذہینیت‘ قرار دیتا یے، اسے فرائڈ جنسی تشنگی گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریکا میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دے کر اس مسئلے کا خاتمہ کیا گیا۔ جدید تحقیق کے مطابق نوے فیصد لوگ جوانی میں خود لذتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ برائی کا کوئی جواز سماج ماننے کو تیار نہیں۔ وہ کبھی محرکات پر غور نہیں کرتا۔ عمل پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔

دنیا بدل گئی ہے۔ ہم نہ تو قانونی طور پر فعال ہیں اور نہ ہی یو ٹیوب، موبائل و دیگر برائی پھیلانے کے ذریعوں کی روک تھام کرسکے ہیں۔

ہمارے بچے نہ تعلمیی اداروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی بایر کی دنیا میں۔ سوشل میڈیا پر کئی وڈیوز میں بچوں کو مالکن، استانی و مولوی سے تشدد کا نشانہ بنتے دکھایا گیا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن بل اس وقت تک تحفظ نہیں دے سکتا جب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو۔

ہر جرم کے مختلف محرکات ہیں۔ سب سے بڑا محرک قانونی سردمہری ہے۔ مثال کے طور پر کئی قوانین اسمبلی میں پاس ہوئے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ کیس درج نہیں کیا جاتا یا پھر دیر کردی جاتی ہے۔ مجرم اثر رسوخ استعمال کرکے رہا ہوجاتے ہیں۔

کچھ سنگین قسم کے جرم ہیں جو جڑ پکڑتے جارہے ہیں۔ جن میں بچوں کے ساتھ زیادتی و قتل کی وارداتیں بڑھی ہیں۔ لڑکیاں الگ ہراسانی کا عذاب بھگت رہی ہیں۔ جس میں اموشنل بلیک میلنگ سر فھرست ہے۔ غریب اور متوسط طبقہ خاموشی و مصلحت پسندی سے کام لینے میں عافیت سمجھتا ہے۔

اذیت پسندی بڑھی ہے۔ فیس بک پر دیکھا کہ ایک بچے نے بلی ہر تیزاب پھینکا اور اسے تڑپنے کے لئے چھوڑدیا اور کسی نے وڈیو اپ لوڈ کردی۔ دوسری وڈیو میں ایک نوجوان لائیو وڈیو میں بلی کو قتل کرتے دکھا رہا ہے اور دوست کمینٹ کررہیں اور مارو وغیرہ وغیرہ۔ یہ بدترین رویے ہیں، جس کا شکار نوجوان نسل ہورہی ہے۔ مارشل لا کی پیداوار نسل موب کلر بنی ہے۔

آج کی نسل آنے والے وقت میں کیا ستم ڈھائے گی اور کن غیر انسانی رویوں کی مرتکب ہوگی وہ آج کے حالات سے ظاھر ہے۔ برے رویوں کو اگر وقت پر نہ روکا جائے تو مستقبل میں سنگین نوعیت اختیار کرلیتے ہیں۔

بچوں و عورتوں کے خلاف سنگین جرائم کی بنیادی وجہ لاعلمی و غفلت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے بچے و بچیوں، لڑکیوں اور والدین کو آگہی کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ممکنہ خطرات سے آگاہ کریں۔ اور حفاظتی اقدامات سکھائیں۔

کچھ عرصہ پہلے عصمت نامی لڑکی دانت کے درد کے تدارک کے لئے اسپتال گئی جہاں اجتماعی زیادتی کے بعد اسے زہر کا انجیکشن لگادیا گیا۔ اگر عصمت کے ساتھ گھر کا کوئی فرد ہوتا تو شاید اس کا یہ انجام نہ ہوتا۔ کوئی زمانہ تھا کہ لڑکیاں گھر کے کسی فرد کے ساتھ اسپتال جایا کرتیں تھیں۔ مگر اب اکیلے پہنچ جاتی ہیں۔

سمجھ لیجیے کہ یہ ایک تاریک دور ہے اور جس میں ذاتی حفاظت، فرد کی اپنی ذمیداری ہے یا اس کے خاندان کی۔

والدین یا خاندان کو ان معاملات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بنیادی طور گھر اور خاندان کا ادارہ کمزور ہوا ہے۔ اور وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو ماضی میں کیا کرتا تھا۔ معاشی مسائل اس وقت بھی تھے، گھریلو و خاندانی جھگڑے تب بھی ہوا کرتے تھے، مگر بچوں کی تربیت و حفاظت پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا۔ آج جب بچے یا لڑکیاں تنہا نکلتے ہیں تو ممکنہ حادثہ ہو سکتا ہے۔

اسکول میں چھٹی کے بعد بھی لڑکیاں کسی بہانے سے بلائی جاتی ہیں جو اکثر سانحے کا شکار ہوئی ہیں۔ سوال یہ پیدا یوتا ہے کہ انہیں کیوں تنہا بھیجا جاتا ہے؟ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ والدہ اپنی بیٹی کو کالج میں امتحان دینے کے لئے چھوڑ کر واپس گھر چلی گئیں۔ پیپر ختم ہونے کے وقت لینے پہنچیں تو بیٹی کالج میں نہیں تھی۔ بہت سی مائیں آخر تک کالج میں بیٹھی رہتی ہیں۔ اور بچوں کو ساتھ واپس لے کر جاتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق موبائیل لڑکیوں کو بھٹکانے کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ یہ خواب دیکھتی لڑکیاں جو خوبصورت لفظوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں اور سانحے کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ دوسری جانب نوجوان ہیں، جنہوں نے عورتوں کی فیک آئی ڈیز بنارکھی ہے۔ آخر یہ نوجوان پڑھائی کے ساتھ کوئی کام بھی کرسکتے ہیں، جو ان کے خاندان کے معاشی مسائل میں معاونت کرسکتے ہیں۔

کافی لڑکیاں رات کو دیر سے باہر نکلتی ہیں۔ جیسے کراچی میں سحری کے وقت تنہا لڑکیوں کے ساتھ مختلف حادثات ہوئے۔ ایک لڑکی کو تاوان کے بعد آزاد کردیا گیا جبکہ راولپنڈی میں دوست کے ساتھ سحری کرنے کی غرض سے نکلنے والی خاتون کے ساتھ پولیس والوں نے زیادتی کی۔ یہاں رہبر ہی رہزن بن جائیں تو شکایت کس سے کی جائے!

دنیا کے اکثر ملکوں میں رات کو کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ سڑکیں ویران اور ریسٹورینٹس بند ہوجاتے ہیں۔ ان ممالک میں جرائم کا تناسب کم پایا جاتا ہے۔ سری لنکا میں بجلی کے کرائسس کا حل یہ نکالا گیا تھا کہ سرشام کاروبار بند کردیا جاتا۔ جس کے نتیجے میں اس ملک میں لمحے کے لئے بجلی نہیں جاتی۔ ہمارے ہاں تقریبات رات کو شروع ہوتی ہیں جس کے دوران ہر قسم کے جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ جنسی تشدد کے واقعات میں رکشہ ڈرائیور، گھر کے ملازم، دوست و رشتے دار شامل ہوتے ہیں۔ اپنے بچے محفوظ ہاتھوں میں دیجئے۔ اور ہر لمحہ ان پر نظر رکھئے۔

زیادتی کا شکار ہونے والے بچے ذہنی و جسمانی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے لئے ٹراما سینٹرز بنائیں جائیں تاکہ ان کی کاؤنسلنگ ہوسکے۔ بلکہ ایسے بچوں کو الگ ہومز یا ہاسٹلز میں رکھنا چاہیے۔ ہم اخلاقی طور پر بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اگر کوئی رویہ ہمیں بچا سکتا ہے تو وہ فقط نظرداری اور احتیاط ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).