دبئی کیوں چلو؟


ایک وقت تھا کہ دبئی مزدوروں اور ہنر پیشوں کی جنت تھی جہاں وہ پیسہ کمانے جاتے تھے۔ اب مالداروں کی بہشت جہاں وہ کمایا ہوا پیسہ محفوظ رکھنے کے لئے جاتے ہیں۔

امارات ایک سوکھا سا صحرا تھا۔ چند خلیجی ریاستیں آپس کی چپقلش اور سرداری کے مسائل میں گھری ہوئی تھیں۔ پھر قسمت ان پر مہربان ہوئی اور تیل نکل آیا۔ ایک بات کی انہیں داد بنتی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے آپس کے جھگڑے نبٹا دیے اور متحد ہو گئے۔ تیل سے مالا مال ہونے کے باوجود عرب بدو تعلیم اور ہنر کی کمی کا شکار تھے۔ کچھ یوں بھی یہ لوگ زیادہ محنت کے عادی نہیں۔ سو غریب ملکوں کے مزدوروں کے لئے اپنے دروازے کھول دیے۔

پاکستان، بھارت، بنگلا دیش اور نیپال کے محنت کشوں کے لئے زندگی سنوارنے کا یہ ایک سنہرا موقعہ تھا۔ اس زمانے میں جس کا دبئی کا ویزا لگ جاتا سمجھو اس کی قسمت سنوار جاتی۔ اور سنوری بھی۔ لیکن دبئی زیادہ سنورا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ریتیلا بیابان ہرا ہو گیا۔ بدو خیموں سے نکل کر برجوں اور محلوں میں رہنے لگے۔

کچھ دینا ہم نے بھی دیکھی ہے۔ یورپ آدھے سے زیادہ دیکھ ڈالا۔ امریکہ کینیڈا ہو آئے۔ ایران اور ترکی میں تو لمبا قیام بھی کیا ہے۔ آسٹریلیا بھی گھومے۔ مشرق بعید میں ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ دیکھا۔ افریقہ تک میں جھانک آئے۔ دبئی کا ذکر سنتے رہے کہ بہت بدل گیا ہے۔ بہت ترقی کر لی ہے۔ ایک دم ماڈرن ہو گیا ہے۔ میرے میاں پرویز عجمی ہیں عربوں سے کچھ پرانی چپقلش چلی آ رہی ہے وہ کبھی وہاں جانے کو تیار نہ ہوتے لیکن کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات ایک موقعہ ملا۔ اور ہم نے قصد دبئی کیا۔

دوستوں سے ملنے کے بعد اگلے دن ہم نے دبئی کی سیر کا پروگرام بنایا۔ ہوٹل سے ٹیکسی بک کروائی۔ ڈرائیور پاکستانی تھا۔ وہ ہمیں دبئی کی اونچی عمارتوں اور برجوں کی سیر کراتا رہا۔ پام جمایرا جہاں دنیا بھر کے امیروں نے اپارٹمنٹس خریدے ہوئے ہیں۔ سنا ہے مائیکل جیکسن، جینٹ جیکسن، جورجیو آرمانی، شاہ رخ خان اور ڈیویڈ بیکم کے بھی ویلاز یا فیلٹس ہیں یہاں۔ ماڈرن مالز اور شوپنگ سینٹر لے گیا۔ ڈرائیور پہلے تو دبئی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا رہا۔

ہمارے پوچھنے پر کہ عام پاکستانی مزدور طبقے کی رہائش کہاں ہے۔ اس نے ہمیں وہ علاقے بھی دکھائے جہاں پاکستانی، انڈین اور بنگالی محنت کشوں کے گھر تھے۔ اس قدر تضاد اور کلاس کا اتنا زیادہ فرق ہم نے پہلے کہیں نہیں دیکھا تھا۔ اب ڈرائیور بھی کچھ کھل کر بولنے لگا اور ہمیں کچھ دردناک آپ بیتیاں اور کچھ جگ بیتیاں سنائی۔

دبئی نے سیاحت پر بہت توجہ دی ہے۔ دنیا کو اپنے سکائی سکریپر، لگژری ہوٹلز اور مادڑن مالز سے مرعوب کیا، ۔ لیکن دبئی کا ایک بدصورت حصہ بھی ہے جسے ظاہر ہے کہ سیاحت کے فروغ والے برشرز میں آپ نہیں پاتے۔ مزدوروں کی جس فوج نے اسے بنایا، اپنا پسینہ بہا کر اس صحرا کی آبیاری کی اور اسے سر سبز بنا ڈالا وہ کن حالات میں کہاں رہ رہے ہیں؟ نہ ہی آپ کو ان مزدوروں کی روز مرہ زندگی کے بارے میں پتا لگتا ہے۔ ان مزدوروں کے حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کم ترین اجرت اور سہولیات برائے نام۔ یہ جدید غلامی کی ایک صورت ہے، گو یہ غلامی اختیاری ہے۔ انہیں ہر دم خطرہ رہتا ہے کہ وہ کبھی بھی نکال دیے جا سکتے ہیں۔ بیمار یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ کسی ویلفیئر کے مستحق بھی نہیں ہیں۔ ستم یہ کہ انہیں احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں۔ ۔ اگر امارات والے خود کو متمدن اور ترقی یافتہ سمجھتے ہیں تو ذرا ان مزدوروں کے بنیادی انسانی حقوق بھی دیں۔ کسی بھی سڑک سے گزریں کسی بھی شوپنگ مال چلے جایں آپ کو سینکڑوں مختلف ممالک کے لوگ دکھائی دیں گے۔

لیکن مقامی امارتی کے لوگ کہیں نہیں نظر آیں گے۔ بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں۔ انگریزی عام ہے۔ عربی دفتری زبان ہو کر رہ گئی ہے۔ عید اور دوسرے تہوار سرکاری طور منائے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن عوامی سطح پر کوئی اجتماع نظر نہیں آتا۔ امارتی اپنے جشن بند دروازوں کے پیچھے مناتے ہیں۔ ہاں مساجد میں آپ کسی امارتی کو دیکھ سکتے ہیں وہ آپ کے ساتھ نماز ادا کرے گا لیکن مسجد سے باہر نکلتی ہی محمود و ایاز الگ الگ راہ پر۔

امارتی بہت اعلی عہدوں پر ہیں۔ اور اپنے سے کمتر وں سے نہیں گھلتے ملتے۔ ایک عجیب سے رعونت کا شکار اور احساس برتری کے مارے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی محنت کشوں کے بیس دوسرے مملک کے شہریوں سے تو دوستی ہو سکتی ہے لیکن مقامی امارتیوں سے نہیں۔ یہاں کے شیوخ کے گارڈ پاکستانی، ڈرائیور اینڈین، باورچی بنگلا دیشی اور میڈ انڈونیشی اوپیر فیلیپینو ہو سکتی ہے لیکن اٹھنا بیٹھنا اور ملنا جلنا ان اماراتیوں کا اپنوں میں ہے ہوتا ہے۔

واپسی سے ایک دن پہلے ڈرائیور نے ہمیں جیپ سفاری ٹرپ پر راضی کر لیا۔ ہم نے بھی سوچا کہ یہ ایک اچھا موقعہ ہے مقامی ثقافت، روایت اور صحرا کا نظارہ دیکھنے کا۔ شہر کی آبادی سے نکل کر ہم ایک صحرا نما علاقے میں پہنچے۔ یہاں شوفر نے اپنی مہارت اور فن کا بخوبی مظاہرہ کیا۔ ہڈیاں تڑک گیں، جوڑ ہلنے لگے اور طبیعت متلانے لگی۔ پھر صحرا کے بیچ ایک نخلستان سادکھائی دیا۔ چھوٹے چھوٹے خیمے اور ان میں بچھے تخت، گاؤ تکیے اور شیشہ نوشی کا اہتمام بھی۔

۔ یہاں کے کرتا دھرتا ایک بلوچ تھے۔ وہ ہمیں اپنے اونٹوں سے ملانے لے گئے اور اصرار کہ ہم سواری کریں۔ میرا اور پرویز کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا رات ہوتے ہی کھانے کی بوفے میز لگا دی گئی۔ کھانا پاکستانی تھا۔ ویجیٹرین بھی تھا کیوں کہ بھارتی مہمان بھی تھے۔ ڈنر کے بعد بیلے ڈانس شروع ہوا جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا۔ گوری چٹی بلانڈ لڑکیوں نے روایتی بیلے ڈانس کیا۔ بعد میں پتہ چلا ان میں سے ایک یوکرین کی اور دو بیلا روس کی تھیں۔ مزدوری، خدمت اور تفریح سب غیر ملکیوں کی بدولت ہے۔

اس میں شک نہیں کہ دبئی نے بڑی سرعت سے ترقی کی ہے۔ دنیا کی اونچی ترین عمارت برج خلیفہ، دنیا کا پہلاگھمنے والا اسکائیسکریپر بنا ڈالا، ریت پر محل کھڑے کر دیے، دنیا کی سب سے بڑی بغیر ڈرائیور کی میٹرو سرویس چلا دی۔ اور اب مصنوعی بارش بھی برسا رہے ہیں۔ پورا کا پورا خطہ انسانی ہاتھوں کا بنا ہے۔ اس میں مزدوروں کا پسینہ ہی نہیں خون بھی شامل ہے۔ اتنی جان توڑ محنت کے باوجود وہ محنت کش برابر کے حقوق کے اہل نہیں۔ چالیس چالیس وہاں رہنے کے بعد بھی شہریت حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ خطہ اتنا رنگ برنگا ہونے کے باوجود کیا کبھی بھی یک جہت ہو سکے گا۔ امریکہ کی طرح میلٹینگ پوٹ ثابت ہو گا؟ کیا کارمندوں کی یہ کھیپ اپنی نئی نسل کو یہاں پروان چڑھا سکے گی؟ کیا یہ واضح سیگریگیشن کبھی ختم ہو گا؟

دولت ہی تمدن نہیں ہے۔ امارتی خود کو ترقی یافتہ کہلوانا چاہتے ہیں۔ وہ ذرا ترقی یافتہ مملک کا چکر لگایں اور سیکھیں کہ اپنے محنت کشوں کو کس طرح تعظیم اور تکریم دی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کا چارٹر ہی ذرا پڑھ لیں۔ تیل کے کنویں خشک بھی ہو سکتے ہیں۔ اور یہ بات ذہین امارتیوں کی سمجھ میں آ گئی ہے کہ صرف تیل پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ فری پورٹ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امیر لوگوں کو متوجہ کیا کہ آپ پیسہ یہاں لے آئیں۔ آپ سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ آپ کی حلال کی کمائی ہے یا لوٹ مار کا ہے۔ سرمایہ کاری کریں۔ بینکوں میں دولت رکھیں، لگژری اپارٹمنٹ خریدیں۔ بلکہ کئی کئی خریدیں انہیں کرائے پر چڑھائیں عیش کریں اور مستقبل کے اندیشوں سے بے نیاز ہو جایں۔

غریب ملکوں کے امیروں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب ایک محفوظ پناہ گاہ کا انتظام ہو گیا۔ پاکستان کا پیسہ یوں تو کئی ملکوں میں گیا لیکن سب سے زیادہ دبئی میں ہے۔ امارتی بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ پیسہ کیسے کمایا گیا ہے پاکستان کی غربت امارتیوں سے پوشیدہ نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسے ان کا یہ دوست ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ بڑے بڑے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ عوام کیسے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو رہے ہیں۔

لیکن برادر اسلامی ملک خیراتی درہم تو جھولی میں ڈال سکتے ہیں لیکن پاکستان کا لوٹا ہوا پیسہ واپس کرنے کا ان کا کوئی موڈ نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کیا تو اور بھی کئی ملک یہ مطالبہ کریں گے۔ وہ پاکستان کو یہ استثنا دینے کو تیار نہیں۔ ہم اپنے نایاب تلور امارتی شہزادوں کے شکار کے شوق کے لئے قربان کیے دے رہے ہیں وہ یہاں آ کر تلور کا بے دردی سے شکار تو کرتے ہیں لیکن پاکستانیوں کے لئے ان کے دل نہ دکھتے ہیں اور نہ دھڑکتے ہیں۔

ہم نے پانچ دن دبئی میں گذارے۔ اور اس نتیجے پہ پہنچے کہ دبئی ایک بے روح، مقامی ثقافت سے عاری، تضادات سے پر ایک مصنوعی جگہ ہے۔ ہم نے اس سے پہلے اس قدر کھکھلا پن کہیں نہیں دیکھا۔ نہ کوئی تاریخی عمارت نہ کوئی پرانا محلہ۔ یہاں سب ایک دھوکا ایک سراب سا لگتا ہے۔

دبئی اس وقت بہت دولتمند ہے اور وہ اس دولت کی مدد سے اپنے پیر جمائے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ تیز ترین ترقی حیرت انگیز ہے۔ قوانین سخت ہیں اسی لئے جرائم بھی کم ہیں۔ آزادی رائے اور جمہوریت کے بغیر بھی یہ خطہ پھل پھول رہا ہے۔ پر امن بھی ہے۔ اپنے ہم عقیدے مذہبی انتہا پسند گرہوں کی کھلے دل سے مالی امداد بھی کرتے ہیں تاکہ یہ گروہ ان کی حدوں میں کوئی گڑبڑ نہ کریں۔ بے شک دوسرے ممالک میں دہشت گردی کرتے رہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ دولت کب تک انہیں بچائے رکھے گی۔ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار۔ یہ کب تک غیر ملکی مزدور، ہنر پیشہ، اور خدمت گزاروں کے بل پر حکومت کرتے رہیں گے؟ فی الحال یہ پناہ گاہ اچھی ہے۔ یہاں آزادی بھی ہے، گلیمر بھی۔ کلبز بھی ہیں اور کسینو بھی۔ خمر بھی ہے اور ساقی بھی۔ کالا دھندا کرنے والوں کے لئے یہ عیش کدہ ہے۔ پھر کیوں نہ دبئی چلو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).