متحدہ پر یقین کیوں نہیں؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا


\"ibarhim

میں کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی، اس کی قیادت سے لیکر کارکنان کی زبان بندی اور کسی سیاسی جماعت کی دفتر کی تالابندی کا سخت مخالفت ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ جماعت حقیقی معنوں میں سیاسی ہو، جس کا، آئین، منشوراور پروگرام پورے عوام کے حقوق کا ترجمان ہو، وہ تنظیم نسلی بنیاد وں پر قائم نہ ہو نہ ہی اس کا مقصد صرف ایک طبقے یا گروہی مفاد کا حصول ہو۔ میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا قائل نہیں لیکن دہشتگردی، فرقہ واریت، انتہاپسندی کے مقاصد کے لیے کام کرنے والی مافیا طرز پر کام کرنے والے کسی بھی گروہ یا گروپ کو سیاست کی آڑ میں گند کرنے کا حق دینے کا سب سے بڑا مخالف ہوں اور فوری طور پر ایسے گروہوں پر ابدی پابندی کے حق میں ہوں۔ آج کل ایم کیو ایم پر پابندی عائد کرنے کی باتیں چل رہی ہیں، اور اس سے بچنے کے لئے ایم کیو ایم جو حکمت عملی بنا رہی ہے اس پر بھی شکوک ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

پہلے تعلق پر اعتبار نہیں ہوا کرتا تھا اب تو ایسی ہوا چلی ہے کہ قطع تعلق ہو جانے یعنی لاتعلقی پر بھی اعتبار نہیں رہا۔ یہ وہ سیاسی لاتعلقی ہے جس کا اظہار متحدہ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کر رہے ہیں اور بار بار کر رہے، بلکہ قسمیں کھا کریہ کہہ رہے ہیں کہ لندن میں بیٹھے مسٹر سے اب ہمارا نا کوئی تعلق اور نا واسطہ ، لیکن ان لوگوں کا کیا کریں جو اس لاتعلقی پر دھیان دینے کے لئے تیار نہیں، اور ان قسموں وعدوں پر کوئی اعتبار ہی نہ کر رہا۔ اور تو اور وہ جو کل تک ایم کیو ایم کا اٹوٹ انگ تھے وہ بھی تو اس ساری مشق کو نورا کشتی کا نام دے رہے ہیں بلکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ سب کچھ باہمی مشاورت سے ہو رہا ہے۔

ایم کیو ایم کے لئے سب سے بڑا المیہ بھی یہ ہی ہے کہ ان کی کسی بات پر کوئی اعتبار نہیں کر رہا ہے، مصطفی کمال سے لیکر سینیٹر سعید غنی تک سب کا یہ ماننا ہے کہ یہ لاتعلقی بھی اسی قسم کا ڈرامہ ہے جیسے اس سے پہلے متحدہ قائد ایک سو بیس بار قیادت سے دستبردار ہونے، اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے، وزارتیں چھوڑنے ، رابطہ کمیٹی توڑنے اور پھر جوڑنے کی صورت میں سامنے آتے رہے ہیں۔

چلو ہم مان لیتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے، لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ مہاجر پارٹی ایک آمر کا دیا گیا تحفہ ہے، اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سندھیوں کی محب وطنی، جمہوریت پسندی، ترقی پسندی اور آمریت سے بغاوت کے صلہ میں ایک آمر نے اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسی قوت بنا ڈالی جس نے اب پورے ملک کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جنرل ضیا الحق سے جنرل پرویز مشرف تک بیچ کے عرصے والی تمام حکومتوں میں متحد ہ برسراقتدار رہی ہے ، لیکن اس نے اس سارے عرصے میں کیا کیا؟ اور جس طرح ایک دو موقعوں پر اس کے خلاف آپریشن ناگزیر ہو گیا لیکن انہوں نے اپنے اہداف وہ ہی رکھے۔ پھر کمزور پڑتی اس پارٹی کو سہارا دینے کے لئے ایک اور آمر میدان میں کود پڑا، جنرل ضیا الحق کے بعد آنے والا ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ہی تھا جو ایم کیو ایم کو اپنے کندھے پر بٹھا کر کراچی سے کشمیر تک لے گیا۔

اب تو ایم کیو ایم پر بندش ، مائنس ون فارمولا، دھڑے بندی اور پاک سرزمین پارٹی کو مضبوط کرنے سمیت کئی فارمولاز اور آپشنز زیر غور ہیں، مائنس ون فارمولا کو تو ایسی جڑی بوٹی سمجھا جاتا ہے جو استعمال کرنے کے خواہشمند سمجھتے ہیں کہ اس سے ہی سیاسی گند کی صفائی ممکن ہے۔اس لئے تو کبھی پیپلز پارٹی سے آصف علی زرداری کو مائنس کرنے، کبھی میاں نواز شریف کو سائیڈ لائن کرنے یا کبھی الطاف حسین کو ہٹانے کی باتیں ہوتی ہیں، پر مسئلے کا حل یہ نہیں، مسئلے کا حل خود ایم کیو ایم کے پاس ہے۔

ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم ایک بہترین سیاسی تنظیم بن سکتی ہے، اگر اس تنظیم کا موجودہ ڈھانچہ اور اس کی مسلح ونگ کو مکمل ختم کرکے اسے امن کی راہ پر ڈالا جائے ، اسے یہ بات سمجھائی جائے کہ دربدری اور ہجرت کے بعد جہاں آپ کے ابا و اجداد کے پاؤں ٹکے اس سرزمیں کو اپنی ماں سمجھو۔ کہنے والے تو بہت کچھ کہتے ہیں کہ کیونکر مہاجر قومی مومینٹ کو بنایا گیا ہی نسلی بنیاد پر تھا جس کی آبیاری ہی نفرتوں سے کی گئی تھی اس لئی وہ آج تک چکر سے باہرہی نہیں نکل سکی۔اور اس کے دلیل میں جو بات کی جاتی ہے وہ بھی مفروضہ نہیں کہ ہر دور میں اقتدار میں رھنے کے باوجود متحدہ کے پاس سندھ کو ٹکڑوں میں باٹنے، کراچی کوسندھ سے الگ کرنے ، کراچی کے تعلیمی ادارے سندھیوں کے لیے بند کرنے، کراچی میں کام کرنے والے سندھی ملازموں کو شھر بدر کرنے ، ٹارگیٹ کلنگ کرنے، سندھی پولس افسروں کو ڈھونڈ کر مارنے سے لیکر ایسے کئی نفرت انگیز کام کیے جس نے سندھ کو شھری اور دیہی میں بانٹ دیا۔ اب بھی اگر کوئی کہیں سے بھی پتا لگوائے، کوئی تحقیقات یا انکوائری کروائی جائے کے اتنا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود متحدہ نے اپنے ادوار میں سندھ کی فلاح و بھبود کے لئے کیا کچھ کیا؟

اقتدار کے دنوں میں متحدہ نے کراچی کی اردو آبادی یا زیادہ سے زیادہ حیدرآباد پر کرم نوازی کے سواء اور کچھ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، بلکہ یہ الزام بھی درست مانے جاتے ہیں کہ متحدہ نے تمام وسائل اپنی مسلح ونگ کو مضبوط سے مضبوط کرنے، تھائی لینڈ، جنوبی افریقہ اور لندن گروپ کو سرگرم کرنے پر خرچ کیے اور اس کے نتیجے میں کراچی میں آئے دن دس سے بیس لاشیں گرنا معمول بن گیا۔ یہ متحدہ کوبنانے والوں کی کم عقلی تھی یا نااہلی تھی کہ ان کو اندازہ نہیں ہو سکا کہ ان کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت ایک دن ان کو کھا جائیں گے۔ اب صورتحال واضح نہیں لیکن اس کو واضح کرنے میں سب سے بڑا کردار فاروق ستار ہی ادا کر سکتے ہیں۔ آئین سے نام نکالنا کافی نہیں ہے، سب سے پہلے تو ماضی میں کی گئی طرز سیاست پر اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ اس سے سیاست میں منفی چیزوں نے جنم لیا۔ اس سے بڑھ کرایم کیو ایم کو سندھ اور سندھیوں سے اپنی روش پر معذرت کرنا چاھیے، جس طر ح انہوں نے سندھ سے آنکھیں پھیر لیں، یا جس طرح انہوں سندھ دشمنی کے کئی محاذ کھول لیے، ان تمام فیصلوں کا اعتراف کریں۔ جس طرح پاکستان مردہ باد کے نعرے پر وہ ریاست، حکومت اور ریاستی اداروں سے معافی مانگ رہے ہیں اسی طرح انہیں سندھ سے بی وفائی اور غداری پر معافی مانگنا چاہیے، سندھ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے، آدھا ہمارا آدھا تمہارا کا نعرہ لگانے سے مستقل طور پر اجتناب کریں، اب تک کراچی میں خون خرابہ کرنے والے تمام نامعلوم لوگوں کے اس عمل کی مذمت کریں اور ایسے کسی گینگ سے اعلانِ لاتعلقی کے ساتھ واضح طور پر دہشتگردی، قتل و غارت میں ملوث تمام لوگوں کو قانون کے مطابق سزا دلوانے کا مطالبہ کریں۔ اور سب سے پہلے وہ عملی طور پر سندھ دھرتی کے حقیقی بیٹے بن کر دکھائیں۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments