پتن منار۔ رحیم یار خان


رحیم یار خان ریلوے اسٹیشن سے 8 کلو میٹر دور دریائے سندھ کے مشرقی دھانے پر ایک خاک اڑاتی عمارت پتن منارہ کے نام سے اپنی مبہم سی شناخت کرواتی ہے۔ یہ تقریباً 2500 سال پرانی بدھ مت کی خانقاہ ہے۔ اس عمارت کے تاریخی حوالے بہت کم دستیاب ہیں مگر اس بات پر ماہرین کا اتفاق ہے کہ یہ تین منزلہ عمارت تھی جو موریان عہد اور وادی ہاکڑہ کی تہذیب میں تعمیر کی گئی۔ متن منارہ کی پہلی منزل کب گری اس حوالے سے کوئی معتبر تاریخی حوالہ موجود نہیں ہے البتہ دوسری منزل 1740 میں مسمار کی گئی۔ اس کے اینٹ پتھر کو دین گڑھ اور ساحل گڑھ کے نئے قلعوں کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔ اس کی کھدائی کے دوران ایک اینٹ دریافت ہوئی جس پر درج شدہ سنسکرت تحریر کے مطابق یہ عبادت گاہ سکندرِ اعظم کے دور میں تعمیر ہوئی۔

آج کا پتن منارہ شکست و ریخت کا اتنے ہولناک طریقے سے شکار ہوا ہے کہ اس کی موجود حالت سے اس کے شاندار ماضی کا پتا ڈھونڈنا نا ممکن امر ہے۔ اس کی موجودہ اونچائی 20 فٹ ہے اور مینار کے نچلے حصے میں ایک چوکور سا بنا ہوا ہے جس کا ایک دروازہ مغرب کی طرف کھلتا ہے تاہم یہاں سے دوسری منزل تک جانے کے لئے کسی سیڑھی کا نشان نہیں ملتا۔ سیلا (کسی بھی روایتی مندر کا مرکزی کمرہ) کی چھت گنبدوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ سیلا کے عین اوپر دوسری منزل کی محراب دار کھڑکیاں ہیں۔

بہاولپور گزٹ ( 1908 : 38 ) کے مطابق اٹھارہویں صدی کے اوائل تک یہ عمارت عبادت کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ ماگھ (بکرمی کیلنڈر کا دسواں مہینہ) میں سندھ، بیکانر اور جیسلمیر کے راجہ یہاں شیوراتری کا سالانہ جشن منایا کرتے تھے۔ پتن منارہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے واقع تھا جو دریائے سندھ کی شاخ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ نے اپنا راستہ بدلا تو دریائے ہاکڑہ بھی خشک ہو گیا اور اس طرح یہ شہر بھی خشک سالی کا شکار ہو گیا اور اس کی اہمیت بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔

پتن منارہ کے اردگرد پراسرار کہانیوں نے اپنا جالا بن رکھا ہے۔ یہ بات نہایت وثوق سے کہی جاتی ہے کہ کسی وقت بھی یہاں ایک خزانہ دفن تھا۔ کرنل منچن، جو ریاست بہاولپور کے سیاسی کارندے تھے، خزانے کے بارے میں سن کر اس مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ سلمان رشید جو royal geographical society کے ممبر ہیں ان کے مطابق وہاں کرنل اور ان کے ساتھیوں کا سامنا ایک گاڑھے سیال مادے سے ہوا جس پر مخصوص رنگ کی بڑی مکھیاں بھنبھنا رہی تھی اور کرنل کے بہت سے ساتھیوں کی عین موقعے پر موت ہو گئی اس طرح یہ مہم پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔

پتن منارہ سرکاری طور پر آثارِ قدیمہ مطلع ہے مگر اس کے اردگرد تیزی سے بڑھتے ہوئے غیر قانونی قبضے اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس ورثے کی حفاظت کے لئے حکومت کی جانب سے کبھی کوئی واضح لائحہ عمل نہیں رہا۔ پتن منارہ کی تعمیر تاریخ کے صفحات میں ایک دھندلا سا حوالہ ہے اور بعد میں بھی اس پر آثارِ قدیمہ کے محکمے کی جانب سے بھی کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا۔ پر گزرتے دن کے ساتھ اس عمارت کی حالت مزید خستہ ہوتی جا رہی اور وہ وقت دور نہیں جب یہ زمین بوس ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).