سکرپٹ کا قیدی


آدم اپنی لائبریری میں بیٹھا حسبِ معمول ایک ناول پڑھ رہا ہے۔ یہ ایک بڑی لائبریری تھی جس میں اس کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوسکتا تھا، ایک بڑا ہال ہے جس کے تین اطراف میں چھت کو چھوتی ہوئے ہوئے شیلف کتب سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہال کی ایک دیوار آدم کے پسندیدہ ادیبوں کی قدِ آدم تصاویر اور اس کی کرسی اور میز رکھی ہے جس پر ایک لیمپ، نوٹ پیڈ، قلم اور کچھ کتابیں رکھی ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا قد آدم سے کچھ چھوٹا ہے ورنہ لائبریری میں موجود ہر چیز آدم نے اپنے قد سے ناپ کر خریدی یا بنوائی۔

لائبریری میں اس قدر خاموشی ہے کہ آدم جب کتاب کا ورق الٹتا ہے تو اس کی آواز سے بھی شور سا مچ جاتا ہے۔ اس نے اپنی توجہ کتاب پر مرکوز کررکھی ہے۔ کبھی کچھ پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھوں میں چمک سی آجاتی ہے، کبھی چہرے پر مسکراہٹ اور کبھی ماتھے پہ بل۔ کوئی دیکھنے والا اس کے چہرے کے تاثرات سے ناول پڑھ سکتا ہے۔

وہ ناول کا صفحہ پلٹا ہے تو اسی لمحے اُسے آواز سنائی دیتی ہے۔ اس کے تاثرات بتاتے ہیں کہ ایسی آواز یہاں پہلے اس نے کبھی نہیں سُنی۔ وہ آنکھوں سے چشمہ اٹھا کر چاروں طرف دیکھتا اور سوچتا ہے کہ لائبریری میں کون ہوسکتا ہے۔ وہ دروازہ بند کرکے آیا تھا۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ شاید کتاب کا صفحہ پلٹنے سے آواز پیدا ہوئی ہے لیکن اسے ایک بار پھر آواز سنائی دیتی ہے جیسے کچن میں کوئی موجود ہو۔ لائبریری کے ملحقہ کچن میں جہاں اس کے کھانے پینے کے کچھ سامان کے علاوہ چائے کافی کا بندوبست ہوتا تھا۔ وہ اس بار بھی اس آواز کو اپنا وہم سمجھتے ہوئے کتاب پر جھکتا ہے کہ اس کے نتھنوں میں کافی کی خوشبو داخل ہوکر کچن میں کسی کی موجودگی کا یقین دلادیتی ہے۔

وہ کرسی سے اٹھ کر میز پر لگا بٹن دباتا ہے تو لائبریری کی چھت پر لگا فانوس روشن ہوجاتا ہے۔ وہ حیرت اور خوف کے تاثرات چہرے پہ لئے دبے قدموں کچن کی طرف بڑھتا ہے مگر اس کے دروازے کے پاس پہنچنے سے قبل ایک لمبے قد کا کالے اوورکوٹ اور ہیٹ میں ملبوس ایک شخص دونوں ہاتھوں میں کافی کے کپ تھامے باہر کچن سے باہر نکل آتا ہے اور مسکراتے ہوئے ایک کپ آدم کو تھما دیتا ہے۔ تازہ کافی سے خوشبو بھرے بخارات نکل رہے ہیں اورلائبریری میں کافی کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔

آدم حیرت اور خوف بھرے لہجے میں اجنبی پر سوالات کی بوچھاڑ کردیتا ہے :

 ”کون ہوتم؟ لائبریری اندر سے لاک ہے تم اندر کیسے پہنچے؟ کس کی اجازت سے آئے ہو تم؟ کون ہو تم؟ “۔

اجنبی : ”میں ان تمام ناوَّلز، کہانیوں، افسانوں اور رزمیوں کا کردار ہوں جو تمہاری لائبریری میں موجود ہیں۔ تم مجھے ہیکٹر بھی کہہ سکتے ہو اور ایکلیز بھی۔ اگر چاہو تو ایگامیمنون بھی۔ تمہاری مرضی۔ اگر تمہیں خواتین پسند ہیں تو میں نینسی ڈریو بھی ہوں میلبا بیلز اور میگی ٹولیور بھی۔ ہمم۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تمہیں ولن پسند ہیں۔ اس لئے تم مجھے مسٹر ہائیڈ بھی کہہ سکتے ہو، بروٹس بھی اور گرینڈ وچ بھی۔ لیکن میرا مختصر تعارف یہ ہے کہ میں ایک کردار ہوں۔ افسانوی کردار۔ جس کا خالق خُدا نہیں ادیب ہے۔ یوں کہہ لو کہ میں اس دنیا کا فرد ہوں جس میں تم خُدا کی ادھوری، نامکمل، ناپائیدار اور ناقابلِ اعتماد دنیا اور اس میں بسنے والے ایسے ہی ادھورے انسانوں سے تنگ آکر پناہ لیتے ہو۔ میرا خُدا تمہارے خدا کا بڑا بھائی ہے“۔

کردار چند لمحوں کے لئے خاموش ہوکر پراسرار مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے آدم کی طرف دیکھتا ہے :

 ” گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ مجھ سے ملاقات تمہارے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اور یوں تمہیں حیران اور پریشان ہونے کی بجائے خوش ہونے کی ضرورت ہے۔ تم ایک اونگھنے، سونے اور مرگ و علت جیسی دنیویٰ حاجات کے مارے ایک معمولی انسان ہو اور میں ایک کردار! کہاں تم کہاں یہ مقام! تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ آج میں تم سے ملنے آیا ہوں۔ میں! “۔

آدم کردار کی بات سن کر اچھل کر کُرسی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ہاتھ نچا نچا کر کہنے لگتا ہے :

 ”یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ انسان ایک معمولی چیز ہے اور کردار فوق البشر؟ تم ہوش میں تو ہو؟ مجھے لافانی خُدا نے بنایا ہے تمہارا خُدا فانی ہے۔ تم ایک مجھ جیسے انسان کے تخیل جائز و ناجائز اولاد ہو۔ مجھ سے ملاقات تمہارے لئے اعزاز کی بات ہے یا میرے لئے؟ “

کردار قہقہہ لگاتے ہوئے : ”کتنے انسان کرداروں سے ملنے کے لئے لائبریریو ں میں آتے ہیں اور کتنے کردارانسانوں سے ملنا پسند کرتے ہیں اس پر اعداد وشمار جمع کرکے دیکھ لو! اور ہاں یہ فانی اور غیر فانی کی رٹ کیا لگا رکھی ہے تم نے؟

کیا تم نے نہیں جانتے کہ ایک اچھا لکھاری اپنی تخلیق میں خُدا کی طرح ہر جگہ موجود رہتا ہے : نگاہ سے اوجھل مگر ہر جگہ موجود۔ تو میرا خالق تمہارے خالق سے کم تر کیسے ہوگیا؟ کیا تم نے ایک روز وہ سب کتابیں لائبریری سے باہر نہیں پھینک دی تھیں جن میں اُن کے خُدا، ان کے تخلیق کار کا ہاتھ واضح طور پر واقعات میں دکھائی دیتا تھا؟ وہ کتابیں تم نے جلا ڈالیں تھیں جن کا خُدا کہانی کو کان سے پکڑ کر اُس کا رُخ جدھر چاہتا تھا موڑ دیتا تھا۔

اور پھر یہ بھی سوچو کیا صرف ناول، افسانے، ناٹک اور کہانیاں ہیں جن کا خُدا کہانی میں مخل ہوتا ہے؟ کیا وہ بھی بُرا فکشن نہیں جسے تم کچھ اور کہتے ہو۔ جس سے تم فانی اور لافانی کے دلائل لارہے ہو؟ وہ سب جس میں خُدا واقعات کی ناک میں نکیل ڈالے خود ایک بھٹکا ہوا شتربان بنا پھرتا ہے؟ ۔ شکر ہے میں ایسے خُدا کی تخلیق نہیں ہوں ”۔

آدم: ”خدا کی پناہ، یہ تم کیا بولتے چلے جارہے ہو؟ اسے کہتے ہیں روشنائی، نہیں، نہیں۔ سیاہی کے دھبے کا پرواز کے دھوکے میں مبتلا ہونا۔ بھئی تمہاری اوقات کیا ہے؟ تمہیں تو خود تمہارا تخلیق کار چنوتی دیتا ہے کہ اگر ہمت ہے تو میرے منقولے کے جہان سے فرار ہوکر دکھاؤ۔ تم بوسیدہ اوراق کے قیدی اور میں رنگ برنگی دنیا میں اڑنے والا۔ کیا مقابلہ ہے تمہاری اور میری دنیا کا؟ “۔

کردار: ”میں فسانے کی جس دنیا کو زمین پر ترجیح دے رہا ہوں کیا اُسے کسی نے سٹیج، تھڑا اور تماشا گاہ نہیں کہا تھا؟ میں کردار ہوکر جس انسان کو خود سے بہتر کہہ رہا ہوں اُسے کسی نے اس تھڑے پر ناٹک کرنے والا ناٹکی اور نقال نہیں کہا تھا؟ پھر میں کردار ہونے پر شرمندہ کیسے ہو سکتا ہوں؟

میں ایک کردار ہوں اور میں یہ جانتا ہوں کہ میں ایک کردار ہوں۔ تجھ جیسے آدم زادوں میں سے کتنوں پر اپنی ناٹکی اور نقالی کا بھید کھلا ہے؟ میں کردار ہوکر بھی لیکھت کا لخت ہوں۔ کتنے آدم زاد ہیں جو مجھ جیسے ہیں؟ نہ زُبان ان اپنی اور نہ آنکھ۔ میں ان سے بڑا ہوں کیونکہ میرا سکرپٹ کسی ایسے لیکھک اور قلم شاہ نے لکھا ہے جو ہر جگہ ہر کہانی کی راہ میں ٹانگ اڑانا اپنے شایان شان نہیں گردانتا ”۔

آدم : ”لیکن میں آزاد ہوں اور تو قیدی۔ انسان تو آزاد ہے اور کردار اس یونانی مرتبان پر منقش عاشق جیسا جو اپنی محبوبہ پر جھکا ہوا ہے، محبوبہ نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں کی طرف بڑھا رکھے ہیں مگر وہ ان ہونٹوں کو کبھی ہونٹوں سے چھو نہیں پائے گا۔ وہ ساری زندگی جھکا رہے گا مگر اُس کے ترسے ہوئے ہونٹ کبھی اُن ہونٹوں سے مس نہ ہوپائیں گے“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2