پھر بھی گلہ ہم سے


بیوی بے چاری منہ اندھیرے سب سے پہلے بستر کی نرمیاں تیاگ کر میدان عمل میں آتی ہے۔ فجر کی روحانیت کو ساتھ لئے، کلاک کی ٹِک ٹِک سے قدم ملاتی سیدھی کچن میں جا کر کھانا جنگی کا محاذ بناتی ہے۔

اور پھر بچوں کو اٹھانے کے لئے کمرہ کمرہ بھاگتی ہے۔ ایک کو اٹھاتی ہے تو دوسرا سو جاتا ہے تیسرے کے پاس جاتی ہے تو پہلا سو چکا ہوتا ہے۔ پھر باری باری سب کو سینے سے لگا کر کھڑا کرتی ہے۔ بچہ چونکہ غنودگی میں ہوتا ہے۔ اس لئے ان پر تب تک اپنی ممتا نچھاور کرتی رہتی ہے۔ جب تک بچہ مُسکرا کر ساتھ نہ چل پڑے۔ یہ منظر کئی بار میں نے کُن اکھیوں سے دیکھے ہیں۔ خیر پھر واش روم کی تھکا دینے والی مَشق۔ اور پھر یونیفارم بدلنے کی افراتفری کا دور۔ لڑکے تو خیر جلدی تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن لڑکیوں کے بال بنانا گویا پھر ایک نئی جَنگ چھیڑنے کے مُترادف ہوتا ہے۔

نڈھال ممتا اَک سَت کر اِدھر کنگھا چھوڑتی ہے۔ تو اُدھر ایپرن پہن لیتی ہے۔ میں نے پراٹھا کھانا ہے۔ میں نے نہیں کھانا۔ مجھے بس چائے دے دو اور پراٹھا لنچ باکس میں بھر دو۔ مما۔ میری پانی والی بوتل؟ مجھے کیا پتہ۔ چلو میں دیکھتی ہوں۔ تم تب تک ناشتہ ختم کر لو۔ ہاں کھانا کھا لیا

چلو یہ رہی تمہاری بوتل۔ جاؤ باہر رکشہ آ گیا ہے۔ اللہ اللہ کر کے بچے وداع ہوتے ہیں۔

اور اب مجازی خدا کی باری آتی ہے۔ اٹھ جائیے! تھوڑی دیر تک اٹھتا ہوں۔ شوہر کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ بیوی پھر سے اپنی ٹوٹی کمر باندھ کر جھاڑو پوچے میں جُت جاتی ہے۔ اَدھ پَجَدّے کام کر کے پھر مجازی خدا کی بغل میں آن کھڑی ہوتی ہے۔ اُٹھ جاہیے اب تو۔ دوکان کے لئے دیر ہو رہی ہے۔ امی ابو کو ناشتہ دے دیا۔ شوہر کمبل سے آدھی کھوپڑی نکال کر پوچھتا ہے۔

سوچا تھا سب کو اکٹھے دے دوں گی۔ تمہیں کتنی بار کہا ہے اُن کو پہلے دے دیا کرو۔ جاؤ پہلے ان کو دے آو۔

اوکے۔ بیوی بھاگم بھاگ اس حکم کی بجا آوری کے بعد دوبارہ شوہر کے دربار میں پہنچ جاتی ہے۔ شوہر ناشتہ ایسے کرتے ہیں جیسے بیوی پر احسان چڑھا رہے ہوں۔ مُتکبرانہ لب و لہجہ اور فِرعونی انداز۔ اِس قِہر کو دوکان کی راہ دیکھلا کر بیوی پھر اپنے باقی ماندہ کاموں کی طرف لوٹتی ہے۔

بستر کی شکنیں اور لحافوں کی تھگن ابھی بھی اُس کو منہ چَڑھا رہی ہوتی ہے۔ اور ناشتے کے برتنوں کا ڈھیر الگ سے آتی جاتی کو چھیڑ رہا ہوتا ہے۔

یہ صرف میں دو گھنٹوں کی واردات آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ دوپہر شام اور پھر رات کے حیوانی تقاضے الگ ہیں۔ اس قدر جاں شکن جاب میں ساس سسر کی جی حضوری سب سے ٹف ڈیوٹی ہوتی ہے کیونکہ جہاں چُوک ہو گئی۔ وہیں پر مجازی خدا کا مودّب خون کھول اٹھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ خود بھلا ماں باپ کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ہو۔ بچوں کی تربیت سے لے کر چادر اور چار دیواری کی ننگی تلوار تک۔ ساری عمر یہ بے ضرر ہرنی شیروں کی کچھار میں گزار دیتی ہے۔ مگر ہم نے کبھی اس کی خدمت کا اعتراف تک نہیں کیا۔

ایک پھول سے خوش ہو جانے والی مخلوق کو کبھی ہم نے سیریس لیا ہی نہیں۔ ہمیشہ اپنے اکھڑ پن اور دبدبے کو معتبر سمجھا یہ بھی کبھی نہیں سوچا کہ یہ بیٹی تھی تو اسے رحمت کہا گیا۔ بیوی بنی تو اُس شخص کو سب سے بہتر کہا گیا جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہو۔ ماں بنی تو جنت اس کے قدموں میں رکھ دی گئی۔ مگر ہم نے ہمیشہ نا انصافیوں کا بازار گرم رکھا۔ جنت سے محبت کرنے پر آئے تو بیوی کو گھر سے نکال دیا۔ بیوی سے محبت کرنے پر آئے تو تو جنت کو در بدر کر دیا۔ اللہ نے اگر رحمت بخشی تو غصے میں آکر بیوی کو ہی پُھونک دیا۔ اور یہ بھی نہیں سوچا کہ اِس میں اِس پگلی کا کیا قصور تخم تو تیرا نسائی تھا۔ بیوی نے تو اسے پروان چڑھایا۔

آپ مکمل انسان ہیں ہی نہیں کہ جب تک آپ کو رشتوں کا احساس نہ ہو۔ آپ کو اندازہ ہی نہ ہو کہ کون آپ کے لئے کتنی جان مار رہا ہے۔ کس نے آپ کے لئے دعائیں کیں۔ اور کون ہے کہ جس کی سانسیں آپ کی سانسوں کے ساتھ چلتی ہیں۔ کریڈٹ دیجیئے اس مخلوق کو سے پہلے کہ آپ کی بیوی آپ کی ماں آپ کی بیٹی آپ کو صرف ایک مٹی کا پتلا سمجھا اگنور کر دیں۔ اشرف المخلوقات بنیئے اور قدر کیجیئے۔

صرف پیار سے بھرے دلوں کی نہیں ٹوٹے دلوں کی بھی، آباد آشیانوں کی نہیں اجڑے مکانوں کی بھی اور پھولوں سے بھری رہگزار کی نہیں ویران رستوں کی بھی، کیونکہ اچھا اور برا وقت۔ وقت کی نیرنگیوں کے مورخ ہوتا ہے۔

وسیم رضا، سعودی عرب
Latest posts by وسیم رضا، سعودی عرب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).