میں ٹھیک تم غلط، نہ مانو تو بھگتو اب


ان دنوں زندگی مشکل سی لگتی ہے، جسے دیکھو مہنگائی سے پریشان، گرمی سے بے حال۔ جس سے بھی بات کرو چڑچڑاپن، غصہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ بازار میں سبزی گوشت خریدنے والا ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت دکاندار کو بے بھاؤ کی سناتا آگے یہ سوچ کر بڑھ جاتا ہے کہ میں نے اپنا جائز غصہ نکال دیا۔ ظاہر ہے اشرافیہ طبقے کو سنانا تو اپنے بس میں نہیں جو اس برس بھی رمضان میں مہنگی مہنگی افطار پارٹیوں میں ڈیزائنر کپڑے زیب تن کیے ملک کی برائیوں سے روزہ کھولتے دکھائی دیتے رہے یا پھر وہ حکومت جو ابھی تک اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قمری کیلنڈر یا پھر قمری ڈاکٹرین کو سمجھتے ہوئے عوام کو گھبرانے نہ دینا کا مشورہ دینے پر قائم ہے۔ ایسے میں مجھے آپ کو امرود والا ہو یا دودھ والا، سبزی والا ہو یا غریب ریڑھی پر چاٹ بیچنے والا ہی جابر، ظالم اور غاصب دکھائی دیتا ہے۔

لیکن مجھے سب سے زیادہ زندگی کو مزید اذیت سے دوچار کرنے والا یہ ریڑھی، پھیری لگانے والے نہیں بلکہ سوشل میڈیا لگتا ہے۔ اب جب کہ یہ سب ایک کلک کی دوری پر آپ کے فون میں دستیاب ہیں اور ان سب سے نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو ایک تعلق جوڑنا پڑتا ہے۔ بالکل ایسے ہی کہ پھوپھی سے کبھی بھی تعلقات اچھے نہ رہے ہوں لیکن اگر وہ کسی میت یا شادی کے موقع پر نظر آجائیں تو آپ کو اماں کی ایک گھوری اور بنا ہونٹ کو جنبش دیے دھمکی سنائی دیتی ہے کہ خبردار جو کوئی بدتمیزی ہوئی جیسے ہی سامنا ہو ادب سے سلام کردینا۔

یہاں بھی یہی حساب ہے نہ چاہتے ہوئے بھی کئی موقع پر زبان بند، نظر نیچی رکھنی پڑ جاتی ہے۔ آپ گھر ہوں کرنے کو کچھ نہ ہو تو سب سے زیادہ کیے جانے والا کام جانتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ بے وجہ فریج کھول کر ایک نظر ڈالنا ہر بار یہ حرکت کرتے ہوئے یہ امید ہوتی ہے کہ شاید غیب سے کوئی مدد ہوجائے اور کمپریسر کی طرف سے کوئی میٹھے سے بھرا برتن، یا کوئی ٹھنڈا ٹھار من پسند پھل، یا کوئی روح کو تسکین دینے والا شربت رکھ جائے لیکن ہر بار مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ملتا وہی ہے کل رات کا بچا ہوا سالن، مکھن، انڈے، چند منہ چڑاتے پھل اور پانی کی وہ آدھی بوتلیں جو آپ کو دیکھتے ہی طنز کرتی ہیں کہ جب پانی ٹھنڈا ہی پینا ہے تو بوتلیں بھی بھر لو ورنہ امی جان جیسے بھروائیں گی سمجھ تو تم گئے ہوں گے۔

ایسا ہی منظر ہوتا ہے جب آپ فیس بک اور ٹویٹر کی بند کھڑکی اس امید پر کھولیں کہ کوئی ٹھنڈا ہوا کا جھونکا آئے گا، کچھ ایسا ملے گا جو آپ کی روح کو سیراب کر جائے گا، آپ کے بگڑے موڈ کو تروتازہ کر جائے گا لیکن مجال ہے کہ ایسا ہو۔ فیس بک کو ہماری والدہ محترمہ فیک بک کہتی ہیں۔ کہتی تو درست ہی ہیں جتنا فریب، جھوٹ، مکر، بد تہذیبی یہاں ہیں کہیں اور نہیں۔ یہاں مہنگائی کا کہرام مچا ہے وہاں ایک پوسٹ دکھائی دیتی ہے جس میں کپڑوں، جیولری، جوتوں کی نمائش کے ساتھ ایک حسین لڑکی یہ لکھتی دکھائی دیتی ہے کہ ویسٹرن اور برانڈڈ خریدنا ہی میری اولین چوائس ہے لوکل برانڈ میرا معیار نہیں۔

اب کوئی پوچھے بی بی کیا آپ امریکہ یا اسکاٹ لینڈ کی پیدائش ہیں؟ پیدا تو آپ شیخوپورہ ہی ہوئی تھیں۔ خیر کوئی بات نہیں آپ نے نمائش کرنا تھی کرلی۔ چلیں آگے چلتے ہیں۔ ایک حضرت بہت سنجیدہ پوسٹ ڈالتے ہیں۔ جس میں ایک شہید میجر کی قبر پر ایک چھوٹی سی بچی جو ان کی بیٹی ہے قبر کے سرہانے بیٹھی ہے۔ پوسٹ حساس ہے اور جو بھی دیکھے وہ کیا احساسات رکھے گا یہ بات بھی یقینی ہے اب کمنٹس پر سب اپنے احساسات ظاہر کر رہے ہیں کہ اچانک ایک صاحب کودے اور منفرد بنتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ آپ کو یہ شہید اور اس کی اولاد کا بڑا درد اٹھ رہا ہے فلاں فلاں یاد نہ آیا۔

اب بات کا رخ تبدیل ہوگیا اور جو پوسٹ تھی اس کی حساسیت سے بات تعصب، علاقائیت، لسانیت پر جا پہنچی۔ ہم نے استغفار پڑھا آگے بڑھے کہ اچانک نوٹیفیکیشن پر لکھا آیا کہ ہمیں کسی نے ان باکس کوئی پیغام بھیجا ہے اس کیفیت میں پیغام کھولنے کی غلطی کرلی تو لکھا آیا ہے ”نائس ڈی پی“ ابھی جھٹکا لگا ہی تھا کہ وہ پیغامات جن کو براہ راست بھیجنے کی سہولت دوسروں کو میسر نہیں وہ کھولنے کی غلطی کردی تو پانچ ایسے افراد کا اعتماد قابل رشک تھا۔ جنھوں یہ ڈائریکٹ اپنا نمبر بھیج کر لکھا تھا، کال می پلیز۔ بھئی واہ کیا کہنے میں نے یہ دیکھ کر زوردار نعرہ لگایا ”یہ کانفیڈینس چاہیے مجھے“۔

ابھی ان حضرات کے اعتماد پر رشک کر ہی رہے تھے کی ایک اور پوسٹ نظر سے گزری جس میں دو دہائیوں سے جاری دوستی کے نماز جنازے کا وقت طے ہوچکا تھا، آخر ایسا کیا ہوا کہ نوبت یہاں تک آن پہنچی اس کے لئے تفصیلات کا انتظار نہ کرنا پڑا چند منٹوں بعد اگلی پوسٹ نے وجہ بتادی۔ لڑائی پاکستان تحریک انصاف کی تبدیلی پر طعنہ دینے سے شروع ہوئی اور یوں کئی برس کی دوستی تمام ہوگئی۔ ہم نے جیئے بھٹو کا نعرہ لگایا اور آگے بڑھ گئے کہ ایک نوٹیفیکیشن آیا کسی نے ہمیں پچاس لوگوں کے ساتھ ٹیگ کیا تھا، یقینا کوئی ضروری بات ہوگی پوسٹ دیکھی تو اس میں صحافیوں کو لعن طعن کی گئی تھی اور ایک خاتون صحافی جن کی خبر سے ان حضرت کو اختلاف تھا جو کہ آپ کا میرا حق ہے۔

انھوں نے ان کا نام لئے بغیر ان کے ادارے کے تمام کرتا دھرتاوں کو ٹیگ کر کے ان کے مبینہ کرپشن کے پول کھولے تھے ساتھ ہی ساتھ صحافت سے تعلق رکھنے والوں اور اداروں کو بھی خوب کھری کھری سنا ڈالی تھیں ( دلچسپ بات یہ کہ وہ خود بھی اسی ادارے اور صحافت سے بہت عرصہ منسلک رہے ) اب سیاست میں بالواسطہ، بلاواسطہ آئے تو پرانی روزی روٹی بھوسی ٹکڑے لگنے لگے۔ اس پوسٹ پر بڑوں بڑوں نے دماغ لگایا لیکن وہ کیا ہے ناں کہ جب سیاست آجائے تو کیا بڑا، کیا چھوٹاکیا اپنا، کیا پرایا کچھ نظر نہیں آتا۔ دوسروں کا انجام دیکھ کر ہم نے خاموشی سے راہ فرار اختیار کی کہ نکل پڑے کہیں اور وہی سب کچھ فیلنگ الون ودھ فارٹی ون ادرز، فیلنگ ہاٹ، فیلنگ الحمدللہ، فیلنگ اداس سمیت اتنی فیلنگز دیکھ کر لگا کہ کیا گھر میں لوگ نہیں جو یہاں احساسات کا جمعہ بازار لگا ہے؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar