اپوزیشن کی بصیرت کا امتحان


جو کہتے تھے کہ ہم نے جمہوریت کے دوام کی خاطر تحریک انصاف کے اس مینڈیٹ کو بھی تسلیم کر لیا جسے دل مانتا تھا اور نہ ذہن، جو ماضی کی دو حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے بھی پانچ سال پورے کرنے کے حامی تھے، جو کسی طور حکومت کو گرانے کا گناہ اپنے سر لینے کو تیار نہ تھے، جو تبدیلی کی حمایت کرنے اور اسے ووٹ دینے والوں کو بھی مزا چکھتے دیکھنا چاہتے تھے، جو ناتجربہ کاروں اور تجربہ کاروں میں فرق سمجھانا چاہتے تھے، جو کرکٹ اور سیاست میں تمیز کو عام کرنا چاہتے تھے اور جو ووٹ کو عزت دینے کے خواہاں تھے، ان کے صبر کا پیمانہ صرف دس ماہ میں ہی کیوں لبریز ہو گیا؟ عمران خان کو یوٹرن کے طعنے دینے والے اپنے ہی الفاظ کو کیوں نگل گئے؟

سیاسی عدم استحکام کو معیشت کی تباہی قرار دینے والے سڑکوں پر آنے کے لئے کیوں پَر تولنے لگے؟ عوام کے نمائندہ ادارے میں جمہور کی ترجمانی کا سبق یاد دلانے والے اس سے کنارہ کشی پر کیوں تیار ہو گئے؟ کنٹینر کی سیاست کے طعنے دینے والے خود کنٹینر پر چڑھنے کے لئے بیتاب کیوں ہو گئے؟

چھ چھ بجٹ پیش کرنے والے دوسرے کے ایک بجٹ سے بھی کیوں بھاگنے لگے؟ احتجاج اور دھرنے کو جمہوریت کے لئے زہر قاتل قرار دینے والے اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے کیوں کمر کسنے لگے اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا تقاضا کرنے والے فریقین کو ایک ہی صفحے پردیکھ کر کیوں حسد کرنے لگے؟ کیا جمہوریت صرف وہ جو اپنے من کو بھائے؟ کیا صرف اُس ووٹ کی عزت جو حمایت میں پڑے، کیا فیصلے وہی قبول جو حق میں آئیں، کیا مفاہمت وہی راس جس میں اپنا پلڑا بھاری ہو؟

ان تمام سوالات کے جوابات کے لئے درجنوں تاویلیں، متعدد دلائل، ان گنت عذر، بے شمار وجوہات لیکن کیا الفاظ زبان کا ساتھ دے پائیں گے؟ ایک لمحے کو مان لیا کہ دس ماہ میں حکومت کا سر نہ پیر، بدترین گورننس، ناتجربہ کاری کی انتہا، معیشت کی بدحالی، عوام کی زندگی اجیرن، ترقیاتی منصوبے ٹھپ، ڈالر بے قابو، بے روزگاری میں اضافہ، صنعتیں بند، سرمایہ کار غائب، پارلیمان بے معنی لیکن ان تمام مسائل کا حل کیا سڑکوں پر آنا، احتجاج کرنا اور حکومت کو چلتا کرنا ہے؟

گزشتہ حکومت کے قیام کے ایک سال بعد ہی احتجاج تو تحریک انصاف نے بھی کیا تھا، پونے پانچ ماہ وفاقی دارالحکومت کو یرغمال تو انہوں نے بھی بنائے رکھا تھا، اب اگر صرف دس ماہ بعد آپ بھی وہی راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان میں اور آپ میں کیا فرق رہ جائے گا؟ کیا آپ کا احتجاجی رویہ آپ کی بالغ نظری، سیاسی بصیرت اور جمہوریت پسندی سے میل کھائے گا؟ حضور! جمہوریت تو نام ہی ذمہ داری کا ہے جس میں حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی اپنے کردار کی جواب دہ ہوتی ہے لیکن یہ کردار تعمیری ہونا چاہئے، تخریبی نہیں۔

مانا کہ اپوزیشن جب لوہا گرم دیکھتی ہے تب چوٹ لگاتی ہے، یہ بھی درست کہ رہی سہی کسر حکومت بجٹ میں سات سو ارب روپے کے مزید ٹیکس عائد کر کے پوری کر دے گی، عوام کو بس ہلہ شیری دینے کی ضرورت، سردار اختر مینگل جیسے حکومتی اتحادی بھی آپ کی کشتی میں سوار ہونے کے لئے تیار.

اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کے پیروکار ہی کافی، تحریک انصاف کی اندرونی محاذ آرائی بھی سازگار ماحول فراہم کرنے میں مددگار جبکہ آپ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے ضمانتوں کے مقدمات پر فیصلوں کا وقت بھی عین سر پر، اس سارے منظر نامے میں یقیناً آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے اور اسے گرانے کا فیصلہ کرنا بہت آسان لیکن یہی وہ موقع ہے جہاں جذبات کے بجائے ہوشمندی ناگزیر، جہاں ذاتی مفادات کے بجائے ملکی مفادات کو مقدم رکھنا ضروری، فیصلہ آپ کو کرنا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے یا اسے ایک بار پھر دیس نکالا دینا ہے.

آپ سے بہتر کون جانتا کہ احتجاج شروع آپ ضرور کریں گے لیکن اس کا انجام آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوگا، پی این اے کی تحریک سے طویل ترین دھرنے تک تاریخ کے اوراق گواہی کے لئے کافی، فرض کریں جو عزائم آپ کے نظر آرہے ہیں اس کے مطابق آپ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اپوزیشن متحد ہوکر حکومت کے خلاف پارلیمان کے باہر بھی احتجاج کرے گی.

پہلے مرحلے میں ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم کے لئے جلسے منعقد کئے جائیں گے اور جب عوام سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہو جائیں گے تب حکومت کے خلاف بپھرے ہوئے عوام کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑ دیا جائے گا لیکن یہی وہ صورتحال ہے جو بصیرت کا تقاضا کرتی ہے، عوام کو متحرک کرنے کے لئے جو جلسے جلوس کئے جائیں گے اس عمل کے دوران کیا ملکی معیشت مزید دگرگوں نہیں ہوگی؟ اس سیاسی عدم استحکام کی قیمت کیا اسٹاک ایکسچینج کو مزید مندی کی صورت میں نہیں چکانا پڑے گی؟

اس افراتفری کے نتائج معیشت سے ملکی سلامتی تک کیا ہوں گے اور جب اسی احتجاج کا پڑائو وفاقی دارالحکومت میں ڈالا جائے گا تو حکومت کی چولہیں ہلنے کی ساتھ ہی کیا جمہوریت کا دھڑن تختہ بھی نہیں ہوگاْ یہ صدا تو ابھی سے بلند ہونے لگی ہے کہ موجودہ مسائل کا حل نئے انتخابات ہیں لیکن الیکشن ایکٹ میں ترامیم اور ووٹ کی عزت کو یقینی بنائے بغیر اس امر کی کیا ضمانت کہ دائرے کا سفر پھر سے شروع نہیں ہوگا؟

گزارش بس اتنی ہے کہ جہاں سب جانتے، بوجھتے، سمجھتے اتنا کچھ برداشت کیا وہاں اب بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ اے پی سی ضرور منعقد کریں، ملک کو درپیش چیلنجز سے لے کر سنگین خطرات تک غور و فکر بھی کریں لیکن ان سے نمٹنے کے لئے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کریں کہ جمہوریت پر کوئی آنچ نہ آئے کیونکہ عوام کے جس نمائندہ ادارے پارلیمان کو آپ بھی مقدس مانتے ہیں اگر اس پر قفل پڑے تو مورخ کٹہرے میں حکومت کو نہیں، آپ کو کھڑا کرے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).