نئے صوبوں کی تشکیل کی بحث


پاکستان میں اس وقت سیاسی جماعتوں، اہل دانش اور سیاسی کارکنوں سمیت علمی و فکری محاذ پر نئے صوبوں کے قیام کی بحث بڑ ی شدت سے کی جاتی ہے۔ اس بحث کے حق میں اور مخالفت میں فریقین مختلف دلائل دے کر اپنا اپنا سیاسی اور قانونی موقف پیش کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ اپنی اپنی دلیل پر رائے عامہ کو قائل کرسکیں۔ نئے صوبوں کا قیا م ایک سیاسی، انتظامی اور قانونی مسئلہ ہے اور جہاں اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہو وہاں نئے صوبوں کی بحث اور اس کی تشکیل میں کوئی ہرج نہیں۔ لیکن اس انتظامی اور قانونی مسئلہ میں سیاست کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے اور اس حساس مسئلہ پر بھی ہم سیاست کا شکار نظر آتے ہیں۔

اس وقت جنوبی پنجاب صوبہ کی بحث موجود ہے۔ حکومت کے بقول وہ صوبہ بنانے میں سنجیدہ ہے۔ پچھلے دنوں اسی سنجیدگی کے پیش نظر قومی اسمبلی میں اس جنوبی پنجاب صوبہ کی حمایت میں قراداد بھی پیش ہوگئی ہے۔ اسی تناظر میں ایک بحث بہاولپور صوبہ کی بھی ہے او روہاں کے طاقت ور افراد اس صوبہ کی تشکیل کے بھی حامی ہیں۔ حالیہ دنوں میں کراچی کے تناظر میں ایم کیو ایم بھی سندھ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایک نئے صوبہ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف نے فی الحال سندھ میں کسی نئے صوبہ کی تشکیل کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔ اگر جنوبی پنجاب نیا صوبہ بنتا ہے تو اس کے بعد نئے صوبوں کی بحث دیگر صوبوں میں بھی سامنے آسکتی ہے۔

البتہ یہاں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو مبارکباد دینی ہوگی کہ انہوں نے ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں کم ازکم جنوبی پنجاب کے معاملات میں زیادہ سنجیدگی دکھائی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب کے بقول جولائی میں ایک قدم آگے بڑھ کر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کردیا جائے گا جو نئے صوبہ کے قیام کی طرف ایک بڑ ی پیش رفت ہوگی۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بننے سے یقینی طو رپر اس عمل سے جنوبی پنجاب کی ترقی میں اضافہ سمیت محرومی کی سیاست میں کمی ہوگی۔

ابتدائی طور پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے ماتحت مختلف محکمے جنوبی پنجاب میں کام کریں گے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے پاس چیف سیکرٹری کے اختیارات ہوں گے۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے اپنی ترجیحات میں جنوبی پنجاب میں ترقی کو بنیاد بنایا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ریکارڈ ماضی کے حکمران طبقہ سے بہتر ہے اور خود مقامی نظام میں ڈی جی خا ن کو میٹرو پولیٹن شہر کا درجہ دینا مقامی ترقی کو یقینی بنائے گا۔

پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کا معاملہ کوئی آسان کا م نہیں۔ قانون بہت مشکل ہے او راس پر عملدرآمد کیے بغیر نیا صوبہ نہیں بن سکتا اس کے لیے پہلے صوبائی اور قومی اسمبلی سے قراداد کی حمایت اور پھر اسمبلیوں سے 2 تہائی اکثریت کے ساتھ اس کی منظوری کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ جان بوجھ کر اس مسئلہ کو مشکل بنایا گیا تھا تاکہ اگر بنانا بھی پڑے تو یہ کا م آسان نہیں ہونا چاہیے۔ نئے صوبوں کی بحث میں ایک اہم اور بنیادی نکتہ یہ اٹھایا جاتا ہے کہ دنیا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، مرکزیت کے خاتمہ اور بنیادی ضروریات تک لوگوں کی رسائی کو ممکن بنا کر اپنی حکمرانی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بناتی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں دو مسائل سنگین ہیں۔ اول محرومی اور پس ماندگی کی سیاست جس سے ملک میں امیر اور غریب کا فرق کا بڑھنا اور دوئم پنجاب کا دیگر صوبوں کے مقابلے میں طاقت کا مسئلہ نئے صوبوں کی بحث کو آگے بڑھاتا ہے اور دلیل دی جاتی ہے کہ اتنے بڑے صوبوں کی بنیاد پر حکمرانی کا نظام شفاف نہیں ہوسکتا۔

پاکستان میں تین صوبہ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں یہ احساس موجود ہے کہ پنجاب کی برتری کے باعث ان کا پنجاب پر انحصار بہت زیادہ ہوتا ہے اور طاقت کے مرکز میں پنجاب کی برتری نے ان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ پر پاکستان کی بیشتر جماعتوں سمیت بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں اتفاق ہے، البتہ طریقہ کار پر اختلاف موجود ہے جو مسائل بھی پیداکرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بھارت نے اس مسئلہ کا حل کمیشن کی تشکیل کی مدد سے کیا ہے تاکہ کمیشن ا ن تمام باریک بینوں کا جائزہ لے کر جو بھی حتمی رائے دے گا اسی کو بنیاد بنایا جایگا۔ لیکن کیونکہ پاکستان میں نئے صوبو ں کی تشکیل کا آئینی طریقہ کا ر مشکل ہے اس لیے اس پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔

لیکن پہلے ہمیں نئے صوبوں کی تشکیل میں محرومی اور پس ماندگی کی سیاست کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سب کیونکر ہورہا ہے۔ دو اہم کام پاکستان میں دو دہائیوں میں ہوئے۔ اول جنرل مشرف کے دور میں مقامی حکومت کا خود مختار تصور اور دوئم 18 ویں ترمیم کے تحت وفاق نے صوبوں کو زیادہ با اختیار کردیا۔ اس 18 ویں ترمیم کی روح سے اب صوبوں کی محرومی کو ختم کرنا اور ترقی کو ممکن بناناوفاق سے زیادہ صوبوں کی ذمہ داری ہوگی، جس انداز سے وفاق نے صوبوں کو اختیارات دیے اسی طرح سے صوبو ں کی بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اب ایک قدم آگے بڑھ کر ضلع کی سطح کے نظام یعنی مقامی حکومت کے نظام کو آئین کی شق 140۔ A کے تحت سیاسی، انتظامی او رمالی خود مختاری دے کر حکمرانی کے نظام کو زیادہ فعا ل کریں اورمرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کا نظام ترجیح ہونی چاہیے۔

لیکن ہماری سیاسی قیادت بالخصوص صوبائی سطح پر ہم نے مرکزیت کو قائم کرکے صوبائی مرکزیت کو مضبوط کیا اور مقامی نظام کو سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر مفلوج یایتیم بناکر رکھ دیا ہے۔ پہلے صوبے روتے تھے کہ ہمیں مرکز اختیار نہیں دے رہا اور اب ضلع رو رہے ہیں کہ ہمیں صوبہ خود مختاری دینے کے لیے تیار نہیں۔ صوبائی خود مختاری کا عمل اسی صورت میں ممکن ہوگا جب صوبے ضلع کی سطح پر مقامی نظام حکومت کو مضبوط کریں گے ”وگرنہ صوبائی خود مختاری مکمل نہیں ہوگی۔

اگر ہمارے پاس ایک مضبوط مقامی نظام حکومت جو خود مختاری کی بنیاد پر ہو او رلوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہورہے ہوں تو وہاں نئے صوبوں کی بحث کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ لیکن جب لوگوں کے مقامی بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے توان کو لگتا ہے کہ ان کے بھی مسئلہ کا حل نیا صوبہ ہے۔ جبکہ نیا صوبہ بھی بنالیں لیکن اگر صوبوں میں مقامی نظام حکومت سے انحراف کرتے ہیں تو پھر نئے صوبوں کی تشکیل بھی ہمیں کچھ نہیں دے سکے گی۔ اس وقت پنجاب میں لوگ تخت لاہور پر تنقید کرتے ہیں اور پھر بعد میں جہاں نئے صوبے بنیں گے وہاں کے لوگ بھی اپنے اپنے دارلخلافہ پر تنقید کریں گے کہ انہوں نے ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا ہوا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے سابقہ ناکامیوں او رغلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں او رکیوں ہم ان تجربات پر عملدرآمد نہیں کرنا چاہتے جو دنیا نے کامیاب تجربوں کی بنیاد پر کیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے درست کہا کہ اگر مقامی نظام مضبوط ہوگا تو نئے صوبو ں کی اتنی بڑی تعداد میں ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن وزیر اعظم یہ تو سوچیں کہ جو نظام مقامی نظام حکومت کے نام پر چل رہے ہیں وہ کس حد تک ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہیں، یقینی طو رپر اس کا جواب نفی میں ملے گا۔ ہمیں نئے صوبوں کی تشکیل پر سیاسی اسکورنگ کرنے کی بجائے سنجیدگی سے ان مسائل پر بحث کرکے دنیا میں ہونے والے تجربات سے سبق سیکھ کر کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہیے۔

اصل مسئلہ حکمرانی کے نظام میں ہمارے سیاسی، سماجی اور انتظامی رویوں کا ہے۔ آپ جتنے مرضی قانون اورپالیسی تشکیل دے دیں، نئے صوبہ بنالیں لیکن اگر ہمارا طرز حکمرانی غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہوگاتو یہ سب بہتر اقدامات بھی ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں گے۔ ہمیں اپنا پورا حکمرانی کا نظام کو بدلنا ہے جو اپنے اندر ایک بڑی اصلاحات چاہتا ہے۔ اصلاحات بھی اسی صورت میں کامیاب ہوتی ہیں جب ہم اپنے رویوں، طرز عمل اور طرز حکمرانی میں عام آدمی کو بنیاد بنا کر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔

یہ کام محض قانون سازی سے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ماضی میں بھی بہت سے قوانین کی موجودگی کے باوجود کچھ نہیں ہوسکا۔ ہمیں اس کے لیے ایک سیاسی تحریک کی ضرورت ہے او ریہ تحریک سیاسی جماعتوں او راہل دانش کی طرف سے اٹھنی چاہیے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنائیں۔ اس کا ایک نکتہ آغاز مقامی حکومت کے نظام سے جڑا ہے جسے زیادہ خود مختار او ربا اختیار بنانا ہوگا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عام آدمی کو بنیاد بنا کر ہم حکمرانی کے نظام کو زیادہ شفاف بناسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).