عبیداللہ بیگ، پھر تیری یاد آئی!


جس طرح دنیا میں کروڑوں انسان ہیں لیکن ہر ایک کا چہرہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اسی طرح اہل علم کی شخصیات کو دیکھیں تو ایک سے بڑھ کر ایک شخصیت نظر آتی ہے تاہم ہر ایک کا اپنا انداز جدا گانہ۔ علمی شخصیات کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ ان سے معاشرے کے کتنے لوگوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے، کیونکہ اہل علم کے لئے شعور و آگاہی کے سفر کو آگے بڑہانے میں یہی بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

جون کا مہینہ آتے ہی پاکستان کی ایک مائیہ ناز علمی و ادبی شخصیت، دانشور، تاریخ دان عبیداللہ بیگ کی یاد آئی۔ ان کا مسکراتے چہرے کے ساتھ باتیں کرنے کا انداز دلنشین تھا۔ ایسی شخصیت کہ جس کی صحبت سے اٹھنے کو دل نہیں کرتا، اس کی باتیں اتنی دلچسپ اورمعلوماتی کہ دل نہیں کرتا کہ محفل برخاست ہو۔

عبیداللہ بیگ کی ساتویں برسی 22 جون کو منائی جارہی ہے۔ بیگ صاحب 2012 کو 76 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔ ان کی وفات حقیقی معنوں میں پاکستان کا ایک بڑا اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ان کی ذات نوجوانوں بلکہ سب ہی کے لئے علمیت کے ایک قیمتی خزانے کی مانند تھی۔ ان کی کثیر الجہت شخصیت اردو علم و ادب کے شیدائیوں کے لئے ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔ بلاشبہ وہ ایسی شخصیت تھی جسے اردو کے قدر دان فخر سے کسی بھی مقابلے میں سرخرو ہی دیکھتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، شاعری و ادب میں کمال فن عبیداللہ بیگ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ بات کرنے کا انداز بھی منفردو دلچسپ تھا۔

عبیداللہ بیگ 1936 رام پور میں پیدا ہوئے۔ عبیداللہ بیگ نے 1961 میں ریڈیو کمپیئرنگ سے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ پی ٹی وی کے پروگرام کسوٹی سے وہ با العموم عوام میں وسیع پیمانے پر متعارف اور مقبول ہوئے۔ وہ ماحولیات سے متعلق ایک عالمی ادارہ سے بھی منسلک رہے۔ عبیداللہ بیگ کو قومی سطح پہ کئی ایوارڈ اور اعزازات ملے لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بیگ صاحب جیسی شخصیات ایوارڈ کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ ایسی شخصیات سے منسلک ہونا اس اعزاز کے لئے باعث افتخار ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت، خدمات اور مختلف شعبوں میں ان کا وسیع کام مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کے لئے اہم رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔

غالبا یہ 1996 کی بات ہے کہ مجھے ایک صحافی کی حیثیت سے ملک کی معروف شخصیت عبیداللہ بیگ کا ایک خط ملا جس میں مجھے تقریبا دس دن کی ایک ورکشاپ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ پانوس انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ لندن، شرکت گاہ کراچی اور سنگی فانڈیشن ہزارہ کے تعاون سے ماحولیات کے موضوع پر اس ورکشاپ کے لئے تمام شرکا اسلام آباد اکٹھے ہوئے۔ ورکشاپ میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر سے صحافی شریک تھے۔ شرکاء کو ایبٹ آباد لیجایا گیا جہاں ہوٹل گرینز میں کئی دن قیام رہا۔ ورکشاپ میں غازی، ایبٹ آباد اور بالا کوٹ کا دورہ بھی شامل تھا۔ اس دوران صبح سے رات دیر تک ماحولیات کے مختلف موضوعات پر کام چلتا رہتا۔

ورکشاپ کے آخری دنوں عبیداللہ بیگ کراچی سے ایبٹ آباد پہنچے اور کئی دن ہمارے ساتھ رہے۔ یہ ساتھ کیا تھا، یوں سمجھ لیں کہ سونے کے علاوہ ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ عبیداللہ بیگ صاحب نے ہمیں ماحولیات سے متعلق گھنٹوں طویل لیکچر دیے، سوال و جواب کی طویل نشستیں ہوئیں۔ عبداللہ بیگ صاحب کی باتوں میں سب اتنی دلچسپی لیتے تھے اور معلومات و تجربے کے قیمتی موتی سمجھتے ہوئے نہایت انہماک سے ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے۔ سب چاہتے تھے کہ عبداللہ بیگ صاحب کے ساتھ گزارا گیا یہ وقت اپنی زندگی کے لئے یادگار بنا لیں۔ پر فخرعلمی شخصیت کی محدود وقت کی صحبت کی قدر ہم نے یوں کی کہ رات دو تین بجے تک کانفرنس ہال میں عبیداللہ بیگ صاحب کی ساتھ محفل سجتی اور اگلی صبح آٹھ بجے سب تیار ہو کر پھر اکٹھے ہو کر کام شروع کر دیتے۔

ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کے فرزند، سنگی فانڈیشن کے سربراہ عمر اصغر خان نے بھی ہمیں چند لیکچر دیے۔ (عمر اصغر خان چند سال بعد کراچی میں پراسرار طو ر پر ہلاک ہو گئے تھے) عمر اصغر خان کے ایک لیکچر کے بعد ہمیں الگ الگ خبر بنانے کو کہا گیا۔ عمر اصغر نے لیکچر کے دوران بتایا کہ ورلڈ بنک کے صدr نے ان کے خط کے جواب میں لکھا ہے کہ غازی بروتھا ڈیم ایک بڑا پراجیکٹ ہے اور اس کے جاری رہتے ہوئے عالمی بنک پاکستان کو ایسے کسی بڑے منصوبے کے لئے فنڈ نہیں دے سکتا۔

میں نے اسی بات کے حوالے سے خبر بنائی کہ ورلڈ بنک نے کالا باغ ڈیم کے لئے فنڈز دینے سے انکار کر دیا ہے۔ عبداللہ بیگ صاحب کو یہ خبر دکھائی تو وہ چونک گئے اور مجھ سے پوچھا کہ تمھیں معلوم ہے کہ یہ کتنی بڑی خبر ہے اور اس کے نتائج ملک میں کیا ہو سکتے ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں میں اس خبر کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ اس پر بیگ صاحب سے تین بار اپنی وہی بات دہرائی، اس پر میں نے کہا جی ہاں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ خبر فلیش نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے ملک میں یہ چلن ہے کہ بات کے بجائے اس کے کہنے والے کو اہمیت دی جاتی ہے۔

رات کو کھانے کے بعد بیگ صاحب کے ساتھ کسوٹی، بیت بازی اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیاں رات گئے تک چلتی رہتیں۔ آنکھیں نیند، تھکن سے سرخ ہو جاتی تھیں لیکن دل بھرتا ہی نہ تھا۔ کسوٹی کے دوران میں نے اس پستول کا سوچا جس سے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیا گیا تھا تو بیگ صاحب نے چھ سوالوں میں بوجھ لیا، میر واعظ عمر فاروق کی شخصیت کا سوچا تو آٹھ سوالوں میں انہوں نے بوجھ لیا۔ کسی بھی علاقے کی تاریخ وتمدن، لوگوں اور ہرطرح کی معلومات ان کی شخصیت کو جادوئی بنا دیتی تھی۔ ایسی ہی ایک رات بیت باری کے دوران لفظ کے مطابق شعر سنانے کے دوران میں نے اپنا ایک شعر بھی سنا ڈالا،

اک موت ہی نہیں ہوتی ممکن

ہم نے ماتم کے سماں ہزار کیے ہیں

اس شعر پر بیگ صاحب نے والہانہ انداز میں داد دی۔

ایک دن ماحولیات پر ایک لیکچر کے دوران بیگ صاحب نے کہا کہ اقتصادی فائدے کی وجہ سے ہی کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس بات سے ان کشمیریوں کے دل زخمی ہو گئے ہیں جو مادی مفادات سے بالاتر ہو کر نظرئیہ پاکستان کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ بیگ صاحب نے وضاحت کی کہ ہر معاملے کے پس پردہ معاشی محرک ہی ہوتا ہے۔ لیکچر کے بعد دوپہر کے کھانے کے دوران بیگ صاحب نے مجھے بلا کر پاس بٹھایا اور کہا کہ میرے دل میں بھی کشمیر کے لئے بہت جذبات ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی ایک خالہ سرینگر میں رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کشمیر سے پیار اور عقیدت ہے۔ مزید علم حاصل ہونے پر اب میں بھی اس حقیقت کو تسلیم کر چکا ہوں کہ ”ہر معاملے کے پس پردہ محرک معاشی ہی ہوتا ہے“۔

ورکشاپ میں IUCN کے ایک جریدہ کے صحافی عمر آفریدی بھی شامل تھے جو شاید اب ’بی بی سی‘ سے وابستہ ہیں۔ چند دنوں کا یہ ساتھ اور ایسی محفلیں دوبارہ زندگی میں ملیں نہ ملیں، اس کا احساس اتنا حادی تھا کہ جب شرکا ورکشاپ کے اختتام پر واپس اسلام آباد پہنچے تو تقریبا سب ہی بچھڑنے کے اس موقع پر آبیدہ ہو گئے۔ اسی دن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کشمیری علمبردار جلیل اندرابی کے بھارتی فورسز کے ہاتھوں قتل کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو سب نے ہی مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

اس کے چھ یا سات سال کے بعد ایک دن مجھے کراچی سے بیگ صاحب کا ٹیلی فون آیا، وہ کسی موضوع سے متعلق ریکارڈ کی تلاش میں تھے۔ بیگ صاحب اسی سلسلے میں اسلام آباد آئے اور میرے گھر تشریف لائے۔ میرے والد گرامی خو اجہ عبدالصمد وانی کو ا س وقت وفات پائے دو تین سال گزر چکے تھے۔ میں نے عبیداللہ بیگ صاحب کو خواجہ عبدالصمد وانی مرحوم کی ذاتی لائیبریری کی مختلف موضوعات کی کتب، تاریخی دستاویزات وغیرہ دکھائیں، بیگ صاحب ریکارڈ دیکھتے جاتے اور ہائے ہائے کرتے جاتے۔

میں پوچھا کہ کیا ہوا جناب، تو جواب ملا تمھیں کیا معلوم تمھارے والد صاحب کیا تھے، علم و ادب اور تاریخ کا یہ خزانہ اس شخصیت کا تعارف کراتی ہے جو تمھارے والد تھے۔ بیگ صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ خواجہ عبدالصمد وانی صاحب سے ان کی زندگی میں ملاقات نہ کر سکے۔ وانی صاحب کی ذاتی کلکشن دیکھ کر وہ یوں تڑپ اٹھے کہ مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ علمیت کے لئے تڑپ کیا ہوتی ہے۔ اس کے بعد گردش ایام میں یوں رہے کہ دوبارہ بیگ صاحب سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔ ان کے انتقال کی خبر سے ان کے ساتھ گزرا وقت ذہن میں گونجے لگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).