صرف ”میڈ۔ ان۔ پاکستان“ خریدیں


پاکستان معیشت کے تمام شعبوں میں خسارہ ہی خسارہ نظر آتا ہے لیکن تجارتی خسارہ تو اتنا بڑا لگتا ہے جیسے کہ یہ پورے ملک کو ہڑپ کرلے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری پاکستانی قوم اسے کم کرنے کے لیے متحد ہوجائے۔ پوری دنیا اب عالمگیریت سے پیچھے ہٹ رہی ہے اور اپنی اپنی قومی معیشتوں کو سنبھالا دینے کی کوشش کررہی ہے۔ سب سے بڑی معیشت نے بھی سابق صدر بش کے زمانے سے ”میڈان امریکہ“ کی طرف توجہ دینا شروع کردی تھی۔ امریکہ نے کئی ملکوں سے آنے والی اشیاء پر درآمدی ٹیکس لگادیا تھا اور آج کل بھی ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور چین ایک دوسرے کی درآمدی اشیاء پر پابندیاں لگارہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ کئی سالوں سے شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ایسی تجارتی جنگیں ہی بڑھ کر اکثر تباہ کن جنگوں میں بدل جاتی ہیں۔ دونوں عالمگیرجنگوں کے پیچھے بھی تجارتی اور معاشی مفادات ہی تھے۔

تمام پاکستانیوں کو اپنے ملک کے تجارتی خسارے کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ حکومت تو جوکچھ کرے گی وہ تو ایک دودن میں بجٹ میں نظر آجائے گا لیکن عوام کو اپنے طور پر بھی جاگنا چاہیے۔ ہم اپنی درآمدات کو 2 حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ معیشت کی ترقی کے لیے لازمی اشیاء اور عوامی خواہشات پوری کرنے کے لیے اشیاء۔ ایسی اشیاء جو معیشت کو چالو رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے درآمد کرنا ضروری ہیں ان کو توہم گھٹا نہیں سکتے لیکن دوسری فہرست پر ہم گہری نظر ڈال سکتے ہیں۔

لازمی اشیاء میں آئل اور گیس، مشینری اور کمپیوٹر آلات، الیکٹریکل آلات، آئرن اور سٹیل، بائیوکیمیکلز اور دیگر صنعتوں میں استعمال ہونے والے خام مال شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان درآمدات کا ٹوٹل 34 ارب ڈالر کے قریپ بنتا ہے۔ ان میں بڑا آئٹم آئل اور گیس ( 17.1 ) ارب ڈالر کے قریب ہے۔ گیس کی درآمد بھی چند سال سے شروع ہوئی ہے، اس سے پہلے آئل ہرسال تقریباً 13 ارب ڈالر کا درآمد ہوتا تھا۔ گزشتہ چند ماہ سے ڈالر کا ریٹ چڑھنے سے تمام درآمدات کے بل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

باقی ماندہ درآمدات جو 16 ارب ڈالر کے قریب بنتی ہیں ان کی مقدار کو پاکستانی عوام کا فی کم کرسکتے ہیں۔ جب بھی پاکستانی مردوخواتین مارکیٹوں کا رُخ کرتے ہیں تو ان کی نظر غیر ملکی اشیاء پر پڑتی ہے اور رجحان بھی یہ ہی بنتا جارہا ہے کہ دوسرے ممالک کی بنی ہوئی اشیاء خریدی جائیں حالانکہ اسی کے ساتھ ہی پاکستانی اشیاء بھی پڑی ہوتی ہیں ہمیں اس کلچر کو بدلنا ہوگا۔ لوگوں کو چاہیے کہ ”میڈان پاکستان“ کی طرف توجہ دیں اور اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔ پاکستانی لیبلز اور برانڈ کو اہمیت دیں، پاکستان میں ہر طرح کے کپڑے تیار ہوتے ہیں جب پاکستان دنیابھر میں تیار شدہ اور کورس کلاتھ میں مصروف ہے تو آخر پاکستانی مردوخواتین دوسرے ملکوں کے تیار شدہ کپڑے کیوں خریدتے ہیں۔

پاکستان میں عام استعمال ہونے والی اشیاء ہئیرآئل، صابن، کاسمیٹک، کوکنگ آئل وغیرہ کسی شے کی بھی کمی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی پاکستانی اشیاء کو خریدنا ترجیح اول پر رکھا جائے ایسے ہی کولڈ ڈرنک، تیار گاڑیاں اور بجلی کا سامان بھی پاکستانی کمپنیاں تیار کرتی ہیں لیکن پاکستانیوں کی توجہ اب بھی غیرملکی ڈرنکس کی طرف ہوتی ہے۔ کوکاکولا اور پیپسی کے متبادلات اب پاکستان میں دستیاب ہیں، درآمدہ شدہ گاڑیاں تقریباً 2.6 ارب ڈالر مالیت کی ہوتی ہیں حالانکہ اب دہائیوں سے جاپان اور کوریا والوں نے یہاں کارخانے لگارکھے ہیں، چین بھی اب پاکستان میں آکر گاڑیاں تیار کررہا ہے ان کارخانوں میں پاکستانی خام مال بڑی مقدار میں استعمال ہوتا ہے، مزدور بھی پاکستانی کام کرتے ہیں، پاکستانیوں کو درآمدشدہ جاپانی گاڑیوں کی بجائے اپنے ہاں کی تیار شدہ گاڑیاں خریدنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔

میری حکومت سے گزارش ہے کہ تیار جاپانی گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی لگادی جائے یوں 2.6 ارب ڈالر کا زرمبادلہ سالانہ بچے گا۔ یہ مطالبہ پاکستان میں گاڑیاں تیارکرنے والوں کا بھی کئی سالوں سے چلاآرہا ہے۔ چمڑے کا سامان بھی پاکستان میں بڑا معیاری تیار ہوتا ہے لیکن مارکیٹوں میں دوسرے ملکوں کی مصنوعات کی موجودگی میں پاکستانی اشیاء جیسے جیکٹس اور بیگز کی طرف مرد و خواتین کی توجہ کم ہی جاتی ہے۔ جب ہم خود ایسی اشیاء تیار کرکے دوسروں کو فروخت کرتے ہیں تو اپنے ملک میں تو اپنی تیار اشیاء خریدیں اور استعمال کریں۔

جس مارکیٹ میں بھی نظر دوڑائیں غیرملکی اشیاء کی بھر مارنظرآتی ہے، چینی اشیاء نے تو پاکستان کی کئی صنعتیں تک بندکرادی ہیں کتنے معروف تھے پاکستانی جوتے لیکن اب چین نے اس شعبہ پر قبضہ کرلیا ہے ایسے ہی پاکستانی کھلونے بھی ہماری ضروریات پوری کررہے تھے لیکن اب تو ہر روز کئی کئی کنٹینرز کھلونوں کے چائنا سے آرہے ہیں۔ کھلونوں کی پاکستانی صنعتکو قائم رکھنے کے لئے پاکستانیوں کو اپنے ملک کے بنے ہوئے خریدنے چاہیے۔

اور چینی کھلونوں پر ڈیوٹی لگنی ضروری ہے۔ مجھے یادہے جب میں نے 70 ء کی دہائی میں اپنے ہوم ٹاؤن جھنگ میں گھر بنایا تھا توPPIکی الیکٹرک کی اشیاء استعمال کی گئی تھیں۔ لیکن اب تو ہرطرف چائنا ہی چائنا ہے۔ عوام اور حکومت دونوں کو اپنی صنعتیں بچانے کے لئے کھلم کھلا اقدامات کرنے چاہیے۔ عوام اپنے ملک کے برانڈ خریدیں۔ اورحکومت درآمدات پرڈیوٹی بڑھائے۔ امید ہے آج بجٹ میں اعلان بھی ہوجائے گا۔ یوں ہماری اپنی صنعت بھی زندہ ہوگی اور زرمبادلہ بھی بچے گا۔

پاکستانی الیکٹرانک آلات، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، کٹلری، قالین، کمپیوٹر ہارڈ وئیر اور سافٹ فئیر ہرچیز ہمارے ملک میں اب تیار ہو رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ پاکستانی ”میڈ۔ ان۔ پاکستان“ کو ترجیح دیں۔ ایسے ہی اگردرآمدہ خوراک کے آئیٹم پر نظر ڈالیں توبہت سی اشیاء صرف اور صرف امراء کا ذوق شوق پورا کرنے کے لئے درآمد کی جارہی ہیں۔ پاکستان دودھ پیداکرنے والا دوسرابڑا ملک ہے۔ لیکن بند ڈبوں کادودھ اور دودھ کی دوسری مصنوعات بھی منڈیوں میں بے شمار پڑی ہیں۔

خوراک کی اور بھی اشیاء بڑے پیمانے پر درآمد کی جارہی ہیں۔ تمام پاکستانیوں کو پاکستان میں پیدا شدہ اور تیار شدہ خوراک استعمال کرنی چاہیے۔ فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں کے بعد خوراک اب بہتر ہوگئی ہے۔ جب پاکستانی صرف اپنے ملک کی پاکستانی خوراک خریدیں گے توغیر ملکوں سے خوراک آنا بھی بند ہوجائے گی۔ اور بھی بے شمار شعبہ جات ایسے ہیں جہاں ہم اپنے ملک کی اشیاء خرید کر قیمتی زرمبادلہ بچاسکتے ہیں۔ 30۔ ارب ڈالر کے قریب تجارتی خسارے کو پاکستانی متحد ہوکر گھٹا سکتے ہیں۔

حکومت اپنا کام کرے اور عوام اپنا کام کریں۔ WTO کے قوانین میں بھی ہر ملک کے مفادات کا خیال رکھاگیا ہے۔ ان قوانین کا اطلاق 2005 ء سے ہوچکا ہے۔ ”میڈ ان پاکستان“ خریدو کو ایک قومی مہم بنانا ضروری ہے۔ میڈیا چاہے وہ الیکٹرانک ہو پرنٹ ہو یا سوشل ہر طرف یہ مہم نظر آئے۔ اور سالہاسال چلتی رہے۔ تجارتی خسارہ چند سالوں میں ہی کم ہوجائے گا۔ اس مہم سے پاکستانی روپیہ کو بھی سپورٹ ملے گا۔ اس کی قدر مستحکم ہوجائے گی۔ پاکستانی قوم متحد ہوکر اپنے ملک کے لئے قربانی دے توہر کام ممکن ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).