زرداری کی گرفتاری: بحران میں گھری حکومتی کشتی کا بھاری پتھر


سابق صدر آصف زرداری کی گرفتاری کے ساتھ ہی ملک کے سابق وزیر اعظم کے علاوہ سابق صدر بھی اب زیر حراست ہیں۔ یعنی پنجاب اور سندھ کی مقبول پارٹیوں کے اہم لیڈر نواز شریف اور آصف زرداری بالترتیب نیب کے قائم مقدمہ میں سزا پانے اور اسی ادارے کی طرف سے الزامات کی وجہ سے قید کئے گئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور ’ سب چوروں کو لٹکا دیں گے‘ پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔

یہ درست ہے کہ یہ گرفتاری وزیر اعظم یا تحریک انصاف کی مرکزی یا صوبائی حکومت کے حکم پر عمل میں نہیں آئی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد حکومت کو ’ہراساں ‘ کرنے کے لئے یہ فوری قدم اٹھایا ہو۔ کیوں کہ اس معاملہ میں ہی آصف زرداری کی بہن فریال تالپور بھی مطلوب ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی درخواست ضمانت بھی آصف زرداری کی درخواست کے ساتھ ہی مسترد کی ہے لیکن نیب نے ان کی گرفتاری کا اہتمام نہیں کیا۔ اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ زرداری کی گرفتاری کا کسی مقدمہ میں شواہد ختم کرنے کے اندیشے یا تحقیقات کی ضرورت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ نیب کی طرف سے یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ کوئی بھی اس کی دسترس سے محفوظ نہیں۔

نیب کے چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال خود بھی اپنے فرمودات اور راز ہائے دروں خانہ کی وجہ سے گزشتہ دنوں خبروں میں رہے ہیں جن میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ چئیر مین نیب اگر چاہیں تو وہ حکمران جماعت کے اہم لوگوں کی گرفتاری کا حکم دے کر پل بھر میں حکومت گرانے کی ’طاقت‘ رکھتے ہیں۔ لیکن وہ ملک میں سیاسی بحران پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ اس حوالے سے خاص طور سے انہوں نے وزیر دفاع کی خراب صحت کا حوالہ بھی دیا تھا۔

 تاہم جسٹس (ر) جاوید اقبال کے معروف زمانہ انٹرویو اور دھماکہ دار پریس کانفرنس کے چند ہی دنوں بعد وزیر اعظم کے ایک مشیر اور خصوصی دوست کے ٹی وی چینل پر چئیر مین صاحب کی رنگین مزاجی کا کچھ قصہ بیان ہؤا تھا جس کے بارے میں ’باخبر ذرائع‘ یہ قیاس کر رہے تھے کہ اس میں حکمران جماعت کا ہاتھ ہے کیوں کہ عمران خان دھمکیاں دینے والے عہدیداروں کو برداشت کرنے کی شہرت نہیں رکھتے۔ ان افواہوں کے غلط یا درست ہونے کا الزام تو درون خانہ حالات جاننے والوں کے سر ہی جائے گا۔ تاہم جسٹس صاحب کے خلاف خبر لیک کرنے میں اگر واقعی تحریک انصاف کے محبان کا ہاتھ تھا تو آج نیب نے عجلت میں آصف زرداری کو گرفتار کر کے اپنے چیئرمین کی توہین کا انتقام ضرور لے لیا ہے۔ کیوں کہ نیب کی اس کرنی کا بوجھ بہر حال حکومت کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

یوں تو عمران خان اور ان کے شعلہ بیان حامی شیخ رشید بھی نواز شریف کے بعد آصف زرداری، شہباز شریف اور پھر ان کے بچوں سے جیلیں بھرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے، اس کی بنیادی وجہ شریف و زرداری خاندانوں کی لوٹ مار ہے۔ اسی لئے آج قومی اسمبلی میں جب پیپلز پارٹی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانبداری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو بولنے کا موقع دینے کا مطالبہ کر رہی تھی تو ڈپٹی اسپیکر، شیخ رشید کے اس حق کا دفاع کرنے میں مصروف تھے کہ انہیں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کا جواب دینے کا موقع ملنا چاہئے۔

اس ہنگامہ آرائی کے دوران شیخ رشید نے اصل نکتہ پر اپنی وضاحت تو پیش نہیں کی لیکن یہ دعویٰ ضرور کر دیا کہ اب اس ملک میں بدعنوانوں کے جنازے نکلیں گے۔ مالی بدعنوانی، منی لانڈرنگ یا سرکاری عہدے کا غلط استعمال ضرور غیرقانونی ہے اور اس کا احتساب بھی ہونا چاہئے لیکن شیخ رشید جب قومی اسمبلی کے فلور پر اپنے سیاسی دشمنوں کے جنازے نکالنے کا اعلان کرتے ہیں تو دراصل وہ وزیر اعظم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر، نادان دوست ہونے کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

ایک تو کسی بھی مالی الزام میں کسی بھی شخص کو ملک کے کسی بھی قانون کے تحت موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ دوسرے قومی اسمبلی متفقہ طور پر بھی ایسا کوئی قانون منظور نہیں کرسکتی کہ فلاں شخص کو موت کی سزا دے کر اس کا جنازہ نکال دیا جائے کیوں کہ ملک میں محکمہ ریلوے کے وزیر کی یہ خواہش ہے۔ پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے اختیارات خود سیاست دانوں اور حکمرانوں نے نادیدہ قوتوں کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم تمام تر آئینی اختیار کے باوجود پارلیمنٹ کسی فرد کو سزا دینے یا اس کی سزا معاف کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ یہ کام بہر حال ملک کی عدالتوں کو ہی کرنا ہے۔ سب اس اصول کو مانتے ہیں اور نواز شریف ہوں یا آصف زرداری وہ نیب اور حکومت کی نیت پر سوال اٹھانے کے باوجود عدالتوں سے ہی انصاف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایسے میں جب شیخ رشید جیسا گھاک اور تجربہ کار سیاست دان آصف زرداری کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی کے اراکین کے احتجاج کو سننے کی بجائے مخالفین کے جنازے نکالنے کا پیغام دیتا ہے تو وہ اس تاثر کو یقین میں بدلتا ہے کہ نیب کے سارے اقدامات دراصل حکومت وقت کو سہولت بہم پہنچانے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ آصف زرداری کی گرفتاری بھی اسی سیاسی انتقام کی پالیسی کا حصہ ہے۔ یوں جو کارنامہ نیب نے سرانجام دیا ہے اور حکومت کا نہ اس میں کوئی کردار ہے اور نہ ہی اسے اس کا کوئی فائدہ ہوگا لیکن قومی اسمبلی میں شیخ رشید کی بڑک بازی کی وجہ سے اس کا سارا بوجھ عمران خان اور ان کی حکومت کو اٹھانا پڑے گا۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری کی گرفتاری پر بجا طور سے یہ سوال کیا ہے کہ جب آصف زرداری ہر معاملہ میں تعاون کر رہے ہیں اور ہر طرح سے نیب کے سوالوں یا تفتیش کا جواب دینے کے لئے حاضر رہتے ہیں تو انہیں ایک مقدمہ کی تحقیقات کے لئے گرفتار کرنا نیب کی بدنیتی ہے۔ حکومت کے نمائندوں اور ہمدردوں کو اس صورت میں یا تو شہباز شریف کے مؤقف کی حمایت کرکے اپنی لاتعلقی کا اعلان کرنے کی ضرورت تھی یا پھر اس کے نمائندے ذمہ دار لوگوں کی طرح اس پر خاموشی اختیار کرتے تاکہ لوگ خود یہ اندازہ کرلیں کہ نیب ایک خود مختار ادارہ ہے جس کی کارروائی پر تحریک انصاف کی حکومت کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ لیکن ’زبان کے رس‘ کی علت میں مبتلا موجودہ حکومت اور اس کے نمائیندے اپنی حرکتوں اور طرز تکلم سے ان گناہوں کا سہرا بھی اپنے سر باندھنے میں اتاولے رہتے ہیں جوان سے سرزد نہیں ہوتے۔ بات کرتے ہوئے اس کے مضمرات سے بےخبری سیاسی لحاظ سے سود مند نہیں ہوا کرتی۔

بجٹ پیش کرنے سے ایک روز پہلے آصف زرداری کی گرفتاری حکومت کے لئے نئی مشکلات کا سبب بنے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نئے بجٹ کو بچت کا بجٹ قرار دے چکے ہیں۔ سات آٹھ سو ارب روپے کے نئے ٹیکس و محاصل عائد کرنے کے اشارے بھی دیے گئے ہیں۔ اپوزیشن ماہ رمضان کے دوران ہی بجٹ کے بعد تحریک چلانے کا عندیہ بھی دے چکی تھی۔ بجٹ سے پیدا ہونے والی مالی مشکلات پر جو عوامی غم و غصہ سامنے آئے گا، نواز شریف کی مسلسل قید اور آصف زرداری کی گرفتاری، اسے دو چند کرنے کا سبب بنے گی۔ اپوزیشن غصے کی اس لہر کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ صورت حال کو خراب کرنے میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیج کر اسے بھی پورا کر لیا گیا ہے۔ ملک بھر کے وکیل ججوں کے خلاف حکومت کے ریفرنسز سے بھڑکے ہوئے ہیں کیوں کہ وہ اسے عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ تصور کرتے ہیں۔

جیسا کہ ملک کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیمبرج یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران کہا ہے کہ ججوں کے خلاف مس کنڈکٹ کا فیصلہ ججوں کو ہی کرنا ہے۔ ججوں کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی کرے گی۔ اگر کونسل حکومت کے ریفرنس مسترد کردیتی ہے تو بھی حکومت کو ہی اس الزام کا سامنا کرنا ہوگا کہ وہ خودمختار ججوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ اور اگر ججوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو بھی حکومت ہی وکیلوں اور خودمختار عدلیہ کے حامیوں کے نشانے پر ہوگی۔

وزیر اعظم کو سوچنا چاہئے کہ وہ تن تنہا کتنے طوفانوں کا سامنا کرسکتے ہیں؟ اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاریوں، بجٹ کے بوجھ اور ججوں کے ریفرنسز کے علاوہ اگر پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ معاملات بگڑتے ہیں تو حکومت پوری طرح بے سہارا ہوجائے گی۔ پتوار کے بغیر عمران خان اقتدار کی کشتی کو کتنے روز تک چلا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali