چونا منڈی کا لڑکا (حصہ دوم)


پہلا حصہ پڑھنے کے لئے ذیل کے لنک پر کلک کیجئے

https://www.humsub.com.pk/245382/wusat-ullah-khan-45/

انیس سو چھتر تک ذوالفقار علی بھٹو ان تمام لوگوں سے ایک ایک کر کے کٹ چکے تھے جن کے خوابوں کی پالکی پر بیٹھ کر وہ اقتدار کے حجلہِ عروسی میں چار برس پہلے داخل ہوئے تھے۔ اسی آخری دور میں ڈاکٹر انور سجاد پارٹی کی تنظیمِ نو کے لیے لاہور پیپلز پارٹی کے رابطہ کار سیکریٹری بنائے گئے۔ ان کی اسلم گورداسپوری جیسے آدرشی سے سب سے زیادہ چھنتی تھی۔ پھر مارچ انیس سو ستتر کا الیکشن آ گیا اور پھر پانچ جولائی کو مارشل لا لگ گیا۔ پاکستان کی پہلی اور آخری سوشلسٹ حکومت لپٹ گئی۔ کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج ساہنوں مرن دا شوق وی سی۔

ڈاکٹر انور سجاد بھی ضیا کے ابتدائی دور میں تین بار پونے دو برس کی مجموعی مدت کے لیے جیل گئے۔ ان پر ٹی وی کے دروازے ہی بند ہوگئے۔

ہوا یوں کہ انھوں نے ایک ڈرامہ لکھا پکنک۔ اس کے ایک منظر میں جاگیر دار باپ بیٹے سے کہتا ہے ”بندوق رکھ دو۔ تم میں عقل نہیں ہے“۔ بیٹا جواب دیتا ہے ”بابا جس کے پاس عقل کم ہو اس کا باقی کام بندوق سے چل جاتا ہے“۔ بس پھر کیا تھا۔ چھان پھٹک ہوئی، اسکرپٹ کلئیر کرنے والوں کی شامت آئی، پروڈیوسر پر افتاد ٹوٹی اور ایم ڈی پی ٹی وی آغا ناصر کی بھی گوشمالی ہو گئی۔

اس کے بعد چونا منڈی کا کلینک اور لکھت بچ گئے۔ گرفتاری کے بعد انھیں اور اسلم گورداسپوری کو کوٹ لکھپت جیل میں اس کوٹھڑی میں رکھا گیا جس کے سامنے والی بیرکس میں بھٹو صاحب تھے۔ زاہد ڈار نے ایمانویل کزاکووچ کی لکھی لینن کی سوانح عمری کا ایک حصہ لا کر دیا۔ جسے قید کے دوران ہی انور سجاد نے تیزی سے ترجمہ کیا۔ نیت یہ تھی کہ بھٹو صاحب کو ان کی سالگرہ کے موقع پر پیش کی جائے۔ مگر تب تک بھٹو صاحب اڈیالہ منتقل کیے جا چکے تھے اور انور سجاد باہر آچکے تھے۔ نیلی نوٹ بک انیس سو بیاسی میں شایع ہوئی۔

بھٹو جب منظر سے ہٹ گئے تب انور سجاد کو ان کی شخصیت اور دور کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے سانس میسر آئی۔ ان کا خیال تھا کہ نیشنلائزیشن کا عمل جلد بازی میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیا گیا۔ اس کے سبب جتنی معیشت متاثر ہوئی اس سے کہیں زیادہ تعلیمی معیار کو دھکا لگا۔ اور پھر تعلیم کبھی اپنے قدموں پر نہ اٹھ سکی۔ تعلیم کمزور ہوتی ہے تو اس کا بھگتان کلچر کو بھوگنا پڑتا ہے۔ رفتہ رفتہ جہل آگہی کا متبادل قرار پانے لگتا ہے اور کلچر بھی اغوا ہو جاتا ہے اور جو مکان کلچر سے خالی ہو جائے وہاں جن بس جاتے ہیں۔

بقول ڈاکٹر صاحب طبقاتی لڑائی چھیڑنے کی کوشش تو ہوئی مگر اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے بجائے بیچ میں ہی چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ زخم خوردہ حکمران اشرافیہ نے بھٹو کو ہی نگل لیا۔ بغاوت اپنے جوہر میں ایک مثبت عمل ہے مگر بغاوت کے بعد اسے انارکی سے بچانے کے لیے مسلسل نظریاتی ویکسینیشن نہ کی جائے تو پھر آخری فتح ردِ عملی قوتوں کی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر انور سجاد کا پہلا پیار ادب و فنونِ لطیفہ ہی رہا۔ انھوں نے اپنے سیاسی دورانیے کو تخلیقی سفر کے ضمیمے کے طور پر ہی دیکھا اور برتا۔ مثلاً انیس سو اکیاسی میں شایع ہونے والا ناولٹ خوشیوں کا باغ۔ اگر اسے دھیان سے انور سجاد کی نثری شرائط کے تحت پڑھا جائے توتیسری بار میں استعاراتی سرنگوں میں بھٹکنے کے بعد کہیں جا کے کھلتا ہے کہ اس ناول کا محور تو تیسری دنیا اور بھٹو ہے۔

انور کو ان کی شارٹ اسٹوریز اور ناولٹس کے ضمن میں ایک طعنہ زندگی بھر کلیشے کی طرح سہنا پڑا۔ آپ مشکل پسند ہیں، مختصر پسند ہیں، تجریدی نثر نگار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ انور اس کا دفاع یوں کرتے رہے کہ میں فیوچرسٹک رائٹر ہوں۔ ظاہری کرداروں کے باطن میں بھی ایک حقیقت پوشیدہ ہے۔ اگر کسی قاری کے تار اس کی اپنی باطنی حقیقت سے نکل کر میری تحریر سے جڑ جائیں تو پھر سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ اس مشکل پسند تاویل کو انور ”انٹر سبجیکٹو رئیلٹی“ کہتے تھے۔

بقول انور جب ضیا دور آیا تو بہت سے لوگ کہنے لگے یار اب تمہاری کہانیاں سمجھ میں آنے لگی ہیں۔ میں نے کہا جب سر پر پڑتی ہے تو سب سمجھ میں آنے لگتا ہے۔

انور سجاد اس لیے بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہی طے نہیں تھا کہ اصل میں وہ کون ہے اور اس کی وائرنگ کہاں سے شروع ہو کر کس سوئچ پر ختم ہوتی ہے؟ کہانی کار، ڈرامہ نگار، استاد، مصور، شاعر، رقاص، اداکار، ٹرینر یا کچھ اور۔ اور ان سب کا آپس میں کیا سمبندھ ہے۔

اس معمے کا انور کے پاس بس یہی جواب تھا کہ جس طرح سرجن کو آپریشن کے لیے ہر طرح کے اوزاروں کی کسی بھی وقت ضرورت پڑتی ہے اور وہ سامنے پڑی ٹرے میں سے اٹھا لیتا ہے، اسی طرح ایک تخلیق کار کو بھی اپنے اظہار کے لیے طرح طرح کے اوزار درکار ہوتے ہیں۔ میرا مسئلہ سب سے اونچے پائیدان پر بیٹھنا نہیں بلکہ اندر کے کرب سے نجات حاصل کرنا اور اسے خود سے سمجھنے کے لیے کسی شکل میں ڈھالنا ہے۔ کبھی میں کپڑے اتار کے مصوری کرتا ہوں، کبھی انقلابی مقرر اندر سے نکل آتا ہے۔ کبھی رقص ہی مجھے نجات کی صورت نظر آتا ہے اور کبھی کاغذ قلم، کبھی صرف گفتگو اور کبھی لایعنی فراغت میں چھٹکارا دکھائی دیتا ہے۔

انور نے جو کیا اس کی صرف تاویل نہیں پیش کی بلکہ ضرورت نے اس سے یہ سب کروایا۔ مثلاً ڈرامہ لکھنا ہے تو اسکرین پلے بھی سیکھنا پڑے گا۔ لکیر کی فارسی سمجھنی ہے تو ڈرائنگ کے بغیر کیسے سمجھو گے؟ انور نے جب واجد علی شاہ کی ڈرامائی تشکیل کرنا چاہی تو جس جس کو بھی واجد علی شاہ جانِ عالم پیا کا کردار ادا کرنے کو کہا گیا اس نے کہا میں ڈائیلاگ بول لوں گا مگر ناچوں گا نہیں۔

پر بغیر رقص کے واجد علی شاہ کا کردار کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ انور نے فیصلہ کیا کہ اب میں پیٹ بڑھاؤں گا، کتھک کروں گا، واجد علی شاہ بنوں گا۔ چنانچہ غلام حسین کتھک مہاراج کی شاگردی اختیار کی گئی اور پیروں میں گھنگرو بندھ گئے۔ ڈرامہ تو کسی سبب نہ ہو پایا مگر انور کو رقص کی شکل میں نجات کی ایک اور راہ مل گئی۔

انور نے کیا کیا لکھا۔ انھوں نے کس کس ادارے میں تدریس کی، کہاں کہاں ملازمت کی۔ آخری برس کن راحتوں اور کلفتوں میں گزرے۔ یہ آپ کسی بھی سوانح عمری، وکی پیڈیا، کسی چینل کی نیوز ریل یا انور سجاد کے بہانے اپنی سیلف پرموشن کے کسی سوشل میڈیائی بصری ریکٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ( پڑھایا تو مجھے بھی انھوں نے ایک برس ناپا میں۔ مگر مجال ہے کہ کچھ سیکھ کے دیا ہو) ۔

انور کو رخصت کرنے والوں میں کون کون تھا؟ چند محلے دار، دور قریب کے رشتے دار، شریکِ حیات رتی، منور انجم اور خالد چوہدری جیسے پرانے جیالے زیب رحمان، قوی خان، مسعود اشعر صاحب، اصغر ندیم سید، ایرج مبارک، صحافی نور الحسن۔ گویا کل ملا کے پچاس کر لیں۔ اب ہوں گے لاہور، کراچی، اسلام آباد میں کچھ ایئرکنڈیشنڈ تعزیتی ریفرینسز اور وقفے کے دوران یار عمران خان کب تک ہے ٹائپ گفتگو۔

ڈاکٹر انور سجاد کا شاید اپنے ہی بارے میں کہنا ہے،
مدتوں زلف کی راہوں پے بھٹکنے والے
آخرش آ ہی گئے گمشدہ منزل کے قریب

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).