امریکہ بھارت فوجی معاہدہ اور پاکستان


\"edit\"بھارت اور امریکہ نے ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات استعمال کرنے کے معاہدے لی ماؤ LEMAO پر دستخط کر دئے ہیں۔ اس معاہدے کی تفصیلات پر جون میں وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران اتفاق رائے ہو گیا تھا تاہم دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع منوہر پاریکر اور ایشٹن کارٹر نے سوموار کو اس معاہدہ پر باقاعدہ دستخط کئے ہیں۔ اس طرح یہ دونوں ملک ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات استعمال کرنے کے حقدار ہوں گے۔ امریکہ، بھارت کے ہوائی اڈوں اور متعلقہ سہولتوں کو استعمال کر سکے گا۔ بھارت کو بھی کسی مشترکہ دشمن کے خلاف جنگ کی صورت میں امریکی ٹھکانے استعمال کرنے کا حق مل گیا ہے۔ تاہم اگر عملی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو امریکہ نے اس معاہدہ کے ذریعے بھارت کے اڈوں اور فوجی تنصیبات کو استعمال کرنے کا حق حاصل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بھارت کو جنوب چینی سمندروں میں چین کے خلاف محاذ آرائی میں فریق بنا لیا ہے۔ امریکہ مستقبل قریب میں بحر ہند اور بحرالکاہل سے متصل سمندروں میں اپنے بحری بیڑوں کی بڑی تعداد کو متعین کرنا چاہتا ہے۔ اس منصوبے پر عمل کےلئے اس معاہدہ کے تحت اسے بھارت کا مکمل تعاون حاصل ہو گا۔ دونوں ملک مواصلاتی شعبہ میں تعاون کا معاہدہ کسماؤ CISMAO اور انٹیلی جنس کے تبادلے کا معاہدے بیکا BECA پر بھی اتفاق رائے کر رہے ہیں۔ جلد ہی ان دونوں معاہدوں پر بھی دستخط ہونے کی توقع ہے۔

اس طرح گزشتہ دہائی کے دوران بھارتی حکومتوں نے امریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی جس پالیسی کا آغاز کیا تھا، اب وہ پھل دینے لگی ہے۔ بھارت، روس کے ساتھ اشتراک اور غیر جانبداری کی پالیسی کو خیر آباد کہہ کر امریکہ کا باقاعدہ حلیف بن رہا ہے۔ اس طرح وہ چین کے خلاف صرف اپنی علاقائی یا تجارتی منڈیوں کے تسلط کی لڑائی ہی نہیں لڑے گا بلکہ امریکہ، چین کے بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی و تجارتی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کی جس حکمت عملی پر کاربند ہے ۔۔۔۔۔ بھارت اب اس میں باقاعدہ حصہ دار بن چکا ہے۔ بھارتی لیڈر اس معاہدہ کو اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کریں گے لیکن ملک کے مستقبل پر اس کے اثرات کا اندازہ آئندہ ایک سے دو دہائیوں کے درمیان ہو گا۔ امریکہ بحر جنوبی چین میں چین کے توسیع پسندانہ عزائم کا مقابلہ کرنے اور جاپان اور آسٹریلیا کے تحفظ کے لئے بھارت کو ٹرانزٹ ملک کے طور پر اہم سمجھتا ہے۔ نئے فوجی معاہدہ کے تحت اس نے یہ مسئلہ حل کر لیا ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ امریکی ائر فورس اور بحری بیڑے بھارتی تنصیبات اور سہولتوں کو استعمال کر سکیں گے بلکہ کسی بحرانی صورتحال میں بھارت سے ’’مشترکہ دشمن‘‘ کے خلاف جنگ میں عملی مدد کا مطالبہ بھی کیا جا سکے گا۔ اگرچہ فی الوقت ایسی کسی صورتحال کو امکانی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جنگی تیاریاں اور فوجی معاہدے دراصل اسٹریٹجک ضرورتیں اور مفادات پورے کرنے کےلئے کئے جاتے ہیں تاکہ مخالف قوتیں چوکنا ہو جائیں اور یہ جان لیں کہ دوسرا فریق بھی مقابلہ کرنے اور کسی جارحانہ اقدام کو مسترد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

امریکہ جنوب چینی سمندروں میں چین کی طرف سے مصنوعی جزیرے بنانے اور ان پر فوجی اڈے قائم کرنے کی پالیسی سے پریشان ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس طرح چین جاپان سے لے کر خلیج تک کے علاقے میں برتری حاصل کر سکتا ہے۔ نصف دنیا پر چین کا یہ فوجی تسلط امریکہ کو قبول نہیں ہے۔ اسی لئے بھارت کے ساتھ معاملات طے کئے گئے ہیں تاکہ چین کو خبردار کیا جا سکے کہ وہ تن تنہا اس پورے خطے پر اپنی حکمرانی کا خواب نہیں دیکھ سکتا۔ دنیا کی سپر پاور امریکہ بھی ان علاقوں میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کےلئے بے قرار ہے۔ ادھر بھارت بھی چین کے خلاف نئی منڈیوں پر کنٹرول کے معاملہ میں مقابلہ پر اترا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سرحدی چپقلش کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دوریاں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ بھارت یہ محسوس کر سکتا ہے کہ نئے معاہدے کے تحت اب وہ چین کی طرف سے کسی حملہ سے مکمل طور سے محفوظ ہو جائے گا۔

تاہم بھارت اور امریکہ کے درمیان یہ قربت ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں دور رس جیو پولیٹیکل تبدیلیوں کا سبب بنے گی۔ نئے اتحاد قائم ہوں گے اور پرانے معاہدے متروک قرار پائیں گے۔ پاکستان کو بھارت کی نئی قوت اور صلاحیت سے اندیشوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا دہائیوں پرانا حلیف اب اس کا ساتھ چھوڑ کر بھارت کی طرف رجوع کر رہا ہے۔ امریکہ عالمی سفارتی ، سیاسی اور اقتصادی مقاصد کےلئے بھارت کے ساتھ اشتراک کو اہمیت دے رہا ہے۔ دوسری طرف روس بھی یورپ کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں امریکہ کے رسوخ کا مقابلہ کرنے کےلئے نئی پالیسیوں پر کاربند ہے۔ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ روس اور چین اب کئی شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں اور امریکہ روس کے ساتھ شام میں خانہ جنگی بند کروانے کےلئے معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ روس نے شام کے صدر بشارالاسد کی اچانک بھرپور فوجی امداد کے ذریعے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسی طرح چین جنوبی ایشیا میں کثیر سرمایہ کاری کے ذریعے ایک طویل راہداری اور مواصلت کے نئے ذرائع دریافت کرکے نیا اقتصادی اشتراک استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان جو روایتی طور پر بھارت کے ساتھ دشمنی کا رشتہ رکھتا ہے اور جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کی طرح بھارت کا تسلط قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہے ۔۔۔۔۔ نئی صورتحال میں اس کےلئے مشکلات اور اندیشوں کے علاوہ امکانات بھی موجود ہوں گے۔ وہ نئے اشتراک قائم کر سکتا ہے اور اسے نئے حلیف بھی دستیاب ہوں گے۔ تاہم اس کا انحصار اسلام آباد کی حکمت عملی اور سیاسی دانشمندی پر ہو گا۔

بھارت اور امریکہ کے درمیان اشتراک سے بھارت کی فوجی قوت میں اضافہ ہو گا۔ وہ امریکہ کے ساتھ اعلیٰ فوجی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے معاہدے کر رہا ہے اور امریکہ بھی بھارت کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ امریکی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کرکے طیارے اور ہتھیار وہاں پر تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ امریکہ جن مقاصد کےلئے بھارت کے ساتھ دوستی میں اضافہ کر رہا ہے، اس کے دو اہم پہلو ہیں۔ پہلا مقصد جنوب چینی سمندروں میں چین کی توسیع پسندی کو روکنا اور بحر ہند و بحرالکاہل کے علاقوں میں چین کے مکمل تسلط کی روک تھام کرنا ہے۔ اس پالیسی کا دوسرا مقصد ایک ارب سے زائد لوگوں کے ملک بھارت کی منڈیوں پر تسلط حاصل کرنا ہے۔ اس طرح امریکی کمپنیاں ایک طرف بھارت کے صارفین تک مراعات یافتہ رسائی حاصل کرسکیں گی تو دوسری طرف بھارت میں تیار کردہ سستی مصنوعات کے ذریعے وہ چین کی تجارتی برتری کو ختم کرنے کی کوشش بھی کریں گی۔ یہ مقاصد حاصل کرنے کےلئے اگرچہ فوجی تعاون کو بنیاد بنایا جا رہا ہے اور اس علاقے میں بھارت کی دفاعی قوت میں اضافہ کرنے میں مدد بھی کی جا رہی ہے، لیکن مقاصد کی تکمیل امن قائم کرکے ہی ہو سکتی ہے۔ بھارت نے اگر مقبوضہ کشمیر میں انسانی دشمن پالیسیاں ترک نہ کیں اور پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کےلئے پیش رفت نہ کی تو امریکہ کے دونوں مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ امریکہ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ بھارت کو اس کی نئی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے اور یہ واضح کیا جائے کہ ایک بڑے ملک کے ساتھ اشتراک کا حصہ بنتے ہوئے اسے علاقے میں قیام امن کےلئے زیادہ ذمہ دارانہ اور موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔

بھارت اب تک چین سے خطرے کی بات کر کے اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ لیکن اس کی دو تہائی فوج پاکستان کے خلاف جنگ کےلئے تیار رہتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم بھی کسی عالمی لیڈر کی بجائے کسی چھوٹے جنگجو ملک کے رہنما کا رول ادا کر رہے ہیں۔ خاص طور سے 15 اگست کو کی جانے والی تقریر جس میں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی اور گلگت بلتستان میں بغاوت کروانے کےلئے نعرے بازی سے کام لیا گیا تھا، غیر ذمہ داری کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح بھارت ، پاکستان کے ساتھ دشمنی نبھانے اور حساب برابر کرنے کےلئے پاکستانی طالبان اور بلوچ مسلح گروہوں کو مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ نئے معاہدہ کے تحت دونوں ملک دہشت گردی کےخلاف جنگ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ایسے میں بھارت اگر علاقائی تسلط کےلئے دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کا سلسلہ جاری رکھے گا تو اس معاہدے کی روح بھی متاثر ہوگی اور امریکہ انڈو پیسیفک INDO-PACIFIC میں اپنے عزائم کو بھی پورا نہیں کر سکے گا۔ امریکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کےلئے ہی بھارت کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھا رہا ہے۔ ان مقاصد میں پاکستان کے خلاف محاذ آرائی شامل نہیں ہے بلکہ اس قسم کی بھارتی حکمت عملی سے امریکہ کے ’’عظیم مقاصد‘‘ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہو گا۔

امریکہ کو امید ہے کہ دفاعی اور اقتصادی تعاون میں اضافہ کے ذریعے اسے بھارت پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہو گا اور وہ نئی دہلی کو علاقے میں امن کے فروغ ک ےلئے کام کرنے پر آمادہ کر لے گا۔ اسی لئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری جب دوسرے سالانہ اسٹریٹجک مذاکرات کے لئے آج نئی دہلی پہنچے تو انہوں نے بھارتی حکومت سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کےلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی بات کی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ وہ بدھ کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران پاکستان سے بات چیت کی ضرورت پر زور دیں گے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے اسٹریٹجک مذاکرات میں بھی کشمیر کو زیر بحث لایا جائے گا۔ بھارت تادیر پاکستان پر مداخلت کا الزام عائد کر کے کشمیری عوام کی حق خود اختیاری کےلئے حقیقی اور مقامی جدوجہد کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ نہ ہی امریکہ زیادہ عرصہ تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو برداشت کر سکے گا۔

تاہم پاکستان کو بدستور اس بات پر تشویش ہونی چاہئے کہ امریکہ کی بھارت نوازی کے نتیجے میں اس کا روایتی دشمن ملک بہت زیادہ طاقتور ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بدامنی اور افغان طالبان کی طرف سے مذاکرات سے انکار کی وجہ سے بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔ بھارت اس صورتحال کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ وہ افغان حکومت کو پاکستان کے خلاف ورغلا چکا ہے اور اب آہستہ آہستہ افغانستان میں اثر و رسوخ میں اضافہ بھی کر رہا ہے۔ امریکہ اس مقصد میں بھارت کی سرپرستی کر رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی موجودگی پاکستان کےلئے تشویش کا سبب ہونی چاہئے اور اسے اس کی روک تھام کےلئے تمام سفارتی اور سیاسی ہتھکنڈے بروئے کار لانے کی ضرورت ہو گی۔

انڈو امریکہ اشتراک کے نتیجہ میں یہ دونوں ملک مشرق وسطیٰ کے ممالک اور ایران کے ساتھ بھی تعلقات کو اس نہج پر لے جا سکتے ہیں کہ ان سے پاکستان کے مفادات متاثر ہوں۔ بھارت کے ساتھ فوجی، انٹیلی جنس اور مواصلات کے معاہدوں کے ذریعے امریکہ برصغیر میں زیادہ قوت سے اپنی آمد کا اعلان کر رہا ہے۔ پاکستان کو اس صورتحال میں آنکھیں کھلی رکھنے اور موثر سفارتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔ امریکہ چین کا راستہ روکنے کےلئے بھارت کو ڈھال بنا رہا ہے لیکن وہ ان کوششوں میں دیگر ملکوں کو بھی شامل کرے گا۔ یہی پاکستان کےلئے زیادہ اہم چیلنج ہو گا۔ اسے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دینے کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور دیگر ہمسایہ و ایشیائی ملکوں کے ساتھ بھی اعتماد اور دوستی کا رشتہ بحال رکھنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہو گی کہ بھارت کسی مرحلہ پر پاکستان کو کمزور سمجھنے اور اس کے خلاف کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن پر عمل کرنے کی غلطی نہ کرے۔ پاکستان کےلئے ضروری ہو گا کہ وہ اس قسم کی حکمت عملی کا متبادل استوار کرے۔ تب ہی اگر امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ کرے گا تو پاکستان بھی چین، روس اور دیگر علاقائی ممالک کے ذریعے علاقے میں نئے اقتصادی منصوبوں کا حصہ بن سکتا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے نئے دور میں فوجی قوت کو جنگ کا راستہ روکنے کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ جنگ روکنے اور اقتصادی ترقی میں آگے بڑھنے کا مقابلہ جیتنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments