عمران خان کا حقیقی دشمن کون ہے؟


پاکستان 70 برس سے سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔ آزادی کے بعد پہلے آٹھ برس میں 22 صوبائی حکومتیں برطرف کی گئیں یا انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ کسی ایک صوبائی حکومت کے خاتمے میں عدم اعتماد کا دستوری طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ اس دوران پانچ حکومتیں مشرقی بنگال اور آٹھ حکومتیں سندھ میں توڑی گئیں۔ پنجاب اور صوبہ سرحد کو یہ سعادت چار چار مرتبہ نصیب ہوئی۔ ایوب مارشل لاء تک سات وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد غیر سیاسی قوتوں یعنی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے عملی طور پر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1958 میں فوج نے سول بیوروکریسی کو بھی کلیدی فیصلہ سازی سے باہر کر دیا۔ پاکستان پر غیر جمہوری بالادستی کے لئے جونیئر شراکت دار تلاش کئے گئے۔ ان کا بنیادی کام طاقت کے اصل مرکز کو معاونت فراہم کرنا تھا اور اس کے بدلے میں اپنے لئے انفرادی، گروہی اور طبقاتی مفادات کا حصول تھا۔ عوامی تائید سے بے نیاز یہ چار جونیئر پاور پارٹنر درج ذیل تھے:

(1) سول بیوروکریسی، (2) مولوی اور مذہب پسند سیاسی گروہ، (3) بڑے کاروباری گھرانے اور ادارے (4) ایسے سیاستدان جو کسی سیاسی نصب العین کی بجائے درپردہ اشاروں پر سیاسی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوں۔

خارجی سطح پر پاکستان کو امریکا کی سربراہی میں مغربی سرمایہ دار بلاک کے ہاتھوں رہن رکھا گیا البتہ علاقائی ضروریات کے پیش نظر چین سے تعلقات کو استثنائی جگہ دی گئی۔ بعد کے برسوں میں دو نئے حلیف بھی تلاش کئے گئے۔ (اول) زبان، نسل، فرقے وغیرہ کی عصبیت کے بل پر سیاست کرنے والے ایسے گروہ جو حسب ضرورت سیاسی جوڑ توڑ میں مددگار ہو سکیں۔ (دوم) مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہل کار جن کی تعداد تیس لاکھ سے متجاوز ہے۔

1956ء کے دستور کے مطابق فروری 1959 میں پہلے عام انتخابات منعقد ہونا تھے لیکن اسکندر مرزا اور ایوب خان دستور کو منسوخ کر کے جمہوری نظام کو لپیٹنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اس تناظر میں آئیے، 1958 کے کچھ مناظر ملاحظہ فرمائیں۔ پانچ ماہ میں مشرقی پاکستان میں چار حکومتیں تشکیل پائیں اور ٹوٹیں۔ مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو ایوان میں کرسی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ چوہدری غلام عباس اور کے ایچ خورشید کی قیادت میں کشمیر کے سیاسی گروہوں نے لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوشش کی۔ (لائن آف کنٹرول پار کرنے کا یہ تماشا اپریل 1993 میں بے نظیر بھٹو نے بھی آزمایا۔) خان آف قلات نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ قیوم خان نے جہلم سے گجرات تک 32 میل لمبا جلوس نکالا۔ 8 اکتوبر کو مارشل لاء نافذ ہوتے ہی یہ سب تماشے اس طرح رک گئے گویا کسی نے بجلی کا بٹن دبا دیا ہو۔ 1969 کے پہلے دو ماہ میں یحییٰ خان اور اس کے ٹولے نے یہی کھیل دوبارہ کھیلا۔ ایوب خان وردی میں پلنے والے عزائم کا ذاتی تجربہ رکھتے تھے اس لئے  یحییٰ خان کو حسب منشا اقتدار سونپ کر موضع ریحانہ (تحصیل ہری پور) چلے گئے۔

1977ء میں خانہ جنگی کے خطرے کی ہوا باندھی گئی۔ 5 جولائی 1977 کے بعد کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ لشکر اور ان کا اسلحہ کہاں گئے جنہیں خانہ جنگی میں حصہ لینا تھا۔ بھٹو حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات میں جنرل ضیاالحق مسلسل بلوچستان سے فوج واپس بلانے کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کرتے رہے کہ “ٹروپس نہیں مانتے”۔ یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ دسمبر 1977 میں “ٹروپس” کیسے حیدر آباد ٹریبونل ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے۔

1988 سے 1999 کے دوران چار حکومتیں برطرف کی گئیں۔ اخبارات اٹھا کر دیکھئے۔ ہر حکومت کی برطرفی سے چند ہفتے قبل ایک مانوس سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ کراچی میں مار دھاڑ، دہشت گردی کی وارداتیں، فرقہ وارانہ قتل و غارت، دیکھے بھالے چہروں کی طرف سے استعفوں کی بہار اور پرانے چہروں کا یک لخت اپنی قیادت سے باغی ہونا ( مثلاً مخدوم خلیق الزماں)، احتجاجی جلسے جلوس۔۔۔ بدلتے ہوئے موسموں پر نظر رکھنے والے فوراً بھانپ لیتے تھے کہ 58 (2) بی کی تلوار چلانے کی تیاریاں ہیں۔

اپریل 1997 میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے 58 (2) بی ختم کی گئی تو اس مانوس تماشے میں کارگل کا باب ایزاد ہوا۔ اکتوبر 1999 کے پہلے ہفتے میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GAD) کے جلوسوں میں شامل چہروں پر ایک نظر ڈالیے۔ عمران خان، طاہر القادری، نوابزادہ نصراللہ خان، قاضی حسین احمد اور شاہ محمود قریشی۔ یہ کیسا ڈیموکریٹک الائنس تھا کہ ایک ہفتے بعد جمہوریت دفن کی گئی تو اس کی آواز سنائی نہیں دی۔

تاریخ کی یہ باز آفرینی گڑے مردے اکھاڑنے کے لئے نہیں کی جاتی۔ تاریخ کا منصب یہی ہے کہ گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ کی راہیں تراشی جائیں۔ غور فرمائیے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں کیا حالات سامنے آئے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے منتخب ہو کر ملکی دستور پر حلف اٹھانے والے نمائندوں کو گرفتار کر کے ان پر غداری کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ قومی سیاست احتساب کے دُھرے پر گھوم رہی ہے اور اچانک چیئرمین نیب کا اسکینڈل سامنے آتا ہے اور پھر چند گھنٹوں کے اندر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والا سیاستدان قید میں ہے۔ سابق صدر مملکت کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پنجاب میں حزب اختلاف کے قائد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔  سندھ اسمبلی کا اسپیکر چار ماہ سے قید ہے۔

اختلافی رائے کے حامل عدالت عظمیٰ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل پہلے سے زیر التوا معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے فائز عیسیٰ ریفرنس کے لئے سماعت کی تاریخ مقرر کر دیتی ہے۔ حکومت کو اپنا پہلا اور ملکی تاریخ کا سخت ترین بجٹ پیش کرنا ہے اور اس دوران اسمبلی میں یقینی ہنگامہ آرائی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے زیر غور معاملات کی سمت چند روز میں معلوم ہو جائے گی۔ گزشتہ برس فروری میں چیدہ چیدہ صحافیوں کے سامنے غیر سیاسی حلقوں کا ایجنڈا رکھا گیا تھا۔ اور اب عید سے چند روز قبل یہ مشق دہرائی گئی ہے۔ اس سے بے یقینی اور خوف کی فضا پیدا ہوئی ہے۔

ملک کے سیاہ و سفید پر منتخب حکومت کے اختیار کی حدود ہر خاص و عام کو معلوم ہیں۔ یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ ایک ہی وقت میں سیاسی مخالفین، احتساب، معیشت، قوم پرست عناصر، عدلیہ اور بین الاقوامی شطرنج کے ساتھ کھلواڑ کا انجام عمران حکومت کے لئے ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا۔ دیکھنا چاہیے کہ اپنے سیاسی تشخص سے محروم ہو کر غیر منتخب چہروں پر بھروسہ کرنے والی حکومت کیا سوچ کر ان منہ زور پانیوں میں چھلانگ لگا رہی ہے۔ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ حکومت کے انہدام  کی صورت میں حزب اختلاف کے لئے اقتدار میں آنے کے امکانات معدوم ہیں۔ ان حالات میں منتخب حکومت اور عوام میں افتراق سے حتمی فائدہ کس بیانیے کو ہو گا؟ فی الحال عمران خان اور ان کے حواری اونچی ہواؤں میں ہیں۔ تاہم فیصلے کرنے کااختیار کہیں اور ہو تو ایسا اعتماد خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ حالیہ افراتفری سے دستور کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

حمزہ شہباز کی گرفتاری کی خبر سن کر وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ اللہ کو بالآخر پاکستان پر رحم آ گیا ہے۔ بے شک خدائی ارادے جاننے کے بارے میں عمران خان کے ذرائع زیادہ بااعتماد ہیں لیکن سیاسی ذہن خود عمران خان پر رحم کھا رہا ہے۔ عمران خان پاکستان کی سیاسی روایت سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے چنانچہ وہ اس سیاسی طوفان کو بھانپنے سے قاصر ہیں جہاں آندھیاں مسلسل صدا دے رہی ہیں، رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).