مجھے گلہ احتساب کرنے والوں سے ہے


سمجھ میں نہیں آتا احتساب کی کہانی کہاں سے شروع کروں۔ کچھ لوگ جو اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ عقلمند اور محبِ وطن سمجھتے ہیں، ہمیشہ سے سیاستدانوں کو شک کی نظروں سے دیکھتے آئے ہیں۔ کرپشن کے الزامات تو اب معمولی بات ہیں، بلکہ اگر کرپشن کا فگر چھوٹا ہے تو اور بھی شرمندگی کی بات ہے۔ کہانی احتساب کی بہت پرانی ہے۔ ایشیا کے چارلس ڈیگال سے شروع کروں تو ایبڈو جیسے قانون بنا کر بلامبالغہ سینکڑوں سیاسی رہنماؤں کو انتخابی سیاست کے لئے نا اہل کر دیا۔

یہ ساری کی ساری لیڈرشپ کی وہ کلاس تھی جس کی تربیت آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے جید رہنماؤں کی زیرِ نگرانی ہوئی تھی۔ رہیں فاطمہ جناح تو انہیں ویسے ہی بھارتی اور امریکی ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ ہاں اس جھٹپٹے میں گوہر ایوب کی راشن کارڈز کی کرپشن اور کراچی میں اردو بولنے والوں کے خلاف غنڈہ گردی کسی کو نظر ہی نہیں آئی۔ وہ دن کہ آج کا دن، نفرتوں کے بیج جو بوئے گئے، آج دشمنی کی فصل تیار ہے۔ اس دن سے پہلے کا کراچی اور تھا، اس کے بعد کا کراچی اور ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ملا تو ایک پرانے ضعیف مقدمے کے سہارے دار پہ لٹکا دیے گئے۔ صدر ضیا کا دور وہ دور تھا جب باقاعدہ طور کرپشن کے لفظ سے عامیانِ پاکستان کو آگہی حاصل ہوئی۔ بینظیر بھٹو کا پہلا دورِ حکومت کرپشن کے الزامات پر ہی صدر غلام اسحاق خان نے تمام کیا۔ اسی دور میں آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب ملا۔ وہ اور بات کے جب نواز شریف کی پہلی حکومت ختم ہوئی اور نگران حکومت بنی تو آصف علی زرداری کو جیل سے نکال کر وزیر بنایا گیا۔

محترمہ کا دوسرا دورِ حکومت کرپشن کے الزامات کے حوالے سے انتہائی ہنگامہ خیز تھا۔ سرے محل اور ہیروں کے ہار اسی دور کے قصے ہیں۔ الغرض میاں صاحب کے دوسرے دورِ حکومت میں باقاعدہ ایک احتساب کا ادارہ بنایا گیا۔ اس دور میں سرکاری ٹی وی کو گزشتہ دورِ حکومت کی کرپشن بے نقاب کرنا کا خصوصی ٹاسک ملا۔ ہمیں بتایا گیا کہ وزیراعظم ہاؤس میں کس جگہ گھوڑے رکھے گئے، اور وہ کیا خوراک کھاتے تھے۔ پاکستان سٹیل مل کے حوالے سے ایک خصوصی ڈاکیومنٹری آج بھی یاد ہے، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح عثمان فاروقی، ان کی اہلیہ اور بیٹی شرمیلا فاروقی نے تقریباً دو سو ارب روپے کی کرپشن کی تھی۔

وہ اور بات کے پیپلز پارٹی کے اگلے دور میں دونوں بری ہو گئے عثمان فارقی سفیر بھی بنائے گئے، اعلیٰ سول ایوارڈ سے بھی نوازے گئے، جبکہ شرمیلا فاروقی وزیراعلیٰ کی مشیر کا عہدہ پانے میں کامیاب رہیں۔ اس دوران سوئزرلینڈ میں آصف زرداری کے خفیہ بینک اکاؤنٹس کا بھی کھوج لگایا گیا، اور قوم کو بتایا گیا کہ جلد وہاں سے ساٹھ ملین ڈالر واپس لائے جائیں گے۔ آصف علی زرداری گرفتار بھی ہوئے، اوربعد میں مشرف دور میں ایک ڈیل کے تحت رہا ہوئے۔

جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں قومی احتساب بیورو کو خصوصی شہرت ملی۔ سیاستدانوں پر بڑی تعداد میں مقدمات بنائے گئے۔ لیکن ایک عجیب بات ہوتی کہ جیسے ہی وہ سیاستدان حکمران جماعت میں شامل ہوتا، انکوائری کلئیر ہو جاتی۔ اور جو نہ بھی شامل ہوتے، ان کے خلاف کبھی کوئی کلیدی فیصلہ نہ آتا۔ اخباروں میں بڑی بڑی خبریں لگوا کر انہیں گندا بھی کیا جاتا، لیکن کبھی مالِ مسروقہ برآمد نہ ہوتا۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ پیپلز پارٹی نے سرے محل اور سوئزرلینڈ میں ہیروں کے ہار کی ملکیت تسلیم کر لی، جو اس سے پہلے وہ تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔ سرے محل باقاعدہ طور پر بیچ کر اعلان بھی کیا گیا۔ مشرف دور میں بھی سوئس اکاؤنٹس کے لئے سوئٹزر لینڈ میں مقدمات کیے جاتے رہے، وکلا سرکاری خرچ پر جاتے رہے، قومی خزانے سے ایک زرِ خطیر خرچ کیا گیا، لیکن وہ لوٹی ہوئی دولت نہ واپس لائی جا سکی۔

پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت 2008 تا 2013، کرپشن الزامات کے حوالے سے تاریخ کا سنہری ترین دور تھا۔ وزیر اعظم اور وزیر تو دور کی بات، ان کے اہلِ خانہ اور دوست احباب کے بھی ایسے ایسے کارنامے سننے میں آئے کہ قوم حیران ہو گئی کہ ایسا بھی ممکن ہے۔ حج سکینڈل، ای او بی آئی، این ایل سی، پولیس فاؤنڈیشن، ایفی ڈرین اور ایسے سینکڑوں مقدمات جو کرپشن کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کافی مفید ہوں، اور قوم ہیمشہ کی طرح منتظر رہی کہ ان چوروں کو سزا ضرور ملے گی۔ اس دور کے قصے بہت سے مشہور ہیں۔ عاجز دہرا کر قارئین کا وقت برباد نہیں کرنا چاہتا۔

اس کے بعد میاں نواز شریف کا تیسرا دورِ حکومت بھی اسی ڈگر پر چلتا رہا۔ کرپشن کے چھوٹے موٹے قصے سنے گئے، لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ اس معاملے میں پیپلز پارٹی کے ریکارڈ توڑنا خاصا مشکل تھا۔ اگرچہ مسلم لیگ پر کرپشن ذرا ٹیکنیکل طریقے سے کرنے کا بھی الزام تھا، لیکن وہی بات کہ پیپلز پارٹی اس فن کی معراج کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس دوران میاں شہباز شریف نے دعویٰ کیا کہ وہ آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا پیسہ نکالیں گے لیکن راوی اس بارے میں تاحال خاموش ہے۔

احتساب بیورو کی نوٹنکی اسی طرح چلتی رہی۔ اس دوران اسٹیٹ بنک نے ایک ٹیم سوئیٹزر لینڈ بھیجی جس کا دعویٰ تھا کہ وہ سوئٹزرلینڈ سے دو سو ارب ڈالر لوٹی ہوئی رقم واپس لینے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں خاصی پیش رفت کی نوید بھی سنائی گئی۔ یاد رہے کہ یہ وہی دو سو ارب ڈالر ہیں جن میں سے عزیزی مراد سعید ایک سو ارب ڈالر بیرونی دنیا کے منہ پر مار کر باقی ایک سو ارب ڈالر عوام پر خرچ کرنے کا وعدہ بھی کر چکے تھے۔ خیر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

اب کرنی خدا کی یہ کہ دنیا میں پانامہ کا ہنگامہ برپا ہوا۔ ایک عرصے تک تماشا برپا رہا اور برادرانِ صحافت کو خبروں کے لئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا تھا۔ خیر سے جے آئی ٹی میں ایسے ایسے متضاد بیانات ہوئے کہ خدا کی پناہ لیکن جب فیصلہ آیا تو وہ محض ایک اقامے پر تھا، جس میں وصول نہ کی گئی تنخواہ کو ظاہر نہ کرنے کا بہانہ بنا کر میاں صاحب کو نا اہل کر دیا گیا اور کئی مقدمات ایک ساتھ قائم کر کے احتساب عدالتوں کو بھجوا دیے گئے۔

گزشتہ ایک سال سے کبھی ضمانت کبھی گرفتاری کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ کبھی ڈیل کی خبر آتی ہے کبھی ڈھیل کی۔ فیصلہ اتنا کیا جاتا ہے جتنا بعد میں واپس بھی لیا جا سکے۔ چھوٹے میاں صاحب بھی گرفتار ہوئے، اب خیر سے تادمِ تحریر ضمانت پر ہیں۔ حمزہ شہباز بھی دوبارہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ آصف علی زردای کو میگا منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ظاہری طور پر نیب چند محبِ وطن عناصر کے لئے بندے سیدھے کرنے کا کام سرانجام دے رہا ہے۔ جو راہِ راست پر نہ آئے اسے دو چار مقدمے بنا کر گرفتار کر لو۔ جب ڈیل ہو جائے تو چھوڑ دو۔ اس کے علاوہ نیب کی کوئی کارکردگی اگر ہے تو عاجز کے علم میں نہیں۔ چئیر مین نیب اتنا بڑا ادارہ چلانے کے بعد جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اتنی رقم برآمد کی، وہ سب چھوٹے موٹے سیکرٹریوں اور افسران سے برآمد کی گئی ہے۔ اور وہ بھی تقریباً ساری کی ساری پلی بارگین کی مد میں۔

نیب نے آج تک کسی کرپشن کر روک کر رقم نہیں برآمد کی۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ نیب کوئی لانڈری ہے، کوئی محلے کا تھانہ ہے کہ جہاں محلے کے مشکوک افراد کو لائن حاضر کر کے راہِ راست پر لایا جاتا ہے، یا واقعی احتساب کرنے میں سنجیدہ ہے۔ سالہا سال کی اس احتسابی مشق کے بعد کچھ سوال یقیناً ابھرتے ہیں۔ اگر مذکورہ بالا افراد میں سے کسی نے کرپشن کی ہے تو گزشتہ تین سال میں نیب ثابت کیوں نہیں کر سکا، اگر ثابت کر لی ہے تو مالِ مسروقہ قوم کے سامنے پیش کر کے داد کیوں نہیں سمیٹتا؟

اگر کوئی کرپشن ہے تو اس کرپشن کو چھپانے کے الزام میں نیب پر ایک الگ مقدمہ بننا چاہیے۔ اور نیب کے اندر جو کرپشن ہو رہی ہے اس کے احتساب کے لئے کیا ایک الگ ادارہ بنے گا؟ پلی بارگین میں جو افسران ہٹ دھرمی سے اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں، کوئی ان کا احتساب بھی کرے گا؟ یا یہ سارے کا سارا نزلہ سیاستدانوں پر ہی گرتا رہے گا؟ چئیرمین نیب کس حیثیت میں انٹرویو دے سکتے ہیں؟ سینئیر صحافی جاوید چودھری آج بھی اپنے کالم کے ایک ایک لفظ پر قائم ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال صاحب کیوں نہیں ان پر ہتکِ عزت کا دعویٰ کر دیتے؟ اور اس سارے ہنگامے میں قوم کس پر اعتبار کرے؟ احتساب کی ڈگڈگی بجانے والوں پر؟ جو آج تک ایک پیسہ نہیں برآمد کرسکے۔ چہ جائیکہ وہی سیاستدان چند سال بعد پھر اقتدار میں ہوں گے۔ جس طرح سیف الرحمٰن قطر واپس چلے گئے، کیا جاوید اقبال بھی بھاگ جائیں گے؟ قوم منتظر ہے کہ مذکورہ بالا تمام سیاستدانوں پر کرپشن ثابت کر کے مالِ مسروقہ برآمد کیا جائے۔ اور سالہاسال سے جو ڈرامہ نشرِ مکرر کے طور پر بار بار پیش کیا جا رہا ہے اسے بند کرے کہ اس ڈرامے کا حاصل وصول صفر بٹا صفر ہے۔ قوم تو چئیرمین نیب سے بس گزارش ہی کر سکتی ہے، ’ناراض‘ ہونے کا خطرہ تو مول نہیں لے سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).