اسمبلی میں بلاول کی تقریر نہ ہونے کا سبب شیخ رشید ہیں یا شہباز شریف؟


ڈائس کا گھیراؤ کر لیا گیا اور مسلسل نعرے بازی کی گئی، اس دوران دو تین بار شیخ رشید نے بولنا شروع کیا، شیخ رشید کی آ واز پیپلز پارٹی کے احتجاج پر بھاری تھی، وہ شہباز شریف کے الزامات کا جواب دینا چاہتے تھے، جواب انہوں نے دے بھی دیا اور ان کے جواب دینے کی تصدیق خود جناب اسپیکر نے بھی کردی، لیکن اس کے باوجود مائیک بلاول بھٹو کو دینے کا اعلان نہ کیا گیا، اسپیکر صاحب دس منٹ تک دومنٹ دو منٹ کا ورد کرتے رہے، مسئلہ حل نہ کیا، شاید یہی پیر کے اجلاس کا ایجنڈا تھا کہ بلاول تقریر نہیں کرے گا، دوران خطاب شیخ رشید نے نہ صرف یہ اعلان کیا کہ اگر آ ج شیخ رشید تقریر نہیں کرے گا تو پھر تقریر بلاول بھی نہیں کرے گا، شیخ رشید نے حکمیہ انداز میں اسپیکر سے مخاطب ہوتے ہوئے انہیں ایڈوائس کیا کہ اجلاس ملتوی کر دیا جائے، ہوا بھی ایسے ہی، اس آ خری منظر کو دیکھنے والوں کا خیال ہوگا کہ بلاول کی تقریر نہ ہونے کا اعزاز شیخ رشید کو ملنا چاہیے، ایسا قطعی نہیں ہے، اگر جناب شہباز شریف اس دن ایوان کے پندرہ قیمتی منٹ اپنی تعریف و توصیف میں ضائع نہ کرتے تو شاید ایوان کی کارروائی کا انجام مختلف ہوتا، لوگ شک نہ کریں تو پھر پک بھی کیسے کریں؟

کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی امامت میں اپوزیشن کے اجتماعی استعفے آ سکتے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مولانا صاحب کوئی شہباز شریف سے مختلف چیز ہیں؟ جو لوگ شہباز شریف پر این آ ر او کا الزام لگاتے ہیں وہ یہ کیسے سوچ رہے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی استعفوں یا احتجاجی تحریک کے حوالے سے آ سانی سے ایک پیج پر آ جائیں گے، ن لیگ پنجاب میں احتجاجی تحریک کی بات ضرور کرتی رہے گی لیکن اگر بلاول بھٹو سندھ سے جتھے لے کر پنجاب پہنچ بھی جاتے ہیں تو ان کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو ماضی میں شریف برادران بینظیر بھٹو کے ساتھ کرتے رہے ہیں، پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد بنائے گئے نئے نظام حکومت کو ڈھانے کے لئے صرف مہنگائی کا جن کافی نہیں ہے، ابھی لوگ تھکے ضرور ہیں، ٹوٹے نہیں ہیں، انہیں اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کا تختہ الٹانے سے ڈالر اور سونا پرانی قیمتوں پر واپس آ جائیں گے اور آ ئی ایم ایف کی مانی گئی شرائط کے الفاظ سفید ہو جائیں گے، کیونکہ ان شرائط پر تو عمل بھی ہو چکا، جس کے گھر میں آ ٹا بھی نہیں ہے اس کے خالی کنستر کی تلاشی بھی لی جا رہی ہے، لوگ خالی کنستروں کے منہ کھولے سوچ رہے ہیں اعتبار کس پر کریں؟

ہمیں اپوزیشن قیادت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن معروضی حالات کی نفی کرکے نہیں، یقینی طور پر پاکستان کی جمہوری تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنے قیام کے نو ماہ گزرنے سے بھی پہلے پاکستانی عوام میں طبقاتی تضاد کی جڑیں جتنی مضبوط کیں، پچھلی حکومتیں ستر سال میں بھی اتنا بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکیں، وہ لوگ جو آ سانی سے کم از کم دو وقت کی روٹی کھا لیا کرتے تھے، راتوں رات اس سے بھی گئے، جو ایک روپے سے دو آ نے دوسروں میں بانٹ دیا کرتے تھے وہ خود خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ گئے، دیہاڑی دار مزدوروں کی بے روزگاری میں کئی سو گنا اضافہ ہو گیا، غریبوں کی تعداد پہلے ہی لا تعداد تھی، اب حالت یہ ہے کہ سفید پوش لوگ سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے بھکاریوں پر رشک کرنے لگے ہیں، اب وہ وقت ہے جب انقلابات کی شروعات ہوتی ہیں، حالات جیسے بھی ہیں یہ ہمارا پاکستان ہے، طوفانوں میں گھرا ہوا پاکستان، اس کی بربادیوں کا ذمہ دار کوئی ایک فریق کوئی ایک ادارہ نہیں ہے، جس کا جتنا بس چلا اس نے اسے اتنا ہی کاٹ کھایا، لوگ جمہوریت اور سیاست کی سر بلندی کے لئے جانیں قربان کرتے رہے لیکن اس کی مکمل نگہبانی میں ناکام رہے، اس بات کا مٹھی بھر دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا، چند لوگ غیروں کے آ لہ کار بن گئے، کچھ لوگ چھوٹے چھوٹے مفادات کی تکمیل کے لئے وطن عزیز کا نقشہ ہی چاٹتے رہے، آ ج پھر وہی حالات ہیں، ملکی وحدت خطرے میں ہے، اکائیاں سیاست کا محور بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں، ہمیں روایتی سیاست اور سیاسی تضادات و مفادات سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی، ملک اور ملک کے حالات سب کے لئے یکساں ہیں، نتیجہ بھی یکساں بھگتنا پڑے گا، اس بات کا سب سے زیادہ ادراک حکومت کو ہونا چاہیے، حکومت کو اپوزیشن کے خلاف اپنا لہجہ بدلنا ہوگا، کیونکہ نہ کوئی مسلم لیگ میں غدار ہے نہ پیپلز پارٹی میں۔

غدار تو اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ انہوں نے ریاستی اداروں کو بھی کھلم کھلا چیلنج دینا شروع کر دیا ہے، تمام ریاستی ادارے بھی یاد رکھیں کہ ساری سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں محب وطن ہیں اور اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہیں، آ خری گزارش یہ ہے۔ ادارے بھی ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کی حدود و قیود کا خیال کریں، وکلا برادری ٹکڑوں میں بٹنے کی بجائے چیف جسٹس پاکستان کے اس اعلان پر اعتبار کرے کہ حکومت کسی جج کو نہیں ہٹا سکتی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دوسرے دو ججوں کے خلاف ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل کا حتمی فیصلہ سورج کی نئی کرنیں بکھیر سکتا ہے، ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کریں گے تو اندھیرے کبھی نہیں چھٹیں گے۔ (ختم شد)
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).