ایک پاؤ دہی اور دھنیے کی گڈی


پھر ہوا وہی جو کہ ہمارے ہاں عموماً بڑے مفکرین اور دانشوران کرام کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی جیسے ہی نیم خوابی کے عالم میں ایک انقلاب پیش منظر ہوتا ہے، جیسے ہی عالمی امن قائم ہونے لگتا ہے، جیسے ہی تمام دنیا کے غریبوں کو ان کے حقوق ملنے لگتے ہیں اسی لمحے ایسے تمام کاہل دانشوروں اور مفکرین کو ان کی بیگمات خواب غفلت سے جگا دیتی ہیں۔ صرف جگا دینا ہوتا تو چلو اس پر صبر بھی کیا جا سکتا تھا مگر ساتھ ہی گھر کے سودے کی ایک فہرست بھی ہاتھ میں تھما دیتی ہیں۔ ایسی رکیک حرکت سے نہ صرف انقلاب ادھورا رہ جاتا ہے بلکہ دانشوروں کی بھی حتی الامکان سبکی ہوتی ہے۔ بس کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ساتھ پیش آیا۔ قارئین خود انصاف کریں کہ ایک پائو دہی اور سبز دھنیے کی ایک گڈی کے بغیر کیا دنیا کا نظام نہیں چل سکتا؟ مگر یہ بات بیگمات کو سمجھ نہیں آتی۔

حالانکہ تمام دنیا جانتی ہے کہ سونے کا اصل لطف اسی لمحے ہوتا ہے جب باقی دنیا اٹھ رہی ہوتی ہے۔ مگر اس راز سے دانشورانِ قوم تو واقف ہو سکتے ہیں ان کی بیگمات نہیں۔ اتنی صبح تو اذانیں دینے والا مرغا نہیں اٹھتا جتنی صبح سودا سلف کی فہرست ہمارے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔ آج بھی بستر پر کسل مندی کی حالت میں ایک ایسی ہی فہرست کا سامنا تھا۔ فہرست کے آخر میں جلی حروف سے یہ نکتہ تحریر تھا ’’سودا لے کر سیدھا گھر آنا، کہیں پھر اپنے بے کار صحافی دوستوں کے ساتھ اٹھکیلیاں نہ کرنے لگ جانا‘‘۔ فہرست کا اختتام جس دھمکی پر ہوا تھا اس کے بعد بحث کی بہت گنجائش نہیں تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ ہاتھ میں بیگم کا تفویض کردہ نسخہ کیمیا سنبھالا اور ادھورے انقلاب پر تف بھیج کر، گاڑی نکال کر عازمِ سفر ہوئے۔

فہرست میں پہلا حکم درج تھا کہ پہلے بینک سے پیسے نکلوا لینا۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوائے ہی تھے کہ فون پر میسج والی گھنٹی بجی۔ بینک کی طرف سے اطلاع موصول ہوئی کہ آپ کی رقم میں سے اتنے پیسے ٹیکس کی مد میں منہا کر لئے گئے ہیں۔ دانشوروں کی صبح سگریٹ کے کش کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ سگریٹ خریدے تو سگریٹ سلگانے سے پہلے سگریٹ کی قیمت دیکھ کر دل سلگ اٹھا۔ اتنی مہنگی ڈبیا۔ دکاندار سے اس کرم فرمائی کہ وجہ دریافت کی تو کہنے لگا صاحب سگریٹ پر مزید ٹیکس لگ گیا ہے۔

خیر سگریٹ جلا کر گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ گاڑی میں پٹرول کی سوئی پر نظر پڑی۔ پٹرول کی سوئی حکومتی کارکردگی سے بھی نیچے جا چکی تھی۔ فٹافٹ گاڑی پٹرول پمپ کی طرف دوڑائی، پٹرول بھروایا۔ پیسے پوچھے تو پیروں تلے سے گاڑی ہی نکل گئی۔ پمپ والے لڑکے کو بلا کر پوچھا کہ بندہ خدا اسی گاڑی کی ٹنکی پہلے تو تین ہزار میں بھر جاتی تھی یہ آج چھ ہزار کا نسخہ کیوں بنا دیا؟ کہنے لگا ’’صاحب ہم کیا کریں، حکومت نے پٹرول پر ٹیکس جو بڑھا دیا‘‘۔ اب جو پیسے نکلوائے تھے وہ پٹرول کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر اے ٹی ایم کی طرف گاڑی دوڑائی۔ ایک دفعہ پھر پیسے نکلوائے تو پھر ترنت سے وہی رقم منہا ہونے والا میسج آ گیا۔

دل ہی دل میں غصہ پی کر شفیق درزی کی دکان کا رخ کیا۔ یہ درزی ہماری جان کا اصل دشمن ہے۔ مہینے کی کمائی میں سے بیشتر حصہ یہ بیگم کے کپڑوں کی سلائی کی مد میں ہم سےدھر لیتا ہے۔ ایک زنانہ سوٹ کی سلائی کے جتنے پیسے اس نے مانگے اس پر تو ہماری گھگھی بندھ گئی۔ ہم نے اسے بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ بھائی جتنی تم ایک زنانہ سوٹ کی سلائی مانگ رہے ہو اتنے میں تو ایک وزیر کی شیروانی سل جاتی ہے۔ ٹیلر ماسٹر صاحب نہایت اعتماد سےگویا ہوئے ’’صاحب ایک تو بجلی کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں بجلی کے بل کا خرچہ نہیں پورا ہوتا۔ پھر جو کاریگر کام پر آتے ہیں انکی آمد و رفت کا کرایہ بڑھ گیا ہے کیونکہ پٹرول کی قیمتوں کی وجہ سے بسوں، ویگنوں نے کرائے بڑھا دیئے ہیں اور تیسرا بجٹ کے مطابق اب ٹیلر شاپس پر بھی ٹیکس لگا کرے گا‘‘۔

ہم نے اس حکومتی معیشت دان نما درزی کی بات کو آگے بڑھنے نہ دیا اور جلد از جلد رقم ادا کر کے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ لیکن ٹیلر ماسٹر نے ہمیں کونے میں لے جا کر پھر بھی پوچھ ہی لیا ’’صاحب آپ کے بہت واقف ہیں ذرا پتا تو کر کے بتائیں کہیں میرا نام نیب میں تو نہیں آ رہا؟ سنا ہے ہر طرف چھاپے مارے جا رہے ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کا تعلق کہیں حکومت کی مخالف کسی سیاسی جماعت سے تو نہیں۔ اس نے نفی میں سر ہلایا تو میں نے اس کو تسلی دی نیب تم کو کچھ نہیں کہے گا، تم چاہے ایک سوٹ کی سلائی کی قیمت ہیروں کے ہار کے برابر ہی کیوں نہ پہنچا دو۔

درزی کی دکان سے فارغ ہوئے تو گرمی بہت بڑھ چکی تھی۔ سوچا ایک کولڈ ڈرنک ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اتنا تو ہمارا بھی حق ہے۔ کولد ڈرنک پہلے سے دگنی قیمت میں ملی۔ وجہ پوچھی تو علم ہوا کہ چینی پر ٹیکس لگ گیا ہے اور چینی سے بنی ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ماچسوں کا ڈبہ ایک دکان سے خریدا تو وہ بھی پہلے سے دوگنی قیمت میں ملا۔ وجہ یہی بتائی گئی کہ سیلز ٹیکس اس ننھی سی چیز پر بھی لگ گیا ہے۔ سبزی فروش نے مہنگی سبزی کا کم و بیش یہی عذر پیش کیا۔ واپسی پر راستے میں کچھ اپنے جیسے ہی دانشور دوست آلو، پیاز اور دھنیا خریدتے نظر آئے۔ سوچا کچھ عقل و دانش کی باتیں کی جائیں۔ ایک ریستوران میں چائے پینے بیٹھے۔ دوست بتانے لگے کہ بہن کی شادی کے لئے ایک شادی ہال میں بکنگ کروائی تھی مگر انہوں نے نیا ریٹ لگا دیا ہے۔ پہلے سے دوگنا قیمت ادا کرنے کو کہہ رہے ہیں اور اس کی وجہ حکومت کی نئی ٹیکس اسکیم ہے۔

اتنے میں چائے کا بل آیا تو دل دہل گیا۔ بیرے کو بلا کر اس اضافی بل کی غایت دریافت کی تو کہنے لگا ’’صاحب حکومت کی جانب سے بہت ٹیکس لگ گیا ہے۔ اس میں ہماراکوئی قصور نہیں‘‘۔ کافی وقت ہو گیا تھا اب واپسی کی ٹھانی۔ سودے کی فہرست میں بس ایک دودھ دہی رہ گیا تھا۔ وہ دکان رستے میں ہی پڑتی تھی۔ دودھ دہی بھی دگنی قیمت پر ملا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ اس مہنگائی کی وجہ مویشیوں کی فیڈ پر ٹیکس، دکان کی بجلی کا اضافی بل اور موٹر سائیکل کے پٹرول کے اضافی اخراجات تھے۔

اس ناکام سفر کے بعد تھک ہار گھر پہنچے تو سودا سلف بیگم کے حوالے کر کے پنکھا چلا کر ٹی وی لگایا۔ ٹی وی پر ہمارے محبوب وزیراعظم تقریر فرما رہے تھے۔ وہ بار بار یہی تنبیہ کر رہے تھے کہ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس کے عوام سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ اس ملک میں صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اس قول زریں کو سن کر ایک دفعہ تو دل چاہا کہ خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لیں۔ لیکن پھر دو وجوہات کی وجہ سے اس ارادے کو موخر کر دیا۔ پہلی وجہ تو ظاہر ہے پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت تھی تو اور دوسرا یہ سوچا اگر خودکشی میں کامیاب ہو بھی گیا تو کل ایک پائو دہی اور دھنیے کی ایک گڈی تو قبر پھاڑ کر بھی منگوا لی جائے گی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar