خط اُس باپ کے نام جو ”لاپتا“ ہو گیا!


\"hani-baloch-1\"بابا جان، یاد ہے اتوار کو آپ ہمیشہ مجھ سے وعدہ کرتے کہ مجھے لے کر ریگل چوک پہ کتابیں خریدنے جائیں گے ۔

میں سویرے جاگی. آج اتوار ہے. ہم ریگل چوک جائیں گے ۔میں انتظار کرتی رہی اس صبح ِکہ آپ ہمیشہ کی طرح پہلے بیدار ہوں۔ میں نے گھر میں کسی کو جاگتے ہوئے نہیں دیکھا کیوں کہ اتوار چھٹی کا دن ہوتا ہے ۔

اگلے اتوار جب میں آپ کو جگانے کے لیے گئی تو میں نے آپ کو اپنے کمرے میں نہیں پایا ۔

پیارے بابا جان، یہ ختم نہ ہونے والے اتوار میں نے یہ فرض کرکے گزارے کہ آپ کسی حراستی اداروں کے پاس ہیں۔ لیکن میں ابھی تک یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ آپ جاچکے ہیں. میں آپ کو ہمیشہ یاد کرتی ہوں. آپ کچھ ایک میں سے صرف ایک ہی بہت کچھ ہو، بابا۔میں آ پ کو بری طرح سے یاد کر رہی ہوں کہ جیسے آپ نہیں ہیں. اگر آپ نہیں رہے تو یہ میرے لیے دنیا کی تاریخ کا خاتمہ ہے۔ باباجان میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی. اب میں جسمانی اور نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ چکی ہوں. میں آپ کے بغیر جی نہیں سکتی۔

باباجان آپ نہیں جانتے، آپ فرشتہ ہیں ــ آ پ کے بغیر ایک ساعت بھی کس قدر سخت ہے. ہمیں آ پ کی کس قدر ضرورت ہے ۔ہمارا نگہبان اور ہمارا پشت پناہ آج لا پتہ کردیا گیا ہے۔ ہماری پشت پناہی اب کون کرے گا ۔ ہماری حفا ظت کون کرے گا. جب آپ کے مہربان اور پر شفقت ہاتھ میرے کند ھوں پر تھے تو میں بھر پور توانائی محسوس کرتی تھی میری طاقت اب کہاں ہے؟ میری طا قت و قوت کو لا پتہ کردیا گیا ہے۔

بابا جان مجھے معاف کردیں ۔ آ پ نے ہما رے لیے سب کچھ کیا؛ بطور بہتر ین استاد ، بہتر ین نگران ، بہترین دوست ومددگار اور بہت کچھ۔ میں سوچتی ہوں میں بہترین بیٹی نہیں ہوں لیکن آ پ مثالی باپ ہیں ۔لیکن اب جب آ پ کو کچھ ضرورت ہے تو میں ناامید ہوں. میں آپ کے لیے کچھ بھی نہیں کر پارہی ہوں۔

بابا جان، جب میں چھوٹی تھی اور دمہ کے مرض کا شکار ہوگئی تھی تو آ پ نے میرے علاج کے لیے بے پناہ اخراجات کیے .اب میں صحت مند ہوں لیکن اس قابل نہیں کہ آپ کو سلامت بازیاب کرا سکوں. ہو سکتا ہے کہ آپ انتہائی غیر انسانی اذیت کا سامنا کر رہے ہوں. در حقیقت میں نہیں جا نتی کہ آپ کہا ں ہیں. جب میں روتی تھی اور آپ موجود ہوتے تھے تو میری آنکھوں سے آنسو پو نچھ لیتے تھے ۔ اب میں رو رہی ہوں بابا جان، آپ کہا ں ہیں؟!

بابا جان آ پ جا نتے ہیں، اب میں ہر وقت صرف رونے کی آواز سن رہی ہوں. امی جان کیسے رورہی ہیں آپ کے لیے ۔ اور آپ کی ما ہکان نے بھی اسکول چھوڑ دیا ہے۔ بابا جان ان خاموش رستوں میں جب آنکھیں بند کرتی ہوں تو صرف آپ سے بات کرتی ہوں. مجھے لگتا تھا محض دنیا میں آ پ واحدانسان ہیں جو مجھے کبھی دکھ نہیں دیں گے۔ اور میں نے کچھ پایا تو وہ آپ کی محبت کی بدولت ہے.

جب میں کچھ نہ ہونے کے برابر تھی تو آ پ نے مجھے قبول کیا تھا. آپ اس بھری دنیا میں بہترین باپ ہیں۔ مگر میں آپ کی بے کار بیٹی ہوں. بابا جان میں جانتی ہوں کہ آپ بڑے دل کے مالک ہیں اور آپ فوراََ ان لوگوں کو بھی معاف کرتے تھے جو لوگ پیٹھ پیچھے آپ کی برائیاں کرتے تھے اور ہمیشہ آپ کے بارے میں بری گفتگو کرتے تھے لیکن باباجان آج میں آپ سے معذرت کرتی ہوں کہ میں آپ کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی ہوں ۔ میں جانتی ہوں آپ مجھے بھی معا ف کردیں گے ۔ میں آپ کے بارے میں سوچ رہی ہوں. حا لا ں کہ یہ نہایت درد بھرا اور تکلیف دہ وقت ہے. میں آپ کی سلامتی کے ساتھ باز یابی کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں. اگر مجھے خو ش قسمت موقع مل جائے، جب آپ واپس آ جا ئیں تو پھر کبھی بھی آپ کو دو بارہ جانے نہیں دو ں گی۔میں آپ کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتی. میں آپ کے بنا تنہا ہوں ۔میں اب بھی آپ کی مدد کا انتظار کر رہی ہوں ۔

بابا جان آپ بہتر جانتے ہیں کہ میرے پاس مشورہ کرنے کا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں، سوائے اس کے کہ آپ سے بات کروں. اور اب کوئی نہیں جو مجھے مشورہ دے. یہ سچ ہے باباکہ یہاں ہر کوئی آپ کو یاد کر تا ہے اور یادکرنا آسان ہے ۔اور یہ آسان کام وہ ہر دن کررہتے ہیں۔مگر میں مجھے تو آ پ ایک درد کے ساتھ یاد آتے ہو اور یہ وہ درد ہے جو کبھی جاتا ہی نہیں ۔کوئی بھی یاد کرنے سے نہیں تھکتا، ہاں انتظار کرنے سے سب تھک جاتے ہیں۔ اور مجھے ابھی تک یہ یقین ہی نہیں آرہا کہ آپ یہاں نہیں ہیں ۔ کیوں کہ آپ نے مجھے ہر چیز سکھا ئی سوائے اس کے کہ آپ کے بغیر زندہ کیسے رہا جائے ۔

بابا، جب مجھے ہلکی سی خروش بھی آتی یا معمولی سا سردرد ہوتا تھا تو آپ فکر سے ساری رات میرے لیے جاگتے تھے ۔ خوشی کے لحمات بھی ساتھ آئے مگر اب بہت مشکل ہے آپ کو تلاش کرنا! جب میں کسی چیز سے ڈرتی تھی تو مجھے کسی اور کو پکارنے کی کبھی بھی ضرورت نہیں پیش نہیں آئی کیوں کہ آپ میرے ساتھ ہوتے تھے مگر اب آپ کیسے ہیں نہ جانے کسں تکلیف میں اور میں آپ کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتی……… میں آپ کی ناکارہ بیٹی ہوں۔مجھے معاف کردیں۔

آپ نے ہمیشہ مجھے اپنی بہادر بیٹی کہا، مگر میں بالکل بھی بہادر نہیں ہوں۔آپ مجھے ہمیشہ بہادر شہزادی کہتے تھے. آج میں وہ سب کچھ ہوں جو آپ نے مجھے بنایا…… مگر اتنی بہادر نہیں کہ آپ کے بنا رہ سکوں . بابا جان مجھے معاف کردیں میں آپ کی بہادر شہزادی نہیں بن سکی!!

ہانی بلوچ، بھائی واحد بلوچ کی بڑی صاحبزادی ہیں، جنہیں 26 جولائی کو کراچی سے لاپتا کیا گیا. ہانی نے اپنے والد کے نام ایک تصوراتی خط لکھا ہے. یہ خط سندھ کی نوجوان صحافی وینگس کے توسط سے ہم سب تک پہنچا ہے. ہم بلاشبہ اس درد کو اپنے دل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ہم بھائی واحد بلوچ کی راہ دیکھتے ہیں ۔ واحد بلوچ ہمارا پاکستان ہے۔ ہم واحد بلوچ سے محبت کرتے ہیں۔ 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments