ہم سب مہاجر ہیں، مہاجرت کی سیاست نہیں کرتے



\"lubna امریکہ کی قومی زبان کیا ہے؟ امریکہ میں‌ قومی زبان ہے ہی نہیں۔ سب سے زیادہ بولی جانے اور استعمال کی جانے والی امریکی انگریزی ہے اور پھر ہسپانوی ہے۔ اوکلا ہوما ہماری ریاست ہے۔ اس کی اپنی ایک تاریخ‌ ہے، یہاں‌ کے مقامی باشندے اب بھی یہاں‌ بستے ہیں۔ ان کے اپنے قبائل ہیں، ان کی اپنی زبانیں، مذہب، رسم و رواج، ملبوسات، رقص اور کھانے ہیں۔ ان طور طریقوں‌ کو ہم سیکھ لیں‌ یا وہ ہمارے طور طریقے سیکھ لیں، وہ وقت کی ضرورت پر منحصر ہوتا ہے اور مختلف لوگوں‌ کے ساتھ میں‌ رہنے سے وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ہوتا جاتا ہے۔ انسانی معلومات اوپر سے نیچے بہتی ہیں یعنی جو لوگ جہاں‌ بھی کچھ بہتر طریقے سے کرنا شروع کریں تو وہ آہستہ آہستہ ساری دنیا میں‌ پھیل جاتا ہے۔ چاہے وہ ایک رضائی بننا ہو یا پھر موتیے کی سرجری کا طریقہ ہو۔ ہم سب شہری ایک دوسرے سے انسانیت کا رویہ رکھ سکتے ہیں۔ ہسٹری کو بھی ہر طرف سے پڑھنا ہوگا اور اس سے سبق سیکھنا ہوگا۔ جو بھی بہتر کام کرے اسی کو جاب ملنی چاہئے۔ اسی میں‌ سب کی بھلائی ہے۔ کیونکہ لائق اور محنتی آدمی سارے نظام کو بلند کرتا ہے اور نااہل افراد تمام سسٹم کی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔ انگریزی میں‌ ایک کہاوت ہے کہ \”ایوری تھنگ رائزز اینڈ فالز آن دا لیڈر شپ\” یعنی سب کچھ رہنمائی سے ہی اوپر یا نیچے جاتی ہے۔ نظام بدلنا ہے تو لیڈر بدل دیں۔

تعصب کا استعمال کر کے ڈھیر سارے پیروکار جمع کرلینا نہایت آسان کام ہے۔ آپ کسی بھی تعصب کو لیں، چاہے وہ مذہبی ہو، لسانی یا نسلی۔ ٹرمپ کی مثال لیں۔ کیا اس کی پیروی کرنے والوں‌ میں‌ زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ، کامیاب اور پیسے والے لوگ شامل ہیں؟ نہیں! ٹرمپ یا اس کی طرح‌ کے لوگوں‌ کی وہ لوگ پیروی کرتے ہیں جو اپنی زندگیوں‌ میں‌ ناکام اور ناخوش ہوتے ہیں اور خود کو بلاوجہ دنیا کے دیگر افراد سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں‌ کہ ان کے خاص پس منظر کی وجہ سے ان کو دیگر افراد پر فوقیت دی جائے۔ اس لئے وہ اس طرح‌ کے گروہ بناتے ہیں تاکہ گروہ کی طاقت سے ان کی ذاتی کمزوریوں‌ پر پردہ پڑ جائے۔ حالانکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ تمام انسانوں‌ کو برابر سمجھا جائے اور سبھی کے لئے برابر کے حقوق کا مطالبہ کیا جائے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہم ہر شہری کے جان مال اور عزت کی حفاظت کی بات کریں۔

\"lubna\" تعصب کا سامنا دنیا کے ہر انسان کو کرنا پڑ رہا ہے۔ کون سا ایک شخص آپ دنیا میں‌ ڈھونڈ کر دکھا سکتے ہیں جو یہ کہے کہ میں‌ نے کبھی زندگی میں‌ تعصب نہیں‌ دیکھا۔ تعصب سے لڑنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ آپ دیگر افراد کے ساتھ تعصب نہ کریں۔ اپنے اردگرد خاص طور پر دوسرے مذاہب کے، دوسرے ملکوں کے لوگوں‌ سے دوستی ضرور کرنی چاہیے۔ اس سے اپنا دماغ کھلتا ہے اور دوسرے انسانوں‌ کا نقطہ نظر سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

ہر کسی کو لگتا ہے کہ ہم ہی بہت بیچارے ہیں اور باقی ساری دنیا ہماری دشمن ہے۔ ہر کوئی سینہ کوٹ کر ماتم کر رہا ہے کہ ہماری قوم کے ساتھ کتنا ظلم ہوا۔ منٹو بچارے کہتے کہتے مر گئے کہ یہ مت بولو اتنے ہندو اور اتنے مسلمان مرے ہیں، یہ بولو کہ اتنے انسان مرے ہیں۔ رضا اسلان کی کتاب زیلٹ پڑھ رہی تھی اس کو پڑھ کر میں‌ نے سوچا کہ شاید اسی تاریخ ‌کی وجہ سے یہودی جدھر بھی ہیں، نہایت محنتی، تعلیم یافتہ، طاقتور اور پیسے والے ہیں۔

ہر جگہ منفرد ہے، وہاں‌ کے پودے، جانور، موسم دیگر جگہوں‌ سے الگ ہیں۔ وہاں‌ کے رقص، موسیقی، کھانے وغیرہ مختلف ہیں۔ جہاں‌ بھی جائیں‌ وہیں‌ گھر بنانا چاہئے اور وہاں‌ کے لوگوں‌ کو ہی اپنے لوگ سمجھنا چاہئے۔ زبانیں‌ سیکھنے سے بچوں‌ کا دماغ تیز ہوتا ہے۔ اس لئے ان کو ضرور مختلف زبانیں‌ سکھانا چاہئیں۔ خاص طور پر مقامی زبانیں ان علاقوں‌ میں‌ رہنے والے افراد تک قدیم انسانوں‌ کی معلومات اور بردباری منتقل کرتی ہیں۔

جو لوگ خواتین سے تعصب کرتے ہیں اور کہتے ہیں‌ کہ انہوں‌ نے ان کی نوکریاں لے لی ہیں، ان کی نفسیات یہ ہے کہ انہوں‌ نے دنیا میں‌ خود کچھ کر کے نہیں‌ دکھانا ہے اور ایسے ہی بلاوجہ آگے کر دئیے جانا چاہتے ہیں۔ یہ جو لوگ عیسائی آبادی پر چڑھائی کرتے ہیں، کیا وہ پڑھے لکھے نوکریوں‌ والے لوگ ہیں۔ نہیں، ان میں‌ زیادہ تر ناکام ہوتے ہیں‌ جو اپنی زندگیوں‌ میں‌ ناکام اور ناخوش ہیں۔

\"lubna3\" میرے والد نے علی گڑھ سے سندھ میں‌ ہجرت کی اور ان کے انتقال کے بعد بڑے ماموں‌ نے ویزا فائل کیا تو ہم لوگ امریکہ ہجرت کر گئے۔ اس طرح‌ ہماری تین نسلیں تین ملکوں‌ میں‌ رہیں۔ ٹیکنکلی دیکھیں ‌تو جب میرے والد پیدا ہوئے تو انڈیا ابھی تک برٹش راج کا حصہ تھا تو اس کو ملا کر چار ملک بن جاتے ہیں۔ مہاجر تو کوئی بھی ہوسکتا ہے اور کسی بھی ملک سے کسی بھی ملک یا شہر یا صوبے کی طرف ہوسکتا ہے۔ میرے شوہر بلوچ ہیں لیکن اب امریکہ ہجرت کر کے وہ بھی مہاجر بن گئے۔

ہجرت انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ اس سے ذہن کھل جاتا ہے، نظر وسیع ہو جاتی ہے، دنیا کو دوسرے نقطہ نظر سے دیکھنے کا ایک موقع ملتا ہے۔ اسی لئے مہاجر جہاں سے جہاں‌ بھی چلے جائیں‌ وہ ان نئے ممالک یا علاقوں کی ترقی کا باعث بن جاتے ہیں۔ وہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ نئی جگہ میں اپنی بقا کے لئے ان لوگوں‌ کی نسبت زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہیں‌ جو وہاں پہلے سے نسل در نسل ایک کمفرٹ زون میں‌ سیٹ ہو چکے ہوں۔ ان مہاجرین کی اگلی تیسری چوتھی نسل تک ان کا بھی جوش جذبہ ویسا نہیں‌ رہتا جو ہجرت کرنے والوں‌ میں‌ ہوتا ہے۔ امریکہ کی ترقی میں‌ مہاجرین کا ایک بڑا حصہ ہے۔ امریکہ کے اندر سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ پیسہ کمانے والے لوگ انڈیا کے ہیں، دوسرے نمبر پر ایرانی ہیں۔

ایک مرتبہ ایک بڑا بلینکٹ دھونا تھا جو گھر میں‌ واشنگ مشین میں‌ فٹ نہیں‌ آسکتا تھا تو میں‌ نے اپنے بیٹے سے کہا چلو لانڈرومیٹ چلتے ہیں۔ وہاں پر میں‌ نے بڑی مشین میں‌ بلینکٹ ڈالا اور سکے ڈال کر مشین چلائی تو دیکھا کہ وہ گھوم پھر کر لانڈرومیٹ دیکھ رہا ہے۔ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ نوید ہمیشہ اچھے سے گھروں‌ میں‌ رہا ہے اور اس نے اس سے پہلے کبھی لانڈرومیٹ نہیں‌ دیکھا۔ جب وہ میری گود میں‌ تھا اور بیٹی پیٹ میں‌ اور میری جیب میں‌ مشکل سے پانچ سو ڈالر تھے تو وہاں‌ سے ہم یہاں تک کیسے پہنچے، اس کو وہ کبھی نہ ہی پتہ چلے گا اور نہ ہی وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ پیپر بھی میرے بچے یا میرے چھوٹے بہن بھائی نہیں‌ پڑھ سکیں‌ گے کیونکہ ان لوگوں‌ کو اردو پڑھنی نہیں‌ آتی۔

وقت کے ساتھ چلنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جو وقت کے ساتھ چلتے ہیں‌ وہی چلتے رہتے ہیں، جو نہیں‌ چلتے وہ گم ہو جاتے ہیں۔ میرے والد اپنی زندگی میں‌ ایک کامیاب انسان تھے اور میں‌ بھی اپنی زندگی میں‌ کامیاب ہوں۔ یہ کامیابی نہ ان کو کسی نے پلیٹ میں‌ دی تھی اور نہ ہی کسی نے مجھے پلیٹ میں‌ رکھ کر دی۔ اس کے لئے ہم نے محنت کی، اور جہاں‌ بھی گئے وہاں‌ ہی لوگوں‌ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے اور ہمیشہ دوسروں‌ کے کام آنے کی کوشش کی۔

نارمن میں‌ صرف دو اینڈوکرنالوجسٹ ہیں۔ ایک میں‌اور ایک ڈاکٹر فیم۔ میں‌ پاکستانی امریکی اور وہ ویت نامی امریکی۔ ہم دو کو چھوڑ کر باقی سارے ہمارے آفس میں‌ ہمارے ماتحت گورے امریکی ہیں۔ کیا ہم نے ان کی جاب لی ہے؟ نہیں! اگر ہم دونوں‌ آج یہاں‌ سے چلے جائیں‌ تو یہ آفس بند ہوجائے گا اور ان سارے لوگوں‌ کی نوکری ختم ہوجائے گی۔ یہ بات وہ آدمی نہیں‌ سمجھ سکتا جو بلاوجہ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں‌ سے بلند اور بہتر سمجھتا ہو اور اپنے منفرد بیک گراؤنڈ کو بنیاد بنا کر ترجیح‌ حاصل کرنا چاہے۔

\"lubna4\" دنیا میں‌ انسانوں‌ کی صرف دو اقسام ہیں۔ ایک اچھے انسان اور ایک برے انسان اور یہ ہر انسان کے اپنے ہاتھ میں‌ ہے کہ وہ کون سے خانے میں‌ خود کو فٹ کرے۔ میرے والد صاحب مرزا شجاعت بیگ کا آخری آرکیٹکچر کا پراجیکٹ انور پراچہ ہسپتال تھا جو 1980 سے سکھر میں‌ قائم ہے۔ ہسپتال کو اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا یا پڑنا چاہئے کہ آنے والے مریض کا تعلق کس قوم سے ہے۔ مجھے بھی اس بات سے کچھ فرق نہیں‌ پڑتا کہ مریض کون ہیں۔ ہماری جاب ان مریضوں‌ کو بہتر بنانا ہے۔ باقی سب افراد کو بھی اپنی جاب پر دھیان دینا چاہئے اور اپنا مرتبہ کسی بھی معاشرے میں‌ اپنی خدمت سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بجائے اس کے کہ گروہ بنا کر غنڈہ گردی کرتے پھریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments