پاکستانیو: نوکریاں آ نہیں رہیں، نوکریاں جا رہی ہیں!


آئیے کہ کچھ زمین کی سطح کے سچ پڑھتے ہیں۔

اسلام آباد میں اک جاننے والے، احمد مشہود صاحب، ایڈورٹائزنگ ایجنسی اور کمیونیکیشن کی خدمات والے کاروبار سے منسلک ہیں۔ سیلف میڈ آدمی ہیں اور اک لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد کاروبار اور مقامی معیشت میں اپنا نام بنایا ہے۔ کوئی دس دن قبل انہیں اک سخت فیصلے کا سامنا تھا: سٹاف میں کمی کریں یا تنخواہوں میں؟ ان کا اکثریتی سٹاف، ان کے ادارے جتنا ہی پرانا ہے، تو ان کو ملازمت سے نکالنے کا حوصلہ نہ تھا، مگر پچھلے ایک سال کی عظیم انقلابی حکومت کی شاندار معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ادارے میں کاروبار اور معاش کی اتنی موجودگی باقی نہ تھی کہ اسی تعداد کے ساتھ کام چلایا جاتا رہے۔

انہوں نے پورے سٹاف کی اک میٹنگ بلائی اور آپشن سامنے یہ رکھی کہ یا تو سٹاف میں سے تقریبا 18 لوگ نکالے جا سکتے ہیں، یا پھر تنخواہوں میں، بشمول ان کی، تقریبا 30 ٪ کمی برداشت کرنا ہو گی۔ سٹاف نے بے روزگار ہونا مناسب نہ سمجھا، 30 ٪ کم تنخواہیں قبول کر لیں۔

سید واصف صاحب، سنگاپور اور تائیوان سے ری فربِشڈ لیپ ٹاپ کمپیوٹرز پاکستان امپورٹ کرکے، ان کو مقامی مارکیٹس میں فروخت کرتے ہیں۔ وہ یہ کام پچھلے 18 برس سے کر رہے ہیں۔ اس سال مارچ میں انہیں اپنے دفتر کے کل 10 ملازمین میں سے 7 فارغ کرنے پڑے۔ اور اس کی اک بہت بڑی وجہ پاکستان سے بینکنگ چینلز کے ذریعے فارن کرنسی باہر بھیجنے میں درپیش مشکلات رہیں، جو اک بار پھر، موجودہ حکومت کی دانشمند پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ اگر آپ کو بھلے مال تین ہزار ڈالر کا منگوانا ہے، یا تیس لاکھ ڈالر کا، اس کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) استعمال کرنا پڑتا ہے۔

یہ چھوٹے امپورٹر تھے تو لہذا تھوڑے پیسوں کی مگر مسلسل ٹرانزیکشنز رہتی ہیں۔ پچھلے برس اگست سے مال ہی نہ منگوا پائے کہ ان کو کمپیوٹر فروخت کرنے والوں نے ایل سی پر اتنی تھوڑی رقوم پر کام کرنے سے انکار کر دیا۔

شفیق زمان صاحب، پاکستان میں پچھلے تیس برس سے برینڈڈ کپڑوں، پرفیومز اور دیگر ان اشیاء کے کاروبار سے منسلک ہیں جو لو۔ مڈل سے اپر مڈل کلاس استعمال کرتی ہے۔ دفتر کے علاوہ، اسلام آباد میں ان کی تقربیا 30 برس پرانی ہی دکان ہے، اور ان کے کُل سٹاف کی تعداد، 13 تھی۔ اس سال مئی کے مہینے میں ان 13 میں سے باقی صرف چار لوگ رہ گئے : اکاؤنٹنٹ، آفس بوائے اور شاپ اٹینڈنٹس۔ میری ان سے فون پر مسلسل گپ شپ رہتی ہے، کہنے لگے کہ ”یار، پوری نہیں پڑرہی تھی۔ چھ ماہ مسلسل خسارے اور نقصان کا سامنا کیا، تو بہت بھاری دل سے خدا حافظ کہا۔ “ انہوں نے بتایا کہ سٹاف میں سے اکثریت جاتے ہوئے روتی اور پریشان تھی۔

اوپری تین کے علاوہ، میرے اک اور جاننے والے ہیں، جو پرنٹنگ، ڈیزائننگ اور کارپوریٹ Giveaways کے کام سے منسلک ہیں۔ ان کا نام عارف حسین ہے اور وہ یہ کام پچھلے بیس برس سے کر رہے ہیں۔ اسلام آباد، جناح ایونیو کی جانب، بلیو ایریا میں ان کا دفتر ہے۔ ان کی سیلز پچھلے سے پچھلے برس کی نسبت تقریبا 80 ٪ کم ہیں۔ ان کے سٹاف میں صرف تین لوگ ہیں، جن میں سے اپنے سیلز افسر کو انہوں نے مئی کے آخری ہفتے میں فارغ کیا اور باقی دو کو آدھی تنخواہیں دے رہے ہیں، اور خود بھی بہت مشکل والی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان کو سالانہ 20 لاکھ ملازمتیں تخلیق کرنے کے لیے 7 سے 8 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرنا ہوگی۔ ہماری موجودی ترقی کی شرح، سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 3.3 ٪ ہے۔ گو کہ پاکستانی معیشت کے ناقد، اس سے اتفاق نہیں کررہے اور اصل شرح کو 3 ٪ سے بھی کم دیکھتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2018 میں 5.8 ٪ سالانہ تھی۔ اب تقریباً ڈھائی فیصد ترقی کی شرح کی کمی کا بہت سیدھا اور عام فہم مطلب یہ ہے کہ کم از کم/کم از کم پانچ سے ساڑھے سات لاکھ ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں، اور ملک کی موجودہ معاشی حالت کے تحت ان ملازمتوں کی جلد واپسی کا کوئی امکان نہیں۔

سیاست میں تو چلیں ریاستی طاقت والے عظیم دماغ چالیں چل لیتے ہیں، معیشت، بین الاقوامی امور بھی بالکل جنگوں کی طرح ہوتے ہیں : صرف اور صرف حقائق پر چلتے ہیں۔ یہ امور سیٹھ۔ میڈیا پر بنائے گئے، پاکستان بچانے والے مسیحا کے شوریدہ بیانیہ، معیشت پر سیمینار کرکے، اور معیشت کو اچھی/بری کی افلاطونیاں فرما کر درست نہیں ہوتے۔ صد افسوس یہ بھی کہ معیشت ملکہء جنات کی پھونکوں سے بھی درست نہ ہوگی۔
آئیے مگر ناچتے ہیں۔ یہ بھی تو اک عظیم انقلابی جماعت کی جملہ مہارتوں میں سے ایک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).