مردانہ معاشرہ اور عورت گردی


رات کے آخری پہر فلیٹ کا دروازہ دھڑاک سے کھلا اور شہزاد کپڑوں سے لدا پھندا اندر داخل ہوا (شہزاد ہمارا سابقہ روم میٹ ہے، اک ماہ قبل ہی ازدواجی بندھن میں بندھ کر اپنی بیوی کے ساتھ رہنا شروع ہوا ہے ) میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کیوں پھر کپڑے دھونے والی مشین خراب ہوگئی ہے یا بھابھی نے کپڑے دھونے سے منع کر دیا جو سارے ان دھلے کپڑے ادھر اٹھا لائے ہو؟ شہزاد پھیکی سی ہنسی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کارپٹ پر بیٹھ گیا کہ ”بیوی کو طلاق دے دی ہے“ ۔

”۔ ۔ ہائیں؟ کیا مطلب طلاق؟ ابھی مہینہ پہلے ہی تو تمہاری شادی ہوئی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ شہزاد کے چہرے پر اک کرب کی لہر سی دوڑ گئی لیکن اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ ”بس یار کیا بتاوں، میں جیسے ہی گھر گیا میرے ساتھ بدتمیزی شروع کر دی گئی اور میرا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا کہ مجھے طلاق دو۔ بجائے کوئی الٹی سیدھی حرکت کرنے کے میں نے سامان اٹھایا اور ادھر آگیا“ ۔

میری حیرانی برقرار رہی۔ ”یار بات کچھ سمجھ نہیں آئی، آخرایسی بھی کیا بات ہوگئی کہ اک ماہ پہلے ہوئی شادی کو اس طرح لپیٹنا پڑے“ ؟ شہزاد نے چھت کی طرف گھورتے ہوئے آہ بھری۔ ”میرے ابو اتوار بازار میں دکان لگاتے ہیں۔ لڑکی کی امی میرے ابو کی کلائنٹ تھی، ان کو میں پسند آگیا۔ لڑکی بھی ملازمت کرتی تھی، بات چلی تو اتفاق سے میری ملازمت بھی اسی کمپنی میں ہوگئی جہاں وہ ملازم ہے۔ لڑکی مجھ سے کچھ زیادہ تنخواہ لیتی ہے، کچھ عرصے بعد لڑکی کے اصرار پر ہماری منگنی ہوگئی۔ میں نے اس لڑکی سے سے کچھ نہیں چھپایا تھا، میں کتنا کماتا ہوں، گھر میں کتنے دیتا ہوں، میرا خرچہ کتنا ہے وغیرہ۔ میں نے آج تک کوئی افئیر نہیں چلایا۔ ہمیشہ یہی سوچا کہ شادی کرنی ہے۔ ہم دونوں نے یہ طے کیا تھا کہ ہم دونوں کماتے ہیں اور مل جل کر گھر چلائیں گے، اس نے کہا تھا کہ ’میں تمہارے ہر دکھ سکھ میں کام آؤں گی، تمہارے ہر اچھے برے وقت میں تم مجھے اپنے ساتھ پاوگے‘ ۔“

”میرے گھر والے کچھ تذبذب کا شکار تھے کہ لڑکی اپنی والدہ، بڑی بہن اور بہنوئی کے ساتھ دبئی رہتی ہے جبکہ والد پاکستان میں، پتہ نہیں کیا معاملات ہیں، کون اور کیسے لوگ ہیں کچھ پتہ نہیں۔ میں نے اک دو بار اپنے والدین کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے گھر والے نہیں مان رہے ۔ بقول اس کے اسے مجھ سے شدید محبت ہے اور وہ میرے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے، زندگی کے ماہ سال مل کر گزریں گے، جب جب میں انکار کرنے کی کوشش کرتا وہ رونے لگتی اور کہتی۔ ’شہزاد تم کو خدا کا واسطہ ہے، مجھے کبھی مت چھوڑنا، پلیز تم میرے ساتھ شادی کر لو، میں تم کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گی، تم مجھے بھوکا بھی رکھو گے تو رہوں گی‘ ۔ ظاہر ہے انسان کسی کے ساتھ بھی منسوب ہو تو اک وابستگی ہو جاتی ہے، میں نے جیسے تیسے گھر والوں کو منا لیا، ابو پہلے ہی دبئی ہوتے ہیں، پاکستان سے والدہ کو بلایا اور شادی کر لی۔ گھر کا ٹوٹل رینٹ، بجلی، گیس پانی، ٹیلیفون کے بلز میں نے دیے، زیادہ تر کھانا بازار سے آتا رہا ہے وہ بھی میں نے پے کیا ہے۔“

”اس نے کبھی گھر میں کھانا نہیں بنایا اور نہ ہی کپڑے دھوئے، انسان شادی اس لئے کرتا ہے کہ زندگی میں کچھ آسانیاں پیدا ہوں لیکن یہاں صرف بستر کی حد تک میں شادی شدہ تھا باقی سب کچھ بیچلزر لائف کی طرح ہی چلتا رہا، خود کپڑے دھونا، کھانا بازار سے کھانا، اپنا ہر کام خود کرنا، میں بھی کام سے تھکا ہارا آتا ہوں، کافی بار کہا کہ گھر کے کام ہم دنوں مل جل کر کر لیتے ہیں لیکن ایسا کبھی ہو نہیں سکا۔ بیگم صاحبہ اپنی تنخواہ کا کثیر حصہ والدہ اور بہن کو تھما دیتی ہیں اور ماندہ رقم گاؤں بھیج دیتی ہیں۔“

”سمجھانے کی کوشش کی تو ہر بار تماشا لگا اور کہا گیا تم مرد ہو، میرے تمام اخراجات پورے کرنا تمہاری ذمہ داری ہے، میں پیسے گھر پر کیوں خرچ کروں؟ تم مجھے افورڈ نہیں کر سکتے تو مجھے طلاق دے دو۔ اس اک ماہ میں مجھے میری ساس، سالی، اس کے شوہر اور کئی رشتہ داروں کے سامنے ذلیل کیا گیا کہ یہ ایک کنگال انسان ہے، یہ مجھے جیب خرچ نہیں دیتا۔“

”میں کئی بار رو دیتا، اسے کہتا کہ میری تنخواہ تمہارے سامنے ہے، پہلے دن سے تم کو ہر چیز کا علم ہے، کرایہ، بلز اور دیگر تمام اخراجات بھی میں کر رہا ہوں تو ایسے میں اضافی رقم میرے پاس کہاں سے آئے گی؟ آج پھر اسی بات پر پھڈا ہوا، میں نے پرس کھول کر دکھا دیا کہ صرف سو درہم موجود ہیں، یہ بھی تم رکھ لو لیکن خدارا لڑائی جھگڑا کر کے گھر کا ماحول خراب مت کرو۔ تم بھی تو کماتی ہو یار، ہم نے طے کیا تھا کہ دونوں مل جل کر گھر چلائیں گے جبکہ تم اک پیسہ بھی لگانے پر تیار نہیں ہو۔ میرا گریبان پکڑتے ہوئے مجھے کمرے سے باہر دھکیل دیا گیا، میرا سامان پہلے ہی پیک کر کے رکھا ہوا تھا، اٹھایا اور گلی میں پھینک دیا کہ یہاں سے دفع ہو جاؤ ورنہ میں پولیس بلا لوں گی، مجھے طلاق دو اور میری جان چھوڑو۔“

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان دونوں کے درمیان برابری کا معاہدہ نہیں ہوا تھا؟

پاک و ہند میں کہنے کی حد تک مرد کا راج چلتا ہے، یہاں مرد گھر سے باہر جاکر کماتا ہے۔ دس ہزار ہو یا دس لاکھ، ایک کروڑ ہو یا دس کروڑ وہ تمام رقم گھر میں لاتا ہے، کوئی کاروبار کرے تب بھی اس کا یہ پیسہ کہیں نہ کہیں گھر میں ہی لگتا ہے۔ گاڑی خریدے تب بھی ہر صورت میں گھر کے لئے ہی خریدتا ہے، مرد سرکاری افسر ہو، سیاستدان ہو یا کاروباری ہوگھر کے لئے بنا تنخواہ کا ڈرائیور بنا ہوتا ہے۔ مرد کی آمدن قلیل سے قلیل ہو یا کثیر سے کثیر، گھر کی قیمت، کرایہ، راشن، کپڑوں، جوتوں کی قیمت، ہوٹل، بجلی، پانی، گیس اور موبائل کے بل اور بچوں کی سکول کی فیسیں بھرنے میں خرچ ہوتی ہے۔

میں نے دیہاتی معاشرے میں آنکھ کھولی ہے جہاں عورت گھر کی سربراہ ہوتی ہے۔ خاندان برابری میں کس کو کیا دینا ہے، کس سے کیا لینا ہے یہ گھر کی عورت کی مرضی کے بننا طے ہونا ممکن ہی نہیں۔ مرد اگرچہ تھوڑی بہت اکڑ ضرور دکھاتا ہے لیکن آخر کار ہوتا وہی ہے جو عورت کی پسند ہو۔ سیدھی سی بات ہے گھر بھی جانا ہوتا ہے صاحب، کھانا بھی کھانا ہوتا ہے اور سب سے اہم جنسی تسکین بھی پوری کرنا ہوتی ہے۔ شہروں کی طرف نظر دوڑائیں تو عورت ہاؤس وائف ہے یا ورکنگ لیڈی، دونوں صورتوں میں مرد بھلے سو بار تیور دکھائے، اکڑے یا کبھی بدتمیزی بھی کر لے لیکن ہوتا وہی ہے جو عورت چاہتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2