زور آور ہوائیں کہیں کی چنگاری کہیں بھی رکھ سکتی ہیں


وقت کبھی یکساں نہیں رہتا، اس کا پہیہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے۔ نہ اچھے دن دائمی ہو سکتے اور نہ برا وقت مسلسل ٹھہر سکتا ہے۔ ثبات تغیر کو ہی حاصل ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی لوگ اصول اور نظریات کو داؤ پر لگاتے ہیں۔ کیا کیا پینترے بدلتے ہیں ہونی مگر ہو کر رہتی ہے۔ چالاکی یا ذہانت برا وقت آنے سے نہیں روک سکتی۔ حالات کا جبر تھا یا مجبوری کا تقاضہ پیپلز پارٹی ڈیڑھ سال سے غیر جمہوری اور غیر فطری طریقے سے اقتدار حاصل کرنے والی تحریک انصاف کی بغل بچہ بنی بیٹھی رہی۔

اس کی خاموش تائید اگر تحریک انصاف کو حاصل نہ ہوتی تو عمران خان کبھی بھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ شاید اس خاموشی کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت پر قائم سنگین مقدمات میں ہلکے ہاتھ کو یقینی بنانا تھا۔ اس کے باوجود مگر سب تدبیریں الٹی ہو گئیں اور آج زرداری صاحب نیب کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل میں پڑے ہیں۔

پیپلز پارٹی ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں زخم خوردہ رہی ہے۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کی تین حکومتوں کا اختتام غیر جمہوری طریقے سے ہوا اور چوتھی بار اس کی حکومتی مدت تو پوری ہوئی مگر کس طرح یہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود سینیٹ انتخابات سے قبل اس کی اعلی قیادت نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی صوبائی حکومت گرانے کے لئے وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جس کا وہ دہائیوں سے شکوہ کرتی تھی۔ مقصد صرف یہ تھا سینیٹ میں مسلم لیگ کی اکثریت کو روکا جا سکے۔

یہ مقصد کماحقہ پورا ہو گیا، پیپلز پارٹی سے اس کی شکایت بھی نہیں اقتدار کے کھیل کا طریقہ مملکت خداداد میں یہی رائج ہے۔ اس کے بعد بھی مگر اسے پیشکش ہوئی کہ چیئرمین سینیٹ کے لئے وہ رضا ربانی جیسے کسی غیر متازعہ اور جمہوریت پسند شخص کو نامزد کر دیں۔ لیکن اپنی ہی جماعت کے کسی با وقار شخص کو اس اہم عہدے پر نامزد کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی نے ایک غیر معروف شخص کو ایوان بالا کی سربراہی جیسے منصب پر لا بٹھایا جو رہتی دنیا تک شرمندگی بن کر اس کے اعمال نامے میں موجود رہے گا۔

پھر مرحلہ آیا عام انتخابات کا۔ اس سے متعلق تمام جماعتوں کو شکایات تھیں اور اس میں پیپلز پارٹی بھی ایک فریق تھی۔ ایک موقع پر ان جماعتوں میں سے کچھ رد عمل میں اتنی جذباتی ہو گئیں کہ جمہوریت ہی پٹڑی سے اترنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ ماننا چاہیے کہ اس موقع پر پیپلز پارٹی نے ہوشمندی کا ثبوت دیا اور حالات کا مقابلہ جمہوری طریقے سے کرنے پر تمام فریقین کو راضی کر لیا کہ ایوان میں بیٹھ کر غیر جمہوری روایات کے خاتمے کی کوشش ہو گی۔

مقابلے کا فارمولا طے ہوا۔ اسپیکر شپ پی پی کو ملنا تھی، وزارت عظمی کا امیدوار ن لیگ سے جبکہ ڈپٹی اسپیکر ایم ایم اے سے ہونا قرار پایا۔ عین وقت پر جب وقت قیام آیا پی پی یہ بہانہ بنا کر لیٹ گئی کہ شہباز شریف جو ن لیگ کے امیدوار ہیں ماضی میں ہماری قیادت کے متعلق غیر مناسب زبان استعمال کر چکے ہیں لہذا ان کی جماعت انہیں ووٹ نہیں دے سکتی۔ اس مثال سے پی پی قیادت کی اپنے ہی امیدوار کی کامیابی کے لئے سنجیدگی اور نیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اگر وہ عین وقت پر مینگنیاں نہ ڈالتی تو خورشید شاہ صاحب یقینا اسپیکر منتخب ہونے میں کامیاب ہو جاتے۔ بلا شبہ موجودہ اسپیکر کی نسبت ان کی شخصیت اس منصب کے لئے زیادہ موزوں تھی اور وہ موجودہ حالات میں اپوزیشن کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتے۔ اس کے علاوہ اگر پیشگی اپوزیشن اتحاد کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹنے کا سب کو علم نہ ہوتا تو وزیراعظم کے انتخاب کے نتائج بھی شاید مختلف ہوتے۔

صدارتی انتخاب کے موقع پر بھی جان بوجھ کر پی پی کی جانب سے ایسا شخص نامزد کیا گیا جس کے متعلق ایک سو دس فیصد گمان تھا اس پر اپوزیشن ہرگز متفق نہیں ہو گی۔ اگر پیپلز پارٹی اپنی قیادت کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی وجہ سے خود کو سب سے بڑی برائی کہنے والے کو سہولت دے سکتی تھی تو دیگر جماعتوں سے اپنی قیادت کی توہین کرنے والے شخص کی حمایت کی توقع کیسے رکھی جا سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی اپوزیشن کا صدارتی امیدوار کامیاب کرانے میں سنجیدہ ہوتی اور اسے اپنے ہی نام پر اصرار ہوتا تو بھی اس کی صفوں میں دیگر بہت سے قابل احترام لوگ موجود تھے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ تحریک انصاف کے امیدوار کو کامیاب کرانے کے لئے پیش کیے گئے نام کے پیچھے گمنامی مجبوریاں تھیں۔

نواز شریف نے اپنا تیسرا دور کس طرح مکمل کیا۔ دیس کا ہر بچہ ان کی مشکلات اور ان کے خلاف ہونے والی سازش سمجھ رہا تھا۔ دھرنوں کے پیچھے کون تھا اور کیا مقصد کار فرما تھا یہ بھی سب کے علم میں تھا۔ نواز شریف کے دیرینہ ساتھی مشاہداللہ نے ایک انٹرویو میں ایک ادارے سے تعلق رکھنی والی شخصیت کے جمہوریت کے خلاف سازش میں ملوث ہونے کا ذکر کر دیا۔ نواز شریف نے اپنے ماتحت افسر کے خلاف کوئی اقدام کرنے کے بجائے مشاہداللہ کو ہی فارغ کر دیا۔

ڈان لیکس کے معاملے میں بھی کتنی ہزیمت اٹھانی پڑی، ماتحت ادارے سے ٹویٹ کے ذریعے حکومتی موقف مسترد ہوا۔ ساتھیوں کی قربانی کے ساتھ ساتھ انہیں دنوں مسلم لیگ کی حکومت میں زرادری کے خلاف بھی مقدمات بنائے گئے تاکہ بے اختیاری و لاچارگی ہی سہی مگر وزیر اعظم کی کرسی پر دن پورے ہو جائیں۔ اتنا کچھ سہنے کے بعد بھی میاں صاحب اپنا دور مکمل نہ کر سکے اور رسوا کن انداز سے وزیراعظم ہاؤس سے نکال دیے گئے۔

آج سے تین سال قبل جب الطاف حسین کی مشکیں کسی جا رہی تھیں، درویش نے انتہائی ذمہ دار ذرائع کے حوالے سے لکھا تھا کہ پرنالہ یہاں تک نہیں رکے گا۔ بات چلی ہے تو دور تک جائے گی۔ نواز شریف اور زرداری کی گرفتاری میں دیدہ عبرت رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں کہ اقتدار و اختیار کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوا کرتی۔ آج جو لوگ اپوزیشن کے خلاف اپنے کندھے پیش کر رہے ہیں اور دشمنی و عناد میں ہر حد پھلانگنے کو تیار ہیں انہیں ذہن میں رکھنا چاہیے ہوائیں کسی کی نہیں ہوا کرتی۔ اور ہوا کے لیے کہیں کی چنگاری اٹھا کر کسی کے آنگن میں ڈالنا مسئلہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).