مہدی حسن کی گائیکی ۔۔۔ باد نوبہار چلے


اردو غزل کی گائیکی کی تاریخ مہدی حسن کے بغیر رقم نہیں ہو سکتی۔ ان کا منفرد انداز گلشنِ غزل میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھا۔ ان کی نرم مدھر آواز اور پیچیدہ راگوں میں گائی غزلوں میں سُروں کا اتار چڑھاؤ اور لفظوں کی ادائیگی نے ان کو فن کی بلندیوں پر پہنچا کر ادارے کی سی حیثیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دورمیں کہ جب استادبرکت علی خان، بڑے غلام علی، بیگم اختر جیسے گائیکوں کا سحر طاری تھا۔

ایک غیر معروف آواز نے غزل گائیکی کے مداحوں کو مقناطیس کی مانند اپنی جانب کھینچ لیا اور جلد ہی انہیں شہنشاہِ غزل کا خطاب دے کر اپنی پسندیدگی اور عزت کا اعتراف کیا گیا۔ گو ان کی شہنشاہت محض غزل ہی نہیں بلکہ موسیقی کی دوسری صنعتوں مثلاً کلاسیکی گانے، ٹھمری، کافیاں، فلمی گیت وغیرہ پہ بھی اتنی ہی صادق آتی ہے۔ دراصل یہ خطاب ان کے فن کی مہارت کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ اس موقع پر ان کی ایک مشہور غزل ( جس کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ) کا ذکر ضروری ہے

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

ہر چند کہ فیض صاحب ایک اہم شاعر ٹھہرے، تاہم ان کی اس غزل کو ہمیشگی یا دوام مہدی حسن کی گائیکی نے دیا۔ غزل کی دُھن مہدی حسن صاحب کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر نے بنائی تھی اور پہلی بار 1959 میں لاہور ریڈیو سے نشر ہوئی۔ گوبعد میں 1964 میں فلم ڈائریکٹر خلیل قیصر نے اس غزل کو اپنی فلم ”فرنگی“ کے لئے لے لیا تھا۔ فلم میں یہ غزل اس وقت کے مشہور اداکار علاؤالدین صاحب پہ فلمبند ہوئی۔

اس معروف غزل کے متعلق ایک انٹرویو میں مہدی حسن صاحب نے انکشاف کیا کہ پہلے اس غزل کو خلیل قیصر صاحب نے مشہور گلوکارہ نسیم بیگم کی آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔ جبکہ اسی زمانے میں ای ایم آئی (ایک مشہور ریکارڈنگ کمپنی) کے انجینئر اختر صاحب نے مہدی حسن صاحب کی آواز میں بھی ریکارڈ کر لیا تھا۔ جب فیض احمد فیض صاحب نے پہلی بار اس غزل کو سنا تو وہ رو دیے اور کہا کہ ”پھر سناؤ“ تین دفعہ سنا اور کہنے لگے۔ ”یار یہ میری لکھی ہوئی غزل ہے؟

اس لڑکے نے کیا کیا ہے؟ ”یہ ان کا مہدی حسن کی غزل گائیکی سے متاثر ہونے کا بھرپور اظہار تھا۔ غزل کی خوبصورتی مہدی حسن صاحب کی آواز میں مزید نکھر کے آ گئی تھی۔ اس غزل کو سننے کے بعد جب فیض صاحب کو نسیم بیگم کی آواز میں یہی غزل سنائی گئی تومحض استھائی ہی سنی اور کہا“ بس یہی (مہدی حسن والی) ہی ٹھیک ہے۔ ”

یہ غزل ریڈیو سے نشر ہوتے ہی مقبولِ خاص و عام ہوئی۔ مہدی حسن صاحب سے اس کی بار بار فرمائش ہوتی۔ انہوں نے ہر عوامی اور نجی محفل میں اسے گایا اور ہر بار نئے انداز کے ساتھ۔ ایک دفعہ ملتان کالج کے کسی مشاعرہ میں فیض صاحب سے لڑکوں نے کہا ”مہدی حسن والی غزل سنائیں۔ “ فیض صاحب ہنس پڑے اور کہا۔ ”واقعی وہ انہی کی غزل ہے۔ وہی سنائیں گے، میں نہیں سناسکتا“

اس غزل میں سارنگی، طبلہ اور سرمنڈل استعمال ہواتھا۔

پوربی زبان سے اردو غزل کی ادائیگی تک:۔ مہدی حسن صاحب سے اکثر ان کی اردو الفاظ کی ادائیگی اور غزلوں کے انتخاب کے سلسلے میں سوال پوچھے جاتے ہیں۔ یہ سوال یقینًا اہم ہیں بالخصوص اس لحاظ سے کہ ان کی آنکھ راجھستان میں کھلی اور پوربی زبان سے آشنائی تھی۔ اردو نہ ہونے کے برابر پڑھی، لیکن غزل گائی تو بیگم اختر اور دوسرے اہلِ زبان صاحبانِ فن کے مقابلہ میں اتنے ہی خوبصورت انداز میں گائی۔ اس کے جواب میں ہمیشہ مہدی حسن صاحب نے اپنی ریڈیو سے وابستگی کا ذکر کیا اور بڑے اہم ناموں مثلاً زیڈ ایبخاری، سلیم گیلانی، خواجہ خورشید انور کا نام لیا کہ جن کی رہنمائی میں انہوں نے بہترین غزلوں کا انتخاب کیا۔

پھر خود مہدی حسن صاحب کا اردو سیکھنے کا شوق بھی اہم ہے۔ انہوں نے پاکستان آ کر اپنے شوق سے اردو سیکھی، پھر ان کے مزاج میں محنت اور استقامت بھی تھی۔ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں۔ ”میرا یہ شوق تھا کہ جس کام میں ہاتھ ڈالو اسے پورا کرنا ہے۔ اس طرح گانے میں جب غزلوں کے پیچھے پڑا توسوچا یہ چیز (غزل) کرنا ہے تو کلاسیکل انداز میں ایسے انداز سے نکلو کہ جس سے کوئی اور کلاسیکی موسیقی کا آرٹسٹ نہ گیا ہو۔ “ انہوں نے کہا۔ ”میری غزلیں کلاسیکی رنگ دینے سے امر ہو گئیں۔ “

مہدی حسن کی غزل گائیکی کا سب سے بڑا احسان اردو ادب پہ ہے۔ اس طرح کہ انہوں نے کلاسیکی شعرا کی غزلوں کو اچھی موسیقی سے تروتازہ کر دیا اور اپنے تخلیقی انداز سے شاعر کے جذبات کو اس خوبصورتی سے سُروں میں ادا کیا کہ اشعار میں پنہاں معنی کے اظہار کا حق ادا ہو گیا۔ مثلاً ”بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی“ میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی بیبسی اور سوگواری ”دیکھ تو دل کے جان سے اٹھتا ہے“ میں خدائے سخن میر تقی میر کا ”روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام“ (حسرت موہانی) میں محبوب کی دلیری یا غالب کے کلام میں ”پھر مجھے دیدہِ تر یاد آیا۔ “ میں کلام کی تمنا کی۔

ان کی ہر غزل راگوں پر عبور کے باعث امر ہو گئی۔ یہاں میر تقی میر کی غزل ”پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے“ کا ذکر خاص کر ضروری ہے جس کی انتہائی مشکل دُھن نیاز احمد شامی نے ترتیب دی تھی اور ہندوستان کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر نے بار بار سنا اور ان کی گائیکی کی عمدگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ

” مہدی حسن صاحب کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ “

اساتذہ کے کلام کے علاوہ انہوں نے اپنے دور اور جدید نسل کے شعرا کے بہترین کلام کا بھی انتخاب کیا۔ مثلاً فیض احمد فیض، احمد فراز، پروین شاکر، سلیم کوثر وغیرہ، لیکن اردو شاعری سے دلچسپی اور سمجھنے کے شوق نے انہیں محض نامور شعراء کے کلام تک ہی محدود نہیں رکھا۔ بہت سے نسبتاً کم معروف شعراء مثلاً رضی ترمذی، حفیظ ہوشیار پوری، فرحت شہزاد، خاطر غزنوی وغیرہ کی خوبصورت غزلوں کو بھی اپنی گائیکی کی مہر سے ہمیشہ کے لئے تابندہ کر دیا۔

بڑے بڑے موسیقاروں نے اپنی موسیقی میں مہدی حسن صاحب کی آواز کا ساتھ اپنی خوش قسمتی جانا، لیکن مہدی حسن صاحب خود حسن صاحب خود بہت اعلی دھنوں کے خالق بھی تھے۔ راگوں پر عبور کی وجہ سے پیچیدہ سُروں کاملاپ، اعلی تخلیق فکرسرور طاری کرتا ہے۔

فی البدیہہ دُھنیں اور قوتِ ارادی:۔ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران کہ جہاں وہ ٹھمری کے رنگ میں گانے والے گائیک کے طور پر فن کا اظہار کرتے تھے، بہت سی یادگار کامیاب غزلوں کے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور انہوں نے دو غزلیں فی البدیہہ تخلیق کیں۔ ایک انٹرویو میں بتایا۔ ”میرے والد صاحب نیکہا (اگر زیادہ غزلوں کی دُھن بنانا ہو) ایک غزل کی دُھن بناؤ اور دو یا تین کو چھوڑ دو۔ ان کی دُھن مت بناؤ۔ جب اناؤنسمنٹ ہو جائے تو فی البدیہہ شروع کرو۔ طرزبنتی چلی جائے گی۔ اور گائے چلے جاؤ۔ “ مہدی حسن صاحب نے ان سے کہا ”اس طرح تو میں ریڈیو سے نکالا جاؤں گا (کیونکہ) غلط بھی ہو سکتا ہے۔ “

انہوں نے کہا ”نہیں۔ گاؤ اور اپنی وِل پاور (قوتِ ارادی) سے گاؤ۔ “ یہی یقینًا ان کی قوتِ ارادی ہی تو تھی کہ جس نے خوبصورت دُھنوں میں فی البدیہہ معرکہ العرا غزلوں کو تخلیق کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).