گرفتاریاں اور توہینِ کلام!


وزیراعظم عمران خان نے گرفتاریوں سے متعلق قوم سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا ہے۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کنٹینر پر کھڑے ہوکر وہ قوم سے وعدہ کیا کرتے تھے کہ اقتدار میں آکر شریف برادران اور آصف علی زرداری کو جیل میں ڈالوں گا۔ لہذا ان کے زبانی کہے گئے منشور کا ایک حصہ حکومت کے پہلے دس ماہ میں مکمل ہوگیا ہے۔

میاں نواز شریف جیل میں ہیں جبکہ میاں شہباز شریف جیل کی ہوا کھا کر لندن سے تروتازہ ہو کر واپس آئے ہیں۔ محترمہ مریم نواز بھی جیل بھگت چکی ہیں اور حمزہ شہباز نے بھی آخر کار جیل کا مزہ چکھ ہی لیا ہے۔ گرفتاریوں کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت بہت با برکت رہی ہے پورے ”ٹبر“ کی جیل یاترا کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری بھی اسی جا کے مقیم ہوئے ہیں جبکہ محترمہ فریال تالپور نیب کی ”قابل ترس“ پالیسی کے تحت آزاد ہیں اور کہا جارہا ہے کہ بلاول کے پاپا کے بعد پھوپھو بھی جلد ہی اسیروں کی جماعت میں شامل ہوجائیں گی۔

وزیراعظم عمران خان نے حالیہ گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پاکستان کی حالت پر رحم آگیا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پورے رمضان میں اور پھر عمرہ کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اللہ تعالیٰ سے پاکستان پر رحم کھانے اور اپوزیشن کے تمام بڑوں کی گرفتاریوں کی بہت زیادہ دعائیں مانگی ہوں۔

عوام یہ سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر پاکستان پر رحم کھا ہی لیا ہے تو پھر عوام کو اس کے ثمرات کب ملیں گے؟ شریف برادران جیلیں بھگت رہے ہیں لیکن ان کا بیانیہ اب بھی یہی ہے کہ ایک پائی کی کرپشن نہیں کی۔ جبکہ دوسری طرف آصف علی زرداری اور محترمہ فریال تالپور بھی جیل کی دہلیز پر کھڑے ہوکر کہہ رہے ہیں کہ نیب ”جعلی اعظم“ کے اشارے پر کام کررہا ہے۔ عوام پر تو اللہ کا کرم اس وقت ہوگا جب نام نہاد چوروں اور ڈاکوؤں سے لوٹی گئی رقم کی ریکوری ہوگی اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر احتساب کے نام پر عوام کی جیب پر مزید بوجھ بڑھے گا۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی ہونے والی گرفتاریوں سے ایک بات اور کھل کر سامنے آگئی ہے کہ آصف علی زرداری واقعی ”سیاسی مرشد“ ہے۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے وقت رقت آمیز مناظر دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ہنستے مسکراتے بلاول بھٹو نے والد کو جیل کے سفر پر روانہ کیا اور آصفہ بھٹو نے بھی روایت کے مطابق آصف علی زرداری سے گلے مل کر اظہار یکجہتی کیا۔

اس کے مقابلے میں اگر میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کی گرفتاری کو دیکھیں تو رائیونڈ میں جو رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے تھے اور جو رونا دھونا ہوا اور پھر جیل روانگی کے لئے جو ریلی نکالی گئی اس سے ایک طرف قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں بلکہ دوسری طرف ان کے اندر ایک ایسا خوف دیکھنے میں آیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف جیل سے کتنا خوف زدہ ہیں۔ میاں شہباز شریف بھی اچانک گرفتاری سے گھبرا گئے تھے اور بعد ازاں گرفتاری انہوں نے پروڈکشن کا سہارا لے کر آزاد ہوا کا مزہ لیا اور پھر ضمانت کے کے بعد انہوں نے پہلی جائے پناہ لندن میں ڈھونڈھی تھی۔ حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے جانے والی نیب کی ٹیم نے بھی جس صورتحال کا سامنا کیا تھا وہ انوکھا ہی تھا ایسا لگتا ہے کہ حمزہ شہباز شریف کو دوزخ کے فرشتے لینے آئے ہوئے ہیں اور موصوف جہنم کی آگ سے گھبرا کر گرفتاری سے ڈر رہے ہیں۔

گزشتہ روز بھی جب عدالت نے ضمانت منسوخ کی تھی تو آنکھوں نے وہی منظر دیکھا جو اس سے پہلے گرفتاری کے وقت دیکھا گیا تھا۔ حمزہ شہباز شریف نے گرفتاری کے وقت جو شعر پڑھا وہ شعر فیض احمد فیض نے ذوالفقار علی بھٹو کے لئے لکھا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کرپشن کے الزام کے بغیر جیل گیا تھا اور پھر پھانسی کے پھندے سے بھی جھول گیا تھا۔ حمزہ شہباز شریف ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ایک قدم بھی ”مقتل“ کی طرف چل کر دیکھیں تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے۔

چونکہ حمزہ شہباز شریف کے والد میاں شہباز شریف بھی بْرے وقت میں کبھی حبیب جالب کا اور کبھی فیض احمد فیض کا سہارا لیتے رہے ہیں اس لئے حمزہ شہباز نے بھی اس روائیت کو پورا کیا۔ ہمارے ملک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ فیض احمد فیض ’حبیب جالب اور علامہ اقبال جیسے جتنے بھی بڑے شاعر تھے ان کے کلام کو پڑھنے کے لئے اس قوم نے اتنے بڑے لیڈر پیدا نہیں کیے۔ لوٹ مار اور کرپشن کے بعد جس طرح شریف برادران بڑے شعراء کے کلام کا سہارا لیتے ہیں اس سے ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کلام کی ”بے ادبی“ شدت سے محسوس ہوتی ہے اور اپنے کلام کی بے حرمتی کو یہ شعراء کرام دیکھ کر یقیناً عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ سے از خود نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوں گے۔

وزیراعظم عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہوکر ایک گیند پر دو وکٹ لینے کا بھی دعویٰ کیا کرتے تھے۔ گزشتہ دو دنوں میں تین گرفتاریوں نے وزیراعظم کی یہ بات بھی سچ ثابت کردی ہے کہ وہ سیاسی وکٹ پر بھی کرکٹ جیسا کمال دکھا سکتے ہیں۔ پاکستان میں آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری ”نیبی مدد“ سے ممکن ہوئی ہے۔ جبکہ انگلینڈ میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی گرفتاری ”غیبی مدد“ کہی جاسکتی ہے۔ اسی لئے عمران خان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان پر کرم کردیا ہے لیکن جب تک مخلوق خدا سکھ کا سانس نہیں لے گی اس وقت تک عمران خان کو کامیاب تصور نہیں کیا جائے گا۔ البتہ حکومت کو یہ قانون ضرور بنانا چاہیے کہ بڑے لوگوں کا کلام چھوٹے لوگ نہ پڑھا کریں اور ایسا کرنے والوں کو ”توہینِ کلام“ کے الزام میں قرار واقعی سزا دی جائے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat