ناقابل اشاعت تحریر اور انسانی حقوق کا معما


گزشتہ ماہ میں نے ایک تحریر” ہم سب” پہ ارسال کی۔ وہ تحریر میں نے انتہائی غصے اور مایوسی میں لکھی۔ رمضان المبارک گرمی اور دفتر کی بھاگ دوڑ میں یہ دیکھنا بھول ہی گئی کہ تحریر شائع ہوئی یا نہیں۔ کوئی دو ہفتے بعد میں نے دوبارہ ارسال کی تو محترم وجاہت مسعود صاحب کی ای میل موصول ہوئی کہ نبیلہ بہن، تحریر نفرت انگیز ہے، اس لیے شائع نہیں کر سکتے۔ ان کی ای میل کے بعد ہم نے دوسری بار تحریر کو دیکھا تو وہ واقعی زیادہ ہی نفرت انگیز محسوس ہوئی۔

ان ہی دونوں ہمارے ایک ہمدرد، جو پشاور سے ہیں، ان کی کال آئی، بھائی کے کیس کے حوالے سے۔ جب میں نے حالات بتائے تو شدید غصے میں آ گئے اور کہنے لگے یار آپ بھی عجیب رائٹر ہیں۔ آپ کی آدھی باتیں میرے جیسے عام پاکستانی کے سر پہ سے گزر جاتی ہیں۔ کیا آپ اپنے بھائی کے ساتھ مسلسل جاری اس ناانصافی کو آسان الفاظ میں بیان نہیں کر سکتیں؟ یہ سیدھا انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ آخر ایسا کون سا جرم ہے جس میں نہ کیس چلتا ہے نا ہی ضمانت ہوتی ہے۔

سیدھا اور سادہ عام فہم یہ کوئی قصہ نہیں اور نہ افسانہ ہے یہ ظلم کی داستان ہے۔ ایک نوجوان اپنی زندگی کے دو سال آٹھ ماہ جیل میں سڑ گیا اور آپ سب ابھی تک چپ ہیں؟ کیوں ؟ کس بات کا انتظار ہے؟ صاف اور سادہ لکھیں۔

تو آج میں کوشش کروں گی کہ عدنان صاحب کی خواہش پہ سادہ اور وجاہت صاحب کے لیے کم نفرت انگیز تحریر لکھوں۔

میرے بھائی ڈاکٹر فرحان کامرانی جو ماہر نفسیات ہیں جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ نفسیات میں پی ایچ ڈی کے چند ماہ بعد ہی ان پہ سائبر کرائم کے الزام میں مقدمہ دائر کیا گیا اور چار اکتوبر دو ہزار سولہ کی شام جامعہ کراچی کے دروازے سے ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ نے اغوا کیا۔ وہ تمام وقت شدید ترین اذیت میں کاٹا کیوں کہ ہم سو فیصد اندھیرے میں تھے۔ تین روز بعد جیل کسٹڈی ہوئی اور آج تک وہ جیل میں ہی ہیں۔

مقدس عدالت کا سسٹم اس قدر شاندار ہے کہ صرف مدعی کا بیان ہونے میں دو سال گزر گئے۔ جس میں انہوں نے فرمایا کہ نا ہی میں اس شخص کو جانتی ہوں نہ پہچانتی ہوں، مدعی ہاتھ میں کچھ اسکرین شاٹ بحیثیت ثبوت لیے پھرتی ہیں۔ کیس کچھ اس نوع کا کمزور ہے کہ مدعی نے ایف آئی اے کے خلاف بھی درخواست لگائی ہوئی ہے عدم ثبوت کی۔ مختصراً یہ کہ ایک ایسا کیس جس میں نا ہی گواہ ہیں نا ثبوت۔ ایک خوفناک سازش کے تحت باقاعدہ پھنسایا گیا۔ بالکل ویسے ہی اسکرین شاٹ کو بنیاد بنا کر دو ماہ قبل جامعہ کراچی کے دوسرے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق کے ساتھ بھی یہ ظلم دہرایا جا رہا ہے لیکن اس بار ایف آئی آر کٹوانے سے قبل میڈیا ٹرائل ہو گیا۔

ابھی تک ستر سے زائد تاریخیں لگیں جن میں سے چالیس بار مدعی اور سرکاری وکیل غیر حاضر رہے۔ نواز حکومت کے دور میں سائبر کرائم بل منظور کیا گیا۔ جو ناقابل ضمانت و راضی نامہ ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں کیس چلانے کا کوئی رواج ہی نہیں وہاں کس عقل سے ناقابل ضمانت قانون بنایا گیا؟ ڈاکٹر فرحان کامرانی کے کیس میں یوں تو مدعی اور سرکاری وکیل آرام سے گھر پہ بیٹھے ہی چھٹی کی درخواست بھیج دیا کرتے ہیں، وہ اس وقت بالکل مستعد ہو جاتے ہیں جیسے ہی ضمانت کے لئے درخواست لگائی جاتی ہے۔

اس تمام قصے میں سب سے خاص ہے فریڈم آف سپیچ کا نعرہ لگانے والی ایک این جی او۔ آندھی آ ئے یا طوفان، رمضان ہو، عید بقر عید ہو، این جی او والی خواتین موجود ہوتی ہیں۔ جیسے مشن پہ ہوں۔ کہیں کوئی بال مس نہ ہو جائے۔

تین بار درخواست ضمانت نامنظور ہونے کے بعد جب دو ماہ قبل درخواست ہائی کورٹ میں لگائی گئی تو کئی تاریخوں کے بعد جب ایک روز ایسا محسوس ہوا کہ آج درخواست پہ کارروائی ہو جائے گی تو اس روز این جی او سے پانچ عورتیں جج صاحب کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔

عین اسی لمحے جج صاحب کو یاد آیا کہ وہ تو اس معاملے کو دیکھنے کے مجاز ہی نہیں۔ اور اب یا تو چیف جسٹس آف سندھ کیس دیکھ سکتے ہیں یا وہ جج جنہوں نے پہلے ضمانت کو نامنظور کیا وہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔

جب مجھے سارے فسانے کا علم ہوا تو شدید ردعمل میں میں نے وہ تحریر لکھ ڈالی جو وجاہت مسعود بھائی کو نفرت انگیز محسوس ہوئی۔

دراصل وہ ایک بہن کے آنسو تھے ، شدید کرب تھا کہ یہ تیسری عید بھی بھائی جیل میں ہی گزارے گا۔ بےبسی کی انتہا یہ کہ وہ سوائے اپنے غصے کو تحریر میں اتارنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔

عزیز قارئین! آپ ہی روشنی ڈالیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کا نوحہ کس کے سامنے پیش کیا جائے؟  کون ہے جو اس مقدس عدلیہ کی کارکردگی کا حساب لگائے؟

آخر ہم جیسے ہزاروں افراد جو جیل میں کیس چلنے کے انتظار میں سڑ رہے ہیں وہ کس کے پاس اپنی تذلیل کا مقدمہ درج کروائیں؟

(محترمہ نبیلہ کامرانی، آپ کا شکریہ کہ آپ نے خود سے یہ محسوس بھی کیا اور بیان بھی کیا کہ مسترد کی گئی تحریر واقعی اشتعال میں لکھی گئی تھی۔ اب آپ نے اپنا معاملہ صاف لفظوں میں بیان کر دیا تو اسے شائع کرنے میں ہمیں کوئی جھجھک نہیں ہوئی۔ دیکھئے، ناانصافی کا کوئی ایک پہلو نہیں ہوتا۔ جس طرح آپ کو اپنے بھائی اور گھرانے کے ساتھ ہونے والے ظلم کی اذیت معلوم ہے، بعینہ اس ملک میں کئی طرح کے ظلم ہو رہے ہیں۔ آپ کی اس تحریر میں بھی تین سطور حذف کی ہیں کیونکہ وہ نفس مضمون سے تعلق نہیں رکھتی تھیں اور ان سے خلط مبحث زاویے برآمد ہوتے ہیں۔ مدیر درویش نے اس ملک میں 1987 سے 2003 تک این جی او میں کام کیا۔ آپ کی رائے یقیناً وزن سے خالی نہیں لیکن اسی تصویر کے دوسرے رخ بھی موجود ہیں۔ لکھیے، لکھتے رہیے اور خیال رکھیے کہ دلیل اور حقیقت کے بیان میں آپ کا قلم کسی سے بھی ناانصافی نہ کرے۔ سلامت رہیے- مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).