عمران کون؟ میرا ہیرو


اگر جنابِ من جہانا (محترم جہانزیب عزیز، مبادا آپ جاناں ملک سمجھ لیں ) نے سال ڈیڑھ سال قبل ابنِ صفی کی عمران سیریز پر کام کرنے کا تذکرہ نہ کیا ہوتا تو 2018 کے الیکشن مہم کی گہماگہمی کے عروج پر ”عمران کون؟ “ کو میں کسی سیاسی تحریر کا عنوان ہی سمجھتا۔

ہم جیسی ستر کی دہائی میں لڑکپن گزارنے والی نسل کا پالا عمران نام کے دو ہیرووں سے پڑا، کھیل کے میدانوں کے رسیا لڑکوں (اور ان سے زیادہ لڑکیوں کا) آیئڈیل یونانی دیومالائی دیوتاؤں کا حسن لئے عمران خان، اور سخن شناسی کے دعویداروں کے لئے ابں ِ صفی کا تراشیدہ چُلبُلا، چالاک، لا ابالی، اور بلا کا ذہین سیکرٹ ایجنٹ عمران۔

ابنِ صفی کا ڈنکہ تو برِصغیر میں پچاس کی دہائی سے مسلسل بج رہا تھا، مگر ہمارے بچپن اور نوجوانی میں اردو ادب سے آشنائی کا کوئی داعی ابنِ صفی کے اثر سے محفوظ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ سو میں بھی اس سے مبرا نہیں، گو یہ اعتراف ضرور ہے کہ کافی عرصے تک ان کے عشاق میں شامل نہ ہو پائے۔ یہ عشق البتہ اہلیہ جہیز میں ساتھ لائیں، اور ہم نے صدقِ دل سے قبول لیا۔ لہٰزا میں کہہ سکتا ہوں کہ ابنِ صفی اور سیکرٹ ایجنٹ عمران سے میرا رشتہ لڑکپن کا نا سمجھ ”کرش“ نہیں بلکہ ایک ”باہوش و حواس دیوانے“ کا عشق ہے۔

دسمبر 2018 کی آخری جمعرات تقریباَ سال بھر کے وقفے کے بعد جہانزیب اور ان کی فیملی سے ملاقات ہوئی اور ”عمران کون؟ “ مع ان کے آٹوگراف عنائت ہوئی۔ لیکن اگلے پندرہوا اڑے کے دوران، عمران سیریز کی سچی عاشقہ، میری اہلیہ ہی نہ رہی۔ لہٰذا کتاب بھی چند ماہ زمانے کی گرد کی نذر ہوئی رہی۔ اب رمضان کی فرصت میں پڑھنے کا وقت ملا۔

ابنِ صفی کا کام لے کر آگے چلنا جان جوکھم میں ڈالنے کا کام ہے۔ یقین نہ آئے تو اس معرکے میں جا بجا پِٹے ہوئے شہسواروں کو گردِ راہ ہوتا دیکھ لیں۔ جہانزیب عزیز نے اس پر ہاتھ ڈالا تو یقین کریں مجھے کئی وسوسے تھے۔ جہانزیب خود ایک صاحبِ اسلوب لکھاری ٹھہرے، ایسے میں کسی دوسرے کے اسلوب کو اپنانا، پِھر تین دہائیوں سے زیادہ کا عصری فاصلہ، اس دوران سائنس اور انفارمیشن کے فیلڈ میں بلا خیز ترقی اور بے مثال تبدیلی۔

آخر کیسے نبھا پائیں گے؟ مگر کتاب پڑھی تو لطف بھی آیا اور مصنف کی کمال کاریگری کا قائل بھی ہونا پڑا۔ جہانزیب کا اپنا دعویٰ بھی ہے اور ان کے استادِ محترم جناب ڈاکٹر احسان الحق کا بھی ارشاد ہے کہ انہیں یہی محسوس ہوا کہ وہ ابنِ صفی کو پڑھ رہے ہیں۔ مگر میرا تجزیہ یہ ہے کہ ابنِ صفی کے اسلوب اور جہانزیب عزیز کی منفرد نکتہ آفرینی کے ایک حسین امتزاج نے عجب غضب ڈھایا ہے۔

تمام بنیادی کرداروں کی کریکٹرائزیشن وہی کی وہی ہے جو ابنِ صفی صاحب تخلیق کر گئے تھے۔ البتہ جہانزیب کی مہارت یہ ہے کہ تین دہائیاں، انفارمیشن ایکسپلوژن، اور تخیلاتی دنیا سے حقیقی علاقوں اور اداروں کے تذکرے تک کا سفر کسی ہچکی، تذبذب اور شعوری کوشش کے بغیر مکمل بے ساختگی سے طے پاگیا ہے۔

کہانی کی بُنت میں سسپنس، جزئیات کی آتھینٹیسٹی (authenticity) اور ایک متوازن اور موزوں ٹیمپو پڑھنے والے کو پہلے صفحے ہی سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ جہانزیب نے اپنے پاک فضائیہ کے بیک گراؤنڈ، فضائیہ کے تشہیری مواد کی پروڈکشن کے تجربے، نادرا اور دیگر سرکاری و پرایہویٹ اداروں میں خدمات کے دوران عمیق مشاہدے کی صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک شاندار تخلیق کے ذریعے ابنِ صفی کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

خصوصاَ جہانزیب عزیز کی اپنی بذلہ سنجی نے عمران کو اس کی اصل کے مطابق ایک مثبت، خوشگوار اور جیتے جاگتے کردار میں ریواؤ (revive ) کرکے اس قحط الرجالی کے دور میں نوجوانوں کو حقیقی نہ سہی ایک افسانوی ہیرو کا بیش قیمت تحفہ دیا ہے۔ میں تو کتاب کے عنوان ”عمران کون؟ “ کا جواب یہی دوں گا ”میرا ہیرو“۔

جہانزیب نے پیشرس میں لکھا ہے کہ یہ سلسہ جاری رہے گا یا نہیں اس کا انحصار قارئین کے ردِ عمل پر ہے۔ میری جہانزیب سے التجا ہوگی کہ معیاری ادب (اور وہ بھی اردو ادب) کی قحط سالی کے اس دور میں اس سلسلے کا جاری رہنا ایک آپشن نہیں کمپلشن ہے۔ اس قحط سالی میں کتاب ہی نہیں، قارئین بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں، اس لئے کتاب دستیاب ہوگی تو قاری بھی پیدا ہوگا۔ اردو ادب کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے یہ آپ پر قرض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).