مخولستان


میں مخولستان کا باسی ہوں۔ یوں تو میرا ملک جب قائم ہوا اس وقت اس کا نام مخولستان نہیں تھا لیکن قیام کے چند سال بعد ہی حالات و واقعات نے وہ رخ اختیار کیا کہ جس کو دیکھ کر سیانوں نے مشورہ دیا کہ اس کا نام مخولستان ہونا چاہیے۔ یوں تو مخولستان کی تاریخ بہتّر برسوں پہ پھیلی ہوئی ہے لیکن میں اس تاریخ کو ایک بار پھر سب کو سنا کر بور نہیں کرنا چاہتا۔ البتہ بالعموم گزشتہ چند سال کے اور بالخصوص حالیہ چند ماہ کے بہت سے مخول واقعات کا یوں جمگھٹا لگا ہوا ہے کہ اگر ان کی طرف نظر نہ دوڑائی تو آپ شاید بہت سا مخول مس کر جائیں۔

یوں تو حضرت انسان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد حکمرانوں کے چناؤ کے لیے جہموریت کا طریقہ اپنانا لیکن مخولستان میں اس جمہوری نظام کے چراغ کو بھی شروع سے ہی تیز ہواؤں کا سامنا رہا ہے۔ حیران کن طور پہ پہلے ساٹھ سال میں کسی جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری نہ کرنے دی گئی۔ کبھی مخولستان کا چوکیدار حفاظت کے نام پہ کار ہائے سلطنت کو چلانے کے لیے کود پڑتا اور کبھی تیز مزاج نو خیز سیاستدان خود ہی دست و گریبان ہو جاتے۔ مخولستان کا چوکیدار واحد شخصیت تھا جو مخول بھی انتہائی سنجیدہ شکل بنا کرتا ہے۔ جبکہ سیاستدان تو ہر وقت مخول کے موڈ میں ہی رہتے تھے۔ گویا ہر طرف بس مخول کا راج تھا۔

دنیا سائنسی ترقی کرتی جا رہی تھی اور ملک میں مسلسل تیسری بار جمہوری حکومت میں اقتدار کی منتقلی کا عمل ہونا تھا تو مخولستان کے کرتا دھرتا نے بھی سوچا کہ کیونکہ اس بار سائنسی طریقے سے الیکشن نتائج مرتب کیے جائیں۔ اور چونکہ مخولستان میں ہر چیز مخول میں اڑانے کی عادت تھی لہذا الیکشن والے روز سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلنے کے باجود جب ووٹوں کی گنتی شرو ع ہوئی تو مخولستان کی سائنسی جدت کسی آسیب زدہ ندی کا کنارہ ثابت ہوئی۔ ووٹوں کی گنتی کے لیے بنایا جانا والے نظام بذات خود ایک مخول ثابت ہوا۔ اور یوں اس سارے منظر نامے سے ایسے ”مخولی“ حکومت برآمد ہوئی جنہوں نے روز اوّل سے ہی ہر طرح سے عوام کے لیے مخول کا بھرپور انتظام کرنا شروع کیا۔ یعنی اگر ستّر سال سے مخول کی کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ پوری ہوتی گئی۔

مخولی حکومت نے پہلے چند ماہ تو اربوں روپے کی گاڑیاں کروڑوں میں فروخت کر کے عوام کو ریلیف دیا۔ یہ اربوں روپے کی گاڑیاں سابقہ حکمرانوں کی ”عیاشیوں“ کے لیے مختص تھیں۔ اس کے بعد مخولستان کے وزیراعظم کی نظر کروڑوں کی بھینسوں پہ پڑی۔ پھر وہ بھینسیں لاکھوں میں نیلام کرکے ملک کو وسیع منافع پہنچایا گیا۔ لیکن عوام کی مشکلات کم نا ہوئیں۔ حکومت اچھی تھی اور ایماندار بھی لہذا اس نے سابقہ حکومتوں کے چوریوں کو مزید اجاگر کرنا شروع کیا۔

لیکن اس سے بھی حالات میں کوئی بہتری نہ آئی تو ایک روز مخولستان کے پردھان منتری نے مرغی اور انڈوں کے ذریعے خود کفالت کے عظیم الشان منصوبے کو بے نقاب کیا لیکن مخولستان کے لوگوں نے اربوں روپے کمانے کے اس منصوبے کو سنجیدہ نہ لیا جو کہ یقیناً عوام کی بد قسمتی تھی۔ پھر ایک روز پردھان منتری نے ”بھینسیں اور کٹے“ پال کر لاکھوں کمانے کی نوید سنائی لیکن بھلا مخولستان کی عوام سے کسی اچھے کی امید کی ہی کیوں جائے انہوں نے یہ لاجواب منصوبہ بھی اپنے ٹھٹھوں کی نظر کر دیا۔

مخولستان کے حکمران پریشان تھے کہ کس طرح عوام کو ریلیف دیا جائے کیونکہ عوام اب یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ پچھلی کرپٹ حکومتوں کی وجہ سے سارا ریلیف ملنا غیر معینہ مدت تک کے لیے بند ہوگیا ہے۔ ان کی غلطیوں کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے۔ عوام اور حکمران اسی تذبذب میں تھے کہ مخولستان کے ہمسایہ ملک میں بھی الیکشن کے طبل بجتے ہی مخولستان پہ حملے کی دھمکیاں ملنی شروع ہوئیں۔

ہمسایوں کے چوکیداروں نے بھی اپنی دھاک بٹھانے کے لیے ایک دو ہوائی فائز کیے جن کی گولیوں کے خول ایک خالی میدان میں گرے اسی غصے میں مخولستان کے چوکیدار نے بھی بڑھ کے فائرنگ کی۔ اس کراس فائر میں مخولستان کے لوگ سب مخول چھوڑ کر یک جان ہو گئے اور عوام نے ایک ڈیڑھ ماہ تک کسی مشکل پہ لب کشائی نہیں کی البتہ گاہے بگاہے ان کو بتایا جاتا رہا کہ ”اچھے دن آئیں گے“۔

جونہی ملکوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ختم ہوا تو عوام کو پھر فکر لاحق ہوئی کہ ہمارے دکھوں کا مداوا کیسے ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مخولستان کی عوام کسی ریلیف کی امید لگائے اور اس کی حکومت اس سلسلے میں کوئی ”مخول“ نہ کہے۔ لہذا حکومت نے یک دم اعلان کیا کہ ہمارا شہہ بالا اور اوپنر ابھی کارکردگی نہیں دیکھا سکا اس لیے ہم لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے اس کو نکال رہے ہیں۔ عوام کو چند سانسیں سکون ملا۔

دکھ تھے کہ بڑھتے جا رہے تھے اور حکومت عوام کے دکھوں سے لاپرواہ کیسے رہ سکتی تھی۔ لہذا اس بار پردھان منتری اور ان کے چند ساتھیوں نے بڑا مخول کیا اور عوام کو بتایا کہ آپ سو روپے کے لیے رو رہے ہو حالانکہ مخولستان کی سمندری حدود سے توانائی کے اتنے بڑے ذخائر برآمد ہونے لگے ہیں کہ آپ ایک ایک ہزار کے نوٹ راہ چلتے پھینک کر جایا کریں گے۔ دو منی بجٹ کے گھونسے کھائے، روزانہ اپنی ڈوبتی نبضوں اور کرنسی کو گھورتے ہوئے، اچھے کی امید پہ بیٹھی عوام نے نیم دلی سے مسکرا کر دعائیں کرنی شروع کی کہ دن بدلنے کے لیے شاید کوئی آسمانی مدد ہو اور توانائی کے ذخائر نکل آئیں لیکن شاید ابھی ”عشق کے امتحاں اور بھی ہیں“۔ نتیجہ دعاؤں کے برعکس نکلا۔ مخولستان سے کوئی غیر معمولی توانائی کا ذخیرہ دریافت نہیں ہوا۔

”ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو“ والی صورتحال درپیش تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا پھر پرانے مخلولوں کی طرف رجوع کیا گیا تاکہ عوام کو مزید بھلایا جائے۔ اب کی بار بہتر تیاری کے ساتھ ایک اپوزیشن جماعت کے قائد کو لمبے چوڑے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کر لیا اور عوام کو دلاسہ یہ دیا جا رہا ہے کہ اب سب چوروں کو پکڑ لیا لہذا ملک کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ گو مخولستان کے بعض باسی ابھی بھی اس بات سے مطمئن تو نہیں کہ دن بدل جائیں گے لیکن دعا تو یہی کرتے ہیں۔

میں نے آپ کو اپنے ملک مخولستان کے بہت سے مخول سنائے تو آخر میں ایک سنجیدہ بات بھی ہو جائے۔ جس اپوزیشن راہنما کو لمبے چوڑے منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا ہے اس کی تفتیش مخولستان کے احتساب کے ادارے کے چئیرمین کے نیچے ہو گی۔ اس چئیرمین کے جس کے چند دن پہلے ہوشربا ویڈیوز اور آیڈیوز لیک ہوئیں۔ مخولستان کے سنجیدہ عوام، حکمرانوں، اپوزیشن جماعتوں اور اس ادارے سمیت کسی نے سائنسی بنیادوں پہ ”فرانزک“ تحقیق پہ زور نہیں دیا کہ کہیں مخولستان میں کوئی سنجیدہ واقعہ نہ رونما ہوجائے۔ کیونکہ ہمیں مخول پسند ہیں۔ اب ”اوپر سے نیچے تک“ شفاف تحقیقات ہوں گی اور کرپٹ لوگ اپنے انجام کو پہنچیں گے ”اچھے دن آئیں گے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).