میرا ننھا دوست اور سوال کے راستوں پہ لمبی ہوتی گھاس


نہر پر نیو کیمپس کے پل پر سے روز گزرتا ہوں، آپ ہی کی طرح راستوں پر بھکاریوں کو دیکھتا، نظر انداز کرتا مگر چند دنوں سے سگنل پر بچوں کی ایک نئی قطار کو نظر انداز نہ کر پایا۔ ایک بہت ہی معصوم سا بچہ جس کی عمر کوئی گیارہ سال ہے پاس آ کرحیرت بھری مسکراہٹ سے کبھی آنکھوں میں دیکھتا ہے کبھی گاڑی کے اندر جھانکتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کبھی صفائی کے کپڑے، کبھی بیچنے کو معمولی کھلونے ہوتے ہیں اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ میں نے کچھ دیا تو ٹھیک، نہ دیا تو بھی ٹھیک۔ اس کی مسکراہٹ میں کبھی کمی آئی نہ کبھی اس کی آنکھوں کی حیرت میں۔

خدا کی قدرت نے گویا تمام جہانوں کی حیرت بھری معصومیت اس کی آنکھوں کو عطا کر دی ہے۔ بھیک تو اس نے کبھی مانگی نہیں، شاید ابھی اس کی تربیت کے دن ہیں۔ اگر کبھی آپ اسے کچھ بھی نہ دیں اور اس کے چھوٹے بھائی یعنی سات سال اور چھ سال کے بچے مانگنے لگیں تو وہ اپنے ہی چھوٹے بھائیوں سے لڑنا شروع کر دیتا ہے کہ صاحب نے جب کہہ دیا کہ نہیں تو پھر کیوں تنگ کرتے ہو۔ ایک دن ایسی ہی لڑائی کے بعد اس نے مجھے کہا صاحب آپ جاؤ، یہ چھوٹے ہیں نا انہیں عقل نہیں۔ آپ جاؤ۔ پھر وہی مسکراہٹ جس کو میں لاکھ کوشش کے باوجود ضبط تحریر میں لا نہیں سکتا۔ اس مسکراہٹ میں گویا دنیا بھر کا سکون ہے۔ اس کی آنکھوں میں خدا نے وہ مامتا سی رکھ دی ہے جن سے وہ دیکھتا اور مجھے یوں لگا جیسے وہ میری مدد کر رہا ہے، جیسے وہ مجھے بچا رہا ہے۔

آپ کو یاد دلانے کی کیا ضرورت کہ گرمی کا حال کیا ہے اور دھوپ کیسا حشر کرتی ہے۔ اسی گرمی، اسی دھوپ میں وہ بچے سڑک پر اس سگنل پہ سارا دن گزار دیتے ہیں۔ بھیک مانگتے ہوئے لوگ اپنی درد بھری کہانی سناتے ہیں۔ مگر عجیب ہے بچوں کی یہ نئی قطار جو کبھی اپنا کوئی دکھ بتاتے ہی نہیں۔ ننگے پیر جلتی سڑک پر کھڑے کبھی ایک پیر اوپر اٹھاتے کبھی دوسرا پیر اور پھر بھاگ کر ساتھ لگی گھاس پر اور ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر درخت کے سائے میں۔

اس کو کبھی کچھ دیا تو ساتھ ہی اس سے بھی چھوٹا بچہ آ کھڑا ہوتا ہے، اسے جو دیں تو ایک اور۔ میں نے اس بچے سے ایک دن پوچھا تو جواب ملا کہ وہ چھ بہن بھائی ہیں، والد فوت ہو چکا، ان کی والدہ سبزی منڈی میں رہتی ہے۔ پہلے وہ سکول جاتے تھے اب سب صبح نکل کر اس چوک پر آ کھڑے ہوتے اور رات گئے بھیک کی کمائی لے کر گھر چلے جاتے ہیں۔

یہ سب بتاتے ہوئے بھی اس کے ہونٹ نہیں کانپے، اس کی مسکراہٹ میں البتہ اداسی سی چھلک پڑی اور بس۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ اس پر کیا قیامت ٹوٹی ہوئی ہے یا پھر مجھے اندازہ نہیں کہ بھکاری دراصل کون ہے۔ وہ یا میں۔

میں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں مگر اپنی اوقات سے باہر نکل نہیں سکتا، میرا دل چاہتا ہے کہ ساری دنیا کا سرمایہ، اور خوشیاں اس کے پیروں پر ڈھیر کر کے اس سے پوچھوں کہ یہ سکون و اطمینان آخر کہاں سے ملتا ہے۔ کیوں تمہارے چہرے کی مسکراہٹ بھسم نہیں ہوئی اب تک۔ کیوں تمہاری آنکھوں میں حسرت نہیں ہے۔ کس دل کے مالک ہو تم کہ مجھے اپنے ہی بہن بھائیوں سے بچا کر کہتے ہو کہ صاحب کو تنگ نہ کرو۔ میں ایک گھر کا مالک ہوں، تنخواہ بھی روتے دھوتے، گزارے لائق مل ہی جاتی ہے، مگر سکون نام کو نہیں۔ اس سے بھی بڑی گاڑی چاہیے جو میرے پاس ہے۔ ابھی تو فون بھی بدلنا ہے۔ نام کو ہر چیز ہے مگر کچھ بھی نہیں اس لئے اور چاہیے۔ کیوں میرے سے پہلے کے لوگ عزت کما گئے، کیوں میرے بعد آنے والے مجھے کوسوں دور پیچھے چھوڑ کر آسمانوں جیسی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ کیوں میں اپنا کام کسی سے بھی نہ منوا سکا۔ کیوں چاکری کرتا ہوں، کیوں آنے والے کل کا خوف میری نیندیں حرام کئے رکھتا ہے۔

ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا صاحب لوگ کہتے ہیں ملک کا حال ٹھیک نہیں، صحیح کب ہو گا ؟ اب مسکرانے کی باری میری تھی۔ میں نے جواب دیا “جلد ہی” اور چل پڑا۔

کیا بتاتا اسے کہ جس طرح تم یتیم ہوئے اور سڑک پہ کھڑے ہو، اسی طرح ہمارا ملک جس نے بنایا تھا، وہ خدا کے پاس چلا گیا اور ملک یتیم ہو گیا۔ ہم بھی دنیا کے راستوں پر بھیک مانگتے ہیں۔ کیا بتاتا کہ ابھی تو ہم نے طے کرنا ہے کہ ملک بنایا کیوں تھا؟ بس یہ طے ہوتے ہی حالات اچھے ہو جائیں گے، تم اور تمہارے بہن بھائی پھر سکول جائیں گے۔ بس ذرا سا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ہمسائے ہم سے جلتے ہیں۔ ایک چین رہ گیا ہے، اسے بھی درست کرنا باقی ہے۔ ابتدا تو کر چکے۔ جلد ہی اسے ٹھیک بھی کر دیں گے، جیسے بھارت کو سبق سکھایا، جیسے سوویت یونین کو توڑا، بس ویسے ہی ذرا امریکہ کو توڑ دیں پھر تمہارا بھی سوچ لیں گے۔ اچھے دن آنے کو ہیں بس ذرا بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈالروں کی برسات برسنے دو کہ ہماری پالیسی ہی دعا اور امید ہے۔ تم نہیں جانتے کہ جن راستوں پر چل کر تمہیں بھکاری بنایا ہے، انہی راستوں پر چل کر ایک دن اپنی مرضی کا سورج نکال کر دکھانا ہے، بس اتنی سی تو بات ہے۔ چند روز اور میری جان چند روز۔

کل کی بات ہے۔ پتا چلا کہ پنجاب میں صحت کا بجٹ 112 ارب روپے سے کم کر کے اس مالی سال میں 53 ارب کر دیا گیا ہے۔ سن کر اچھا لگا کہ اس تبدیلی سے آبادیوں میں کمی تو ہو گی۔ بے شمار لوگ اب شکوہ کرنے کو بچیں گے ہی نہیں۔ کوئی راستوں پر مارا جائے گا، کوئی ہسپتال پہنچ کر مارا جائے گا۔ اس بچے کو بتاؤں گا کہ تمہارے ساتھ کھیلنے کو جلد ہی اور بچوں کی قطاریں لگنے والی ہیں، خوب رونق ہو گی۔

باقی دنیا کے بچے سکول جائیں، یا کھیل کے میدان میں اچھلیں کودیں، ہمیں کیا، ہمارے ارادے بلند ہیں اور عزم اونچا۔ ہمیں چور چور کھیلنا ہے۔ ہمیں ڈنڈا چلا کر سرمایہ کاری میں اضافہ بھی تو کرنا ہے۔ جاہل قوم کی تقدیر جاہلوں کے ہاتھ میں تھما کر کیا ہمیں ثابت کرنا ہے کہ یہاں کوئی بھی صاحب علم نہیں۔ ٹھیک ہے کہ جہاں پہنچے، وہاں پہنچانے والے بھی صاحب علم و ہنر ہی تھے مگر کیا ہوا جو نتیجہ مرضی کا نہیں ملا۔ یہ فروعی معاملات ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صاحبان علم کی نیت اچھی تھی۔ ہنر آئے نہ آئے، نیت اچھی ہونی چائیے۔ ایک نہ ایک دن ہماری مرضی کا نتیجہ نکل ہی آئے گا۔ نہ بھی آئے تو ہم کسی اور ملک میں بڑھاپا کاٹ لیں گے، لیکن اپنا کام پورا کریں گے۔ تمہارا بھی سوچ لیں گے لیکن ابھی کرنے کو بہت سے دوسرے ضروری کام ہیں۔

جان لو کہ جو عمران خان کا ساتھ نہیں دیتا، وہ اس ملک کا دشمن ہے۔ دیکھو نا کہ واجپائی اور مودی جب یہاں چل کر آتے ہیں تو دراصل جاہلوں کے نمائندوں سے ملتے ہیں، یہ تو ہماری دور اندیشی تھی کہ وقت پر تباہی کو ٹال دیا اور غداروں کو ہٹا کر محب وطن کو لے آئے۔ اب جو ہم منت کرتے ہیں اس پر شک کیسا؟ نیت پر تو شک نہیں ہے نا۔ یہ اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ ہے، اس قلعے کے وجود میں آنے سے قبل، اسلام کا کوئی قلعہ، کوئی گھر تھا ہی نہیں۔ یہ پہلے کبھی ٹوٹا ہے، جو اب ٹوٹے گا؟ بس ذرا سا کام باقی ہے۔ ستر اکہتر سال ہی تو ہوئے ہیں، سات سو سال بھی لگ جائیں تو ہم تیار ہیں۔ ہم راستہ نہیں بدلیں گے۔ ہم انہیں راستوں پر چلیں گے جن پر اب تک چلے ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک ہماری دانش کے سامنے کیا بیچتے ہیں؟ ہم ایسا لیڈر رکھتے ہیں جو اپنی حیرت انگیر شخصیت سے ان اداروں کو مبہوت کر ڈالے گا۔ ابھی تو چند ماہ ہوئے ہیں۔ چند اور سہی۔

بس ذرا قبائلی علاقوں کے شر پسندوں پر قابو پا لیں۔ سندھ کے ڈاکوؤں کو انجام تک پہنچائیں، ذرا سا بلوچستان کو ٹھیک کر لیں، تھوڑا پختونخوا کا سیاسی نقشہ مزید درست کر لیں کہ چند شیطان ابھی باقی ہیں۔ پنجاب بھی درست ہونے کی راہ پر ہے، لیکن ابھی فتنہ باقی ہے, اس کو کچل ڈالیں۔ پھر تمہارا بھی سوچ لیں گے۔ تم سکول جاؤ گے، یہاں نہیں تو روز آخرت۔ جو ملک اسلام کے نام پر بنا ہو، اس میں دنیاوی زندگی کو بہتر کرنے کا سوچنا بھی ایمان کو خطرے میں ڈالنے کی بات ہے۔ جب ہم کہتے ہیں تو ٹھیک کہتے ہیں کہ یہ ریاست مدینہ ہے۔ ہم اس ملک کی اشرافیہ ہیں ، ہم بیوروکریسی ہیں ، ہم سیاست دان ہیں ، ہم سرمایہ دار ہیں ، ہم جاگیر دار ہیں، ہم مذہبی ٹھیکیدار ہیں۔ ہم میڈیا ہیں۔

لیکن یہ ساری باتیں اس گیارہ سال کے بچے کو کیا سمجھاؤں جو ابھی تک میں خود بھی سمجھ نہیں پایا۔ ارادہ اب یہ ہے کہ اس بچے سے پوچھوں گا کہ چھوڑو اس سوال کو، ہم کب ٹھیک ہوں گے۔ مجھے یہ تو بتاؤ پیارے کہ تم یہ مسکراہٹ کہاں سے لاتے ہو۔ تمہاری آنکھوں میں یہ سکون کہاں سے اترتا ہے۔ تمہارے ننھے سے دل میں کوئی حسرت کیوں نہیں؟ تمہارے چہرے پر، کمزوری کی زردی تو ہے مگر بھوک دکھائی نہیں دیتی۔ تم روتے کیوں نہیں۔ تم یہاں کھڑے ہو کر بھی مانگتے کیوں نہیں۔ اگر یہ سب بھی نہ پوچھ سکا تو پھر اس سے کہوں گا کہ بس اتنا تو بتا دو کہ بھکاری کون ہے؟

کالم کی دُم: رحمت علی رازی بھی کل دنیا سےچل دیے۔ ان سے ہمیشہ کوئی بھی کام پڑا ، کوئی راہنمائی چاہی تو اتنے حق سے مانگی کہ جس سے خون کا رشتہ بھی عاجز آ جائے، ہمیشہ کہا کرتے، ہور کوئی حکم؟ جب بھی ان کے ساتھ نشست ہوتی تو ملکی حالات پر کڑھتے دیکھا، کاش کوئی راستہ ہوتا کہ ان سے پوچھتا کہ اب تو آپ کو قرار آ چکا ہو گا۔ بے تابی سے کہتا، رازی صاحب ایک کام تھا آپ سے، دائروں کے سفر سے اب تھک گیا ہوں، پوچھ کر بتا تو دیں، میری باری کب آئیے گی، ہو سکے تو یہ کام ذرا جلدی کروا دیں۔ شاید وہ کہتے “ہور کوئی حکم”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).